1
Thursday 30 Jan 2020 19:10

اقتدار بچانے کیلئے ٹرمپ کی ڈیل

اقتدار بچانے کیلئے ٹرمپ کی ڈیل
تحریر: سید رحیم نعمتی

گذشتہ ہفتے جمعرات کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ وہ اس ہفتے منگل 28 جنوری کے دن مشرق وسطیٰ سے متعلق اپنے امن منصوبے کا اعلان کریں گے۔ کچھ ہی دیر بعد انہوں نے ٹویٹر پر پیغام بھیجا کہ عنقریب اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور ان کے سیاسی حریف بنی گانتیز سے ملاقات کروں گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ امن منصوبہ سینچری ڈیل کے نام سے معروف ہوچکا ہے اور اس سے پہلے کم از کم دو بار اس کا سرکاری طور پر اعلان موخر کیا جا چکا تھا۔ اس تاخیر کی بڑی وجہ اسرائیل میں اقتدار کی جنگ اور دو بار الیکشن میں جیتنے کے باوجود وزیراعظم نیتن یاہو کی جانب سے کابینہ تشکیل دینے میں ناکامی تھی۔ مقبوضہ فلسطین میں 3 مارچ کو ایک بار پھر مڈٹرم الیکشن منعقد ہونے والے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بار بھی ماضی کی طرح سینچری ڈیل کا اعلان مقبوضہ فلسطین میں ہونے والے ان الیکشن کے پیش نظر موخر کیوں نہیں کیا اور اس الیکشن کے حتمی نتائج سامنے آنے کا انتظار کیوں نہیں کیا؟ ڈونلڈ ٹرمپ اس وقت اس امن منصوبے کا اعلان کرکے کیا مقاصد حاصل کرنے کے درپے ہیں۔؟

اگر ہم مقبوضہ فلسطین میں غاصب اسرائیلی رژیم کی جانب سے گذشتہ دو بار منعقد ہونے والے الیکشن کا جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ دونوں بار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کھل کر بنجمن نیتن یاہو کی حمایت کی ہے۔ مقبوضہ فلسطین میں امریکی سفارت خانے کی تل ابیب سے بیت المقدس منتقلی اور مقبوضہ گولان ہائٹس کو اسرائیل کا حصہ قرار دینا اسی حمایت کا ایک حصہ ہے۔ اسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ اسرائیلی الیکشن سے چند دن پہلے ہی امریکہ اور اسرائیل کے درمیان مشترکہ دفاعی معاہدے کی بات کی ہے۔ درحقیقت امریکی صدر اپنی شدت پسندانہ اور یکطرفہ پالیسیوں کے مدنظر بنجمن نیتن یاہو جیسے شخص کی حمایت کے محتاج ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نے اب تک ایران سے جوہری معاہدے سے دستبرداری، ایران کے خلاف اقتصادی پابندیوں کی شدت میں اضافے اور دیگر شدت پسندانہ پالیسیوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کی بھرپور حمایت کی ہے۔ شاید اس بار بھی ڈونلڈ ٹرمپ مقبوضہ فلسطین میں تیسرے الیکشن منعقد ہونے سے پہلے سینچری ڈیل نامی منصوبے کو منظر عام پر لا کر بنجمن نیتن یاہو کو سیاسی طور پر مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔

جمعرات کے روز کسی مقدمے کے بغیر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اچانک سینچری ڈیل منظرعام پر لانے کا اعلان کئے جانا ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس وقت یہ منصوبہ منظر عام پر لانے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے۔ لیکن یوں دکھائی دیتا ہے کہ وہ اس الیکشن سے تقریباً دو ماہ پہلے سینچری ڈیل منظر عام پر لانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ اس کی وجہ سینیٹ میں ان کے مواخذے کی تحریک کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوسکتی۔ سینیٹ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مواخذہ ان کے خلاف عدالتی کارروائی کے مترادف ہے، جس کے باعث ان کا نام مواخذے کا شکار تیسرے امریکی صدر کے طور پر تاریخ میں لکھا جا چکا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا مواخذہ سینیٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں انجام پا رہا ہے، جبکہ اراکین سینیٹ کی حیثیت جیوری جیسی ہے اور اراکین کانگریس بھی اٹارنی جنرل کی حیثیت سے اس مواخذے میں شریک ہیں۔ سینیٹ میں ریپبلکن پارٹی سے وابستہ اراکین کی اکثریت ہے، جس کی بابت ڈونلڈ ٹرمپ کی کچھ ڈھارس بندھی ہے، لیکن اس کے باوجود وہ شدید پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ اراکین کانگریس کی جانب سے مختلف گواہوں خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق سکیورٹی مشیر جان بولٹن کو مواخذے کی تحریک میں بلائے جانے پر اصرار انہی پریشانیوں میں سے ایک ہے۔

جان بولٹن نے حال ہی میں ایک کتاب شائع کی ہے، جس میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یوکرین کے صدر پر اپنے سیاسی حریف جو بائیڈن کے بیٹے کے خلاف عدالتی تحقیقات شروع کرنے کیلئے دباو ڈالے جانے کا بھی ذکر ہے۔ اگرچہ ابھی یہ کتاب منظر عام پر نہیں آئی، لیکن نیویارک ٹائمز نے اس کے بارے میں کچھ معلومات شائع کی ہیں۔ اگر جان بولٹن کو ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے میں بلا لیا جاتا ہے اور وہ اس مسئلے کے پس پردہ حقائق بیان کرتے ہیں تو شاید سینیٹ میں موجود رپیبلکن پارٹی کے اراکین کی رائے میں بھی تبدیلی آجائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے ایک ڈراونا خواب ہے، کیونکہ جان بولٹن کی گواہی انہیں امریکی تاریخ کا ایسا پہلا صدر بنا سکتی ہے، جو مواخذے کے نتیجے میں اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ لہذا ڈونلڈ ٹرمپ نے سینچری ڈیل کا اچانک اعلان کرکے اپنا اقتدار بچانے کیلئے سودا کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر اسرائیل کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو اس مواخذے کی تحریک سے بچ کر نکل سکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 841635
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش