1
Tuesday 28 Jan 2020 21:04

مائیکل ڈی اینڈریا کی ممکنہ ہلاکت اور امریکہ کی بوکھلاہٹ

مائیکل ڈی اینڈریا کی ممکنہ ہلاکت اور امریکہ کی بوکھلاہٹ
تحریر: عبدالحمید بیاتی

کل 27 جنوری کی دوپہر بعض میڈیا ذرائع نے بریکنگ نیوز لگاتے ہوئے افغانستان کے صوبہ غزنی میں ایک ہوائی جہاز گر کر تباہ ہو جانے کی خبر دی۔ بعض افغان حکام نے اس خبر کی تصدیق کی جبکہ بعض دیگر کی جانب سے تردید آگئی۔ سہ پہر کے قریب طالبان نے ایک بیانیہ جاری کیا، جس میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے امریکی ایئرفورس کا ایک جاسوس طیارہ مار گرایا ہے اور اس میں سوار تمام افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ کچھ دیر بعد امریکی حکام نے بھی اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ اس واقعے کی تحقیق کرنے میں مصروف ہیں۔ جب کچھ گھنٹے بعد تباہ شدہ طیارے کی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونا شروع ہوگئیں تو اس سے متعلق مزید حقائق سامنے آنا شروع ہوگئے۔ بعض آزاد میڈیا ذرائع نے گر کر تباہ ہونے والے اس طیارے سے متعلق معلومات شائع کرنا شروع کر دیں، جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ یہ طیارہ امریکی ایئرفورس کا ہے اور اس وقت ایران، عراق اور افغانستان کیلئے سی آئی اے کے آپریشنل چیف مائیکل ڈی اینڈریا کے زیر استعمال تھا۔ اسی طرح یہ بات بھی واضح ہوئی کہ یہ طیارہ درحقیقت ایک موبائل کمانڈ سنٹر تھا، جس میں بیٹھ کر سی آئی اے کے اعلیٰ سطحی افسران فوجی آپریشنز کی کمان کیا کرتے تھے۔

اس تباہ شدہ طیارے کے بارے میں معلومات منظرعام پر لانے والے مختلف صحافیوں میں سے ایک گاسپا نیوز نامی ویب سائٹ کے صحافی کارلو کیریسیو بھی ہیں۔ وہ اٹلی کے صحافی ہیں، جنہوں نے 19 سال کی عمر میں صحافت کا آغاز کیا ہے۔ وہ اس بارے میں لکھتے ہیں: "افغانستان میں گر کر تباہ ہونے والا طیارہ درحقیقت Bombardier Northrop Grumman E-11A نامی جاسوس طیارہ ہے، جو امریکی ایئرفورس کی ملکیت اور سی آئی اے کے زیر استعمال تھا۔ یہ طیارہ ایران، عراق اور افغانستان کیلئے سی آئی کے آپریشنل سربراہ مائیکل اینڈریا کو دیا گیا تھا۔ یہ طیارہ جدید ترین جاسوسی آلات سے لیس تھا اور ایک موبائل کمانڈ سنٹر تصور کیا جاتا تھا، جو خاص طور پر الیکٹرانک وار میں انتہائی بنیادی کردار کا حامل تھا۔ مائیکل ڈی اینڈریا "آیت اللہ مائیک" کے نام سے مشہور تھے اور کچھ عرصہ پہلے انہیں سی آئی اے میں ایران سے متعلق آپریشنز کا سربراہ بنایا گیا تھا۔" امریکہ کے جاسوسی ادارے سی آئی اے سے باخبر بعض امریکی صحافیوں نے حال ہی میں بغداد میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے براہ راست حکم پر شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی المہندس کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد مائیکل ڈی اینڈریا کا نام لیا تھا اور انہیں اس ٹارگٹ کلنگ آپریشن کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا تھا۔

مائیکل ڈی اینڈریا سی آئی اے میں "تاریکی کا شہزادہ" کے لقب سے معروف تھے۔ انہوں نے اپنے ایک غیر ملکی دورے کے دوران ایک مسلمان خاتون سے شادی کر رکھی تھی اور اسلام اختیار کرنے کا ڈھونگ بھی رچا رکھا تھا، جس کے بعد وہ "آیت اللہ مائیک" کے نام سے مشہور ہوگئے تھے۔ 2 جون 2017ء کے دن امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں ایک رپورٹ شائع ہوئی، جس میں کہا گیا تھا کہ مائیکل ڈی اینڈریا کو سی آئی اے میں ایران سے متعلق آپریشنز کا سربراہ مقرر کر دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے ان کے پاس 2000ء سے سی آئی اے میں انٹی ٹیروریزم سیل کی سربراہی کا عہدہ تھا۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ٹارگٹ کلنگ کا آپریشن بھی انہی کی سربراہی میں انجام پایا تھا۔ سی آئی اے کی جانب سے بغیر پائلٹ ڈرون طیاروں کے ذریعے انجام پانے والی تمام ٹارگٹ کلنگ کی وارداتیں درحقیقت مائیکل ڈی اینڈریا کی سربراہی میں ہی انجام پاتی تھیں۔ اب تک ڈرون طیاروں کے ذریعے ایسے ہزاروں افراد کی ٹارگٹ کلنگ کی جا چکی ہے، جن کے بارے میں دہشت گردی کا شبہ پایا جاتا تھا۔ مائیکل ڈی اینڈریا نارتھ ورجینیا میں پیدا ہوئے تھے اور ایک طویل عرصے سے امریکی جاسوسی ادارے سی آئی اے سے وابستہ تھے۔

اسی طرح مائیکل ڈی اینڈریا کو دو سال پہلے ایران میں بڑے پیمانے پر ہونے والی ہنگامہ آرائی اور شدت پسندانہ مظاہروں کا ماسٹر مائنڈ بھی قرار دیا جاتا ہے۔ اس وقت امریکی حکام نے کھل کر ان ہنگاموں میں ملوث افراد کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت ریکس ٹلرسن امریکہ کے وزیر خارجہ تھے۔ انہوں نے ان ہنگاموں کے بارے میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ ایران میں طاقت کی پرامن منتقلی چاہتا ہے۔ ٹلرسن کے اس بیان سے چند دن پہلے نیویارک ٹائمز میں ایک کالم شائع ہوا، جس میں کہا گیا تھا کہ ایران سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی ذمہ داری سی آئی اے میں مائیکل ڈی اینڈریا نامی اعلیٰ سطحی افسر کے سپرد کی گئی ہے۔ افغانستان میں امریکی ایئرفورس کے جاسوس طیارے کی سرنگونی سے متعلق ایک انتہائی عجیب بات یہ ہے کہ اس واقعے کے بعد اب تک واشنگٹن پر خاموشی کے سنگین بادل چھائے ہوئے ہیں اور امریکی حکام نے اس بارے میں انتہائی پراسرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ وہی امریکی حکام جنہوں نے تہران میں یوکرین کے مسافر بردار طیارے کی سرنگونی کے فوراً بعد ہی اس سے متعلق حقائق اگلنا شروع کر دیئے تھے، اب گونگے بنے ہوئے ہیں، گویا ان کی زبان پر چھالے پڑ گئے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 841257
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش