0
Friday 31 Jan 2020 08:26

سنچری ڈیل اور بین الاقوامی قوانین(1)

سنچری ڈیل اور بین الاقوامی قوانین(1)
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

عالمی قوانین کی دھجیاں اڑانے والے اور عالمی معاہدوں سے یکے بعد دیگر نکلنے والے ناقابل اعتماد امریکی صدر نے بالآخر متنازعہ سنچری ڈیل کی رونمائی کر دی۔ اس بدنام زمانہ سنچری ڈیل جسے اس صدی کا سب سے بڑا دھوکہ قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا، ایسے عالم میں سامنے آئی ہے کہ امریکی صدر کو عدم اعتماد کی تحریک اور نئے صدارتی انتخابات کا سامنا ہے اور دوسری طرف نیتن یاہو بھی دو دفعہ کی ناکامی کے بعد وزارت عظمیٰ کے لیے ہاتھ پائوں مار رہا ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرامپ نے 28 جنوری کو سرکاری طور پر قوم پرستی اور صہیونیت نوازی پر مشتمل سنچری ڈیل کی رونمائی کر دی ہے۔ اس منصوبے کے قانونی پہلو کیا ہیں، اس پر چند نکات پیش کرتے ہیں۔ تین سال کی کوششوں کے بعد امریکی صدر ڈونالڈ ٹرامپ نے اس منصوبے کی رونمائی کی ہے، جس تقریب میں سنچری ڈیل کی باقاعدہ رونمائی کی گئی، اس میں اسرائیل کے دونوں متوقع وزرائے اعظم، متحدہ عرب امارات، بحرین اور عمان کے نمائندے تو شریک تھے، لیکن اس میں فلسطین کا کوئی نمائندہ موجود نہیں تھا۔

فلسطینیوں کی عدم نمائندگی اہم ترین سوال ہے کہ جن کی سرزمین اور ملک کے بارے میں فیصلے کیے جا رہے ہیں، خود ان کا کوئی نمائندہ نہیں۔ گویا قانونی لحاظ سے ایسے کسی معاہدے کو تسلیم نہیں کیا جاتا، جس میں اصل فریق موجود ہی نہ ہو اور دوسرے فیصلے کرتے رہیں۔ گویا یہ فیصلہ یا منصوبہ ایک تیسرے فریق کی طرف سے تھونپا گیا ہے اور اس میں فریقین کی بجائے صرف ایک فریق یعنی اسرائیل کے مفادات کا تحفظ کیا گیا۔ فلسطین اور فلسطینیوں کا صرف استحصال کیا گیا۔ عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل احدم ابوالحفیظ نے اس موضوع پر اپنے پہلے ردعمل میں کہا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ فریقین کے درمیان فریقین کی مرضی سے انجام پانا چاہیئے، تاکہ تیسرا فریق ایک بن بلائے مہمان کا کردار ادا کرتے ہوئے دونوں پر اپنی مرضی مسلط نہ کر دے۔

اس سنچری ڈیل کی ایک شق فلسطین کے محل وقوع اور حددود اربعہ سے متعلق ہے۔ اس ڈیل میں اسرائیل کو غرب اردن کا 30 فیصد حصہ دے دیا گیا ہے اور اس علاقے میں موجود غیر قانونی صہیونی کالونیوں کو بھی قانونی تسلیم کرکے اسرائیل کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ ایک اور خطرناک شق بیت المقدس کو غاصب صہیونی حکومت کا دارالحکومت قرار دے کر بقول ڈونالڈ ٹرامپ یورشلم ناقابل تقسیم ہے اور یہ اسرائیل کے پاس رہے گا۔ گویا اس طرح پورے قدس پر اسرائیل کی حاکمیت اور اقتدار کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔ ڈونالڈ ٹرامپ کے اس صہیونی نواز معاہدے کے مطابق مشرقی بیت المقدس کے ایک چھوٹے سے علاقے میں فلسطین کو حق حاکمیت حاصل ہوگا اور امریکہ کا اس علاقے میں بھی سفارتخانہ ہوگا۔ قدس شہر کے مشرقی حصے میں دور دراز کے ایک محلے کو فلسطینیوں کے لیے مخصوص کرکے فلسطین کے ساتھ سنگین مذاق کیا گیا ہے۔

اس معاہدہ کے تحت ابودیس کا چار مربع کلومیٹر پر مشتمل علاقہ فلسطین کا دارالحکومت قرار پائے گا۔ سنچری ڈیل کی یہ شق اقوام متحدہ کی بہت سی قراردادوں کی نفی کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے منشور میں اس علاقے کے عوام کو اپنی تقدیر کو فیصلہ کرنے کا حق ہے، نہ کہ امریکی ہزاروں کلومیٹر دور سے اٹھ کر فلسطینیوں کی آبائی سرزمینوں کے بارے میں فیصلہ کریں۔ فلسطینی اس علاقے میں آباد ہیں، اس کی سرنوشت اور تقدیر کا فیصلہ فلسطینیوں کو ہی کرنے کا حق ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بھی اپنے بیان میں اس فیصلے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس مسئلے کو غیر اہم نہیں سمجھنا چاہیئے، کیونکہ اس معاہدے میں زمین کی تقسیم کا جو فارمولا دیا گیا ہے، اس میں فلسطینیوں کے زیادہ علاقوں کو اسرائیل کو دے دیا گیا ہے اور یہ عالمی قوانین کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔

نکتہ یہ ہے کہ اس معاہدے نے اسرئیل کو یہ موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے مختلف صہیونی کالونیوں کو غرب اردن کے علاقے میں شامل کر دے۔ یہ کھلم کھلا قبضہ اور فلسطینیوں کی سرزمین پر ناجائز تسلط ہے۔ اسرائیل کی طرف سے اس غیر قانونی قبضہ کو امریکہ کس طرح قانونی قرار دے سکتا ہے۔ عالمی قوانین کے مطابق فلسطینی سرزمین پر یہ اسرائیل کا ناجائز اور غاصبانہ قبضہ ہے۔ اگلا نکتہ یہ ہے کہ سنچری ڈیل میں فلسطینی ہر صورت میں اسرائیل کو ایک باقاعدہ یہودی ریاست کے طور پر تسلیم کریں۔ یہ مسئلہ بھی عالمی قوانین کے سراسر خلاف ہے، کیونکہ عالمی قوانین کے تحت کسی ریاست کو جبراً اور دھونس دھمکی سے سرکاری طور پر نہیں منوا جا سکتا، یہ ایک اختیاری عمل ہے، نہ کہ اجباری، حالانکہ بہت سے اسلامی ممالک نے بھی ابھی تک اسرائیل کو باقاعدہ ایک ریاست یا حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 841720
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش