QR CodeQR Code

پی ٹی آئی کی کمزور ہوتی صوبائی حکومتیں

27 Jan 2020 23:59

اسلام ٹائمز: عثمان بزدار کو عمران خان کے بہت اہم دوست کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ اگر عمران خان نے پارٹی کی اکثریتی رائے کو اہمیت نہ دی تو پی ٹی آئی اندرونی طور پر مزید مشکلات کا شکار ہوسکتی ہے اور اس کیساتھ ساتھ اسمبلی میں فاورڈ بلاک بھی بن سکتے ہیں۔ ایم پی ایز کو فنڈز کے لالچ دیکر وقتی طور پر تو خاموش کرایا جاسکتا ہے، تاہم نااہلیوں کو شائد زیادہ دیر تک نہ چھپایا جاسکے۔ وزیراعظم کو موجودہ حالات کے تناظر میں عوام کی فلاح و بہبود کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرنا ہونگے، شخصیات کی بجائے مقاصد کو مدنظر رکھا جائے اور گورننس کی بہتری کیلئے اقدامات کئے جائیں۔


رپورٹ: ایس اے زیدی

گذشتہ عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے حسب توقع فتح حاصل کی، لیکن یہ فتح اس مضبوط انداز میں نہیں تھی، جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ خاص طور پر پنجاب میں مختلف بحرانوں میں گھری مسلم لیگ نون نے پی ٹی آئی پر سبقت حاصل کی، لیکن مرکز میں اکثریت نہ ہونے کیوجہ سے پنجاب میں لیگی حکومت نہ بن سکی اور تحریک انصاف نے بعض جماعتوں کیساتھ اتحاد اور آزاد امیدواروں کو ساتھ ملا کر سادہ اکثریت سے حکومت قائم کی۔ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کو اکثریت ملی اور یوں وہ حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔ اسی طرح بلوچستان میں بھی پی ٹی آئی کی اتحادی حکومت بنی۔ یہ سب کچھ سیاسی داو پیچ کیساتھ ساتھ عوام کی عمران خان کو ملنے والی حمایت کی وجہ سے ممکن ہوا اور وہ خود منصب وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ عمران خان نے 2013ء اور خاص طور پر 2018ء میں اپنی بھرپور انتخابی مہم چلائی۔ مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلزپارٹی کی باریاں لیتی اور روایتی طرز حکمرانی کرنے والی جماعتوں سے تنگ عوام نے عمران خان کو بھرپور انداز میں سپورٹ کیا اور نجات دہندہ سمجھا۔ خان صاحب نے بھی الیکشن مہم کے دوران اپنی دلفریب تقاریر اور نئے پاکستان کی امید سے پاکستانی قوم کو انہیں ہی ووٹ دینے پر قائل کیا۔

وفاق میں حسب توقع عمران خان نے ہی وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا، اس موقع پر دلچسپ امر یہ تھا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں وزارت اعلیٰ کے سہرے کس کے سر پر سجیں گے، سرپرائز دینے میں شہرت رکھنے والے عمران خان نے اس حوالے سے بھی قوم کو سرپرائز ہی دیا۔ پنجاب میں وزارت اعلیٰ کا اہم منصب جنوبی پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان کے پسماندہ علاقہ تونسہ سے تعلق رکھنے والے سردار عثمان بزدار کے حوالے کیا گیا۔ واضح رہے کہ عثمان بزادر کا تعلق پی ٹی آئی کیساتھ کوئی اتنا دیرینہ نہ تھا، اسی طرح خیبر پختونخوا میں عاطف خان، شوکت یوسفزئی اور مشتاق غنی جیسے پرانے سیاسی کھلاڑیوں کی موجودگی میں وزیراعلیٰ محمود خان بنے۔ تحریک انصاف کے رہنماوں اور ایم پی ایز نے اپنے قائد کے حکم پر سر تسلیم خم کیا اور نئے پاکستان کے عزم کو لیکر کام شروع کر دیا گیا۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا تھا کہ عثمان بزدار جیسے ‘‘شریف آدمی’’ پنجاب کی بیوروکریسی اور سیاست کو شائد ہینڈل نہ کر پائیں اور اس عہدے کیلئے شہباز شریف کا متبادل چاہیئے تھا، آہستہ آہستہ پارٹی کے اندر سے بھی عثمان بزدار کیخلاف آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں، تاہم کپتان اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے۔

اسی طرح خیبر پختونخوا میں بھی محمود خان کیخلاف مخصوص اندرونی لابی سرگرم رہی، جس کا نتیجہ گذشتہ روز تین صوبائی وزراء کی برطرفی کی صورت میں سامنے آگیا۔ سینیئر صوبائی وزیر عاطف خان، شہرام ترکئی اور شکیل خان کافی عرصہ سے محمود خان کیخلاف اندرونی طور پر لابنگ کر رہے تھے، یہ خبریں عمران خان تک پہنچ چکی تھیں کہ محمود خان کو کمزور کرنے میں خود ان کی اپنی کابینہ کے بعض وزراء شامل ہیں، ان تین سابق وزراء کے علاوہ بعض دیگر ایم پی ایز بھی اس مہم کا حصہ تھے۔ تاہم عمران خان نے محمود خان کے حوالے سے کچھ سوچنے کی بجائے ان تین وزراء کی چھٹی کروانے میں عافیت سمجھی۔ وزیراعظم کی اس سرپرستی سے ثابت ہوگیا کہ وہ کسی صورت محمود خان کے حوالے سے یوٹرن لینے کو تیار نہیں ہیں، اگر گورننس کی بات کی جائے تو اس حوالے سے بھی محمود خان کوئی قابل ذکر کارکردگی دکھانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ تاہم یہ واضح ہے کہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں اکثریت رکھنے کے باوجود پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کمزور پوزیشن میں دکھائی دے رہی ہے۔

پنجاب کی بات کی جائے تو یہاں عمران خان پر محمود خان سے زیادہ پریشر تھا، گذشتہ دنوں لیہ سے تعلق رکھنے والے ایم پی اے سردار شہاب الدین سیہڑ نے وزیراعلیٰ کیخلاف علم بغاوت بلند کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ انہیں کئی اراکین پنجاب اسمبلی کی حمایت حاصل ہے۔ تاہم عثمان بزدار اس بغاوت کو ایک ملاقات میں ہی کچلنے میں کامیاب رہے۔ عثمان بزدار کی شخصیت اور خلوص پر شائد اب تک کسی کو شک نہ ہو، تاہم پنجاب جیسے اہم اور بڑے صوبہ میں گورننس اور سیاسی کشمکش کو دیکھتے ہوئے اب تک عثمان بزار کوئی ایڈوینچر کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ پنجاب میں عثمان بزدار کی وزارت اعلیٰ کے لئے سب سے بڑا خطرہ پی ٹی آئی کی اہم اتحادی جماعت مسلم لیگ قاف اور جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے وہ ایم پی ایز ہیں، جنہیں جنوبی پنجاب صوبے کا ‘‘لالی پاپ’’ دیکر اپنے ساتھ ملایا گیا تھا۔ پرویز مشرف کے دور میں وزارت اعلیٰ کے مزے لینے والے چوہدری پرویز الہیٰ عثمان بزار کی جگہ لینے کے خواہشمند ہیں، جبکہ بعض پارٹی اراکین کی بھی یہ رائے ہے کہ پنجاب میں ایک ‘‘تگڑا’’ وزیراعلیٰ ہونا چاہیئے۔

گذشتہ دو ماہ کے دوران پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومتوں کیلئے مشکلات بڑھی ہیں، پارٹی کے اندر سے تبدیلی کی آوازیں مسلسل اٹھ رہی ہیں، تاہم عمران خان اس حوالے سے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں تو شائد اتنی جلدی تبدیلی نہ آئے، تاہم پنجاب میں عمران خان کیلئے عثمان بزدار کو مزید سپورٹ کرنا ممکن نہ رہے۔ واضح رہے کہ عثمان بزدار کو عمران خان کے بہت اہم دوست کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ اگر عمران خان نے پارٹی کی اکثریتی رائے کو اہمیت نہ دی تو پی ٹی آئی اندرونی طور پر مزید مشکلات کا شکار ہوسکتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسمبلی میں فاورڈ بلاک بھی بن سکتے ہیں۔ ایم پی ایز کو فنڈز کے لالچ دیکر وقتی طور پر تو خاموش کرایا جاسکتا ہے، تاہم نااہلیوں کو شائد زیادہ دیر تک نہ چھپایا جاسکے۔ وزیراعظم کو موجودہ حالات کے تناظر میں عوام کی فلاح و بہبود کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرنا ہوں گے، شخصیات کی بجائے مقاصد کو مدنظر رکھا جائے اور گورننس کی بہتری کیلئے اقدامات کئے جائیں۔


خبر کا کوڈ: 841099

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/841099/پی-ٹی-ا-ئی-کی-کمزور-ہوتی-صوبائی-حکومتیں

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org