0
Tuesday 28 Jan 2020 20:36

جاسوسی طیارہ تباہ، سخت انتقام جاری ہے؟

جاسوسی طیارہ تباہ، سخت انتقام جاری ہے؟
تحریر: ارشاد حسین ناصر

گذشتہ روز افغانستان کے علاقے غزنی میں امریکہ کا ایک جاسوسی طیارہ گر گیا، جس میں سوار تمام افراد مارے گئے۔ یہ خبر مختلف ذرائع سے سوشل میڈیا اور کچھ دیگر ذرائع سے افشا ہوئی، اس خبر کو افغان طالبان نے بھی جاری کیا اور اسے طالبان کی کارروائی کا نتیجہ قرار دیا۔ چونکہ طیارہ جس علاقے میں گرا ہے، وہ طالبان کی عملداری میں آتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس علاقے میں امریکہ سے لڑنے والے طالبان کی حکومت ہے۔ کابل حکومت کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ جو بھی خبریں یا فوٹیجز سامنے آئی ہیں، وہ طالبان یا مقامی افراد کی طرف سے جاری کردہ ہیں، جن میں واضح طور پہ امریکی طیارہ جلتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔ شروع میں تو کسی طیارے کے گرنے کی خبر کو چھپانے کی کوشش کی گئی اور افغانستان کی آریانا ایئر لائن کا طیارہ بتایا گیا، مگر کچھ ہی دیر میں سب کچھ واضح ہوگیا کہ گرنے والا طیارہ امریکہ کا کوئی عام طیارہ نہیں تھا بلکہ یہ جدید ترین موبائل جاسوسی کا نیٹ ورک تھا، جس میں بیٹھے ہوئے پوری دنیا کو کنٹرول کیا جاتا تھا، اس میں امریکی ایجنسی سی آئی اے کے اہلکار سوار تھے اور سب سے بڑھ کر اس میں ایران، افغانستان، عراق، شام، لبنان اور مشرق وسطیٰ میں سی آئی اے کے آپریشنز کا انچارج مائیکل ڈی اینڈریا بھی سوار تھا، اسی نے جنرل قاسم سلیمانی اور عماد مغنیہ سمیت کئی مقاومتی کمانڈرز کے خلاف آپریشن کیا تھا۔

یہ کوئی معمولی خبر تو نہیں تھی، جسے چھپا لیا جائے، مگر امریکہ نے اپنے بیس عین الاسد پر ایرانی سپاہ کے میزائل حملے کے سولہ گھنٹے بعد میڈیا میں آکر یہ بتایا تھا کہ "آل از ویل" اور کسی صحافی کو سوال کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ ابھی تک دو دن ہو رہے ہیں، مگر امریکہ اس بارے ایسے چپ ہے جیسے انہیں سانپ سونگھ گیاہو۔ امریکی طیارے کی افغانستان میں تباہی اور سی آئی اے کی اعلیٰ اتھارٹیز کی ہلاکت کے بارے میں ابھی تک پینٹاگان، امریکی حکومت، ٹرمپ سب خاموش ہیں۔ اتنا وقت گزر جانے کے باوجود ابھی تک کوئی پالیسی بیان نہیں دیا۔ بی بی سی اردو، انڈیپینڈنٹ اردو پر ابھی تک منظور پشتین چھایا ہوا ہے، حیرت ہے کہ یوکرین کا طیارہ ایران میں گرے، بلا توقف معلومات شیئر کر دو، وجہ بھی بتا دو، اب تو تمہارا اپنا طیارہ گرا ہے، ابھی تک یہ ہی نہیں بتا رہے کہ کس وجہ سے طیارہ گرا اور کون کون مارا گیا ہے۔

مائیک جس کا کوڈ نیم آیت اللہ اور ڈارک پرنس معروف تھا، جس کو موجودہ وزیر خارجہ پومپیو کی قربت حاصل تھی، اس کا اس طیارے میں مارا جانا حیرت کا باعث بنا ہے، امریکہ کو شہید سلیمانی کی شہادت کے بعد مختلف ایریاز میں سخت نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ سب سے پہلے کینیا میں الشہاب نے امریکی فوجی بیس پر حملہ کیا اور اس میں ایک جرنیل مارا گیا، اس کے بعد عراق میں ایران نے علی الاعلان بدلے کے طور پر کارروائیوں کا آغاز کرتے ہوئے سب سے بڑے فوجی بیس پر بیلسٹک میزائلوں سے حملہ کیا، جسے ایران نے فقط ایک طمانچہ کہا۔ امریکہ کو اس بیس سے جو فوجی و جانی نقصان ہوا، اگرچہ اسے چھپایا گیا ہے، مگر آہستہ آہستہ خبریں باہر آرہی ہیں۔ مزید ایسی خبریں وقت گزرنے کیساتھ ساتھ سامنے آجائیں گی۔ ہاں اس میزائل حملے جسے ایران نے طمانچہ کہا، نے امریکی رعب، جھوٹا دبدبہ اور ٹیکنالوجی کی جدت کیساتھ جنگ لڑنے کی سب سے بہترین صلاحیت رکھنے والی فوج کے دعوے کو اس کے غرور سمیت خاک میں ملا دیا۔

گذشتہ ستر برس میں کسی نے امریکہ کو اس طرح جواب نہیں دیا تھا، جیسا ایران نے دیا۔ یہ اس لئے بھی باعث حیرت تھا کہ لوگوں کے نزدیک ایران اکتالیس سال سے امریکہ و عالمی پابندیوں کے باعث اقتصادی مشکلات سے دوچار ملک سمجھا جاتا ہے، جس سے دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کی دعویدار سے پنگا بازی کا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا، مگر یہ تو وہ جانتے ہیں، جن میں یہ جذبہ اور قوت ہوتی ہے کہ وہ دنیا کی مادی قوت اور طاقت و وسائل پر یقین نہیں رکھتے، ایران گذشتہ اکتالیس برس سے اللہ کی قدرت و طاقت پر یقین کامل رکھتے ہوئے پابندیوں اور مشکلات کو بردشت کرتا آ رہا ہے۔ جتنی مشکلات اس کے راستے میں کھڑی کی گئی ہیں، اگر یہ نہ ہوتیں تو اب تک اہل ایران اپنے علم اور جستجو کے باعث دنیائے اسلام کو متحد کرکے اسرائیل جیسے منحوس وجود کا خاتمہ کرچکے ہوتے اور امریکہ کی کیا مجال ہوتی کہ وہ مشرق وسطیٰ میں دکھائی دیتا۔

افغانستان میں امریکہ گذشتہ اٹھارہ برس سے بیٹھا ہوا ہے اور اس خطے کو آگ و بارود کا ڈھیر بنا کر یہاں خون کی ہولیاں کھیل رہا ہے۔ پاکستان بھی اس سے بہت زیادہ متاثر ہوا ہے، اب تک پاکستان میں لاکھوں افغان مہاجرین موجود ہیں، جبکہ اس ساری لڑائی اور جنگ کے باوجود امریکہ افغانستان سے جاتے جاتے طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے، تاکہ باعزت واپسی ہوسکے، مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ طالبان کے مضبوط گڑھ میں غزنی میں امریکہ کے جاسوسی طیارے کے گرنے کا واقعہ اور کابل حکومت و امریکیوں کا تمام تر وسائل کے باوجود طیارے کے ملبے تک پہنچ نہ پانا ان کے تمام دعووں کی نفی ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اگرچہ ایک پیغام کے ذریعے اس طیارے کی تباہی کی ذمہ داری قبول کی ہے، مگر ماہرین و تجزیہ کار طالبان کے اس دعوے اور اتنی بلندی پر طیارے کو ہٹ کرنے کی صلاحیت کے بارے میں اپنی آراء کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ بات حقیقت ہے کہ طالبان نے ابھی تک اتنی بلندی پر پرواز کرنے والے کسی طیارے کو کبھی نقصان نہیں پہنچایا، ہاں ہیلی کاپٹرز جو نیچے پرواز کرتے ہیں، ان کو کئی بار نقصان پہنچایا گیا ہے یا تباہ کیا گیا ہے۔

دوسری رائے جو سامنے آرہی ہے، وہ یہی ہے کہ ایران کی سپاہ قدس جو بیرونی آپریشن سرانجام دیتی ہے، ان کے روابط افغان طالبان کے ساتھ مستحکم ہوچکے ہیں اور ان کی قدر مشترک امریکہ دشمنی ہے۔ سید مقاومت اور رہبر معظم نیز دیگر کئی ایک رہنمائوں نے بھی شہید جنرل سلیمانی کی شہادت کا بدلہ خطے سے امریکی فوجوں کا مکمل انخلا کہا ہے اور افغانستان بھی اس میں شامل ہے، جہاں امریکہ ناجائز طور پہ بیٹھا اور امت مسلمہ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ ایران چاہتا ہے کہ افغانستان سے امریکہ کو نکالا جائے، اس کیلئے طالبان کیساتھ اس کے مذاکرات اور وفود کا تبادلہ بھی ہوا ہے۔ افغان طالبان نے جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت پر اپنا تعزیتی بیان بھی ایران کے نام جاری کیا تھا، جو اس بات کی علامت ہے کہ افغان طالبان نے ایرانی کردار کو تسلیم کیا ہے۔

امریکہ کی کسی بھی خطے میں فوجی موجودگی اس مملکت و ریاست کے اقتدار اعلیٰ اور اس کی خود مختاری پر ضرب کے مترادف ہے، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ملت افغانستان ایک عرصہ بلکہ روس کیساتھ جنگ کے زمانے سے مسلسل مشکلات کا شکار ہے، مملکت تباہ ہوچکی ہے، لاکھوں لوگ مارے جا چکے ہیں، لاکھوں ہی بے گھر ہیں اور ان کی کئی ایک نسلیں امن، سکون، شانتی اور ترقی و پیشرفت کو ترس گئے ہیں۔ ان کی پیدائش اور تربیت گولیوں اور بم دھماکوں کی گھن گرج میں ہوئی ہے۔ مہذب دنیا نے انہیں اپنے اپنے مقصد کیلئے استعمال کیا ہے، افغانستان کے ہمسائے ممالک کو اپنے اپنے مفادات عزیز ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ اس ملک سے نکل جائے اور افغانستان کی قسمت کا فیصلہ اس کے عوام کریں، ایسے میں ارد گرد کے ممالک بھی کسی مداخلت اور ترجیح سے پرہیز کریں تو شائد کوئی بہتر شکل سامنے آسکے۔

رہبر معظم امام خامنہ ای نے جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت پر سخت انتقام کی جو اصولی پالیسی بتائی تھی، اس کو سب ہی جانتے ہیں کہ امریکہ جہاں بھی ہو، اس کے مفادات کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے اور اس کا تعلق کسی بھی جغرافیہ، زمین، ہوا، فضا حتیٰ امریکہ تک ہوتا ہے اور اب دنیا ٹیکنالوجی پر انحصار کرتی ہے۔ ایران کیلئے سارے میدان کھلے ہیں، وہ جہاں چاہے گا، امریکہ کو سخت انتقام کا نشانہ بناتا رہیگا اور ہم سخت انتقام کے یہ نمونے دیکھتے رہینگے۔
خبر کا کوڈ : 841261
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش