1
Friday 31 Jan 2020 18:25

عین الاسد سے متعلق امریکہ کی محتاطانہ اطلاع رسانی

عین الاسد سے متعلق امریکہ کی محتاطانہ اطلاع رسانی
تحریر: مہدی پور صفا

1963ء سے 1969ء تک برسراقتدار رہنے والے امریکی صدر لینڈان جانسن نے ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے اگلے صدر نکسن کو اقتدار منتقل کرتے وقت ایک تاریخی جملہ کہا تھا۔ انہوں نے سیاست کے میدان میں اپنی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا تھا: "میں میڈیا پر ویت نام کی جنگ ہار گیا تھا۔" ان کا اشارہ اس میڈیا مہم کی جانب تھا جس میں ویتنام کی فضول جنگ کے حقائق سامنے لائے گئے تھے اور اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ امریکہ نے اس جنگ میں پانچ لاکھ امریکی فوجیوں کو بلاوجہ جھونکا ہے۔ اس کے بعد پینٹاگون نے جنگ سے متعلق ہر خبر شائع ہونے پر نظر رکھنا شروع کر دی اور میڈیا پر جنگ سے متعلق خبروں کے بارے میں ایک جامع پالیسی تشکیل دی۔ اگرچہ آزادی اظہار کے موجودہ دور میں یہ بات کچھ حد تک مضحکہ خیز دکھائی دیتی ہے لیکن امریکی ذرائع ابلاغ میں جنگ سے متعلق تمام خبریں شدید کنٹرول کی جاتی ہیں۔ اس کی ایک بہترین مثال عراق کے دارالحکومت بغداد کے قریب واقع امریکی فوجی اڈے "عین الاسد" پر ایران کی جانب سے میزائل حملے سے متعلق خبریں ہیں۔ ایران نے یہ حملہ 8 جنوری کے دن امریکہ کی جانب سے جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کی ٹارگٹ کلنگ کے انتقام کے طور پر انجام دیا تھا۔

عین الاسد فوجی اڈے پر ایران کے میزائل حملوں سے اگلے دن یعنی 9 جنوری کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ٹویٹر پر ایک ایسا جملہ بولا جو انتہائی مشہور ہو گیا۔ انہوں نے خود کو پرسکون ظاہر کرتے ہوئے لکھا “All is well”۔ اس پیغام میں ڈونلڈ ٹرمپ نے دعوی کیا کہ حملے کے وقت عین الاسد فوجی اڈہ خالی تھا اور صرف وہاں موجود عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے جبکہ ایک امریکی فوجی بھی اس حملے میں حتی زخمی بھی نہیں ہوا۔ کچھ گھنٹوں کے بعد انہوں نے صحافیوں سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بھی یہی باتیں دہرائیں۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اس فوجی اڈے پر ایران کے میزائل حملوں کے اثرات پر مبنی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر سامنے آنا شروع ہو گئیں۔ فوجی اڈے پر تباہی کے مناظر دیکھ کر کوئی احمق شخص ہی ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دعوے پر یقین کر سکتا تھا کہ امریکی فوجیوں کو کسی قسم کا کوئی جانی نقصان نہیں پہنچا ہو گا۔ ساتھ ہی ایسی رپورٹس بھی منظرعام پر آئیں کہ حملے کے فوراً بعد امریکہ کی ایئر ایمبولینسز نے اسرائیل، اردن اور کویت پروازیں کی ہیں۔

عین الاسد فوجی اڈے پر ایران کے میزائل حملوں کے نتیجے میں ہونے والے شدید نقصان سے متعلق خبریں سامنے آنے کا کام معروف امریکی نیوز چینل سی این این کی جانب سے شروع ہوا۔ سی این این کی ایک رپورٹر نے عین الاسد فوجی اڈے سے رپورٹنگ کرتے ہوئے وہاں کے کچھ مناظر دکھائے۔ البتہ یہ کوریج بھی انتہائی محدود سطح کی تھی اور فوجی اڈے کا تھوڑا سا حصہ رپورٹ میں دکھایا گیا تھا۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اگرچہ امریکی فوجیوں نے محفوظ پناہ گاہوں میں پناہ لے رکھی تھی لیکن دھماکوں کی شدت اس قدر زیادہ تھی کہ کچھ تعداد ذہنی دھچکے کا شکار ہو گئ۔ ابتدا میں یہ تعداد 11 بتائی گئی، کچھ دنوں بعد 34 ہو گئی، اس کے بعد 50 ہو گئی اور اب تازہ ترین رپورٹ میں یہ تعداد 64 امریکی فوجیوں تک پہنچ چکی ہے۔ تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ذہنی دھچکے کا شکار ہونے والے امریکی فوجیوں کی بڑی تعداد کا علاج عراق میں ہی کر لیا گیا تھا جبکہ کچھ فوجیوں کو مزید علاج کیلئے جرمنی بھیج دیا گیا۔

عین الاسد والا تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ میڈیا کی آزادی اور امریکہ کو آزادی کا گہوارہ قرار دینے کے پرجوش نعروں کے باوجود امریکی ذرائع ابلاغ کس قدر سیاسی اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول میں ہیں۔ یہی حال سوشل میڈیا کا بھی ہے۔ مثال کے طور پر عین الاسد فوجی اڈے پر ایران کے میزائل حملے کے فوراً بعد سوشل میڈیا پر اس سے متعلق ہر قسم کی ویڈیو اور تصاویر شائع کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی اور ایسی ویڈیوز یا تصاویر شائع کرنے والے افراد کے اکاونٹس بند کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اسی طرح شہید قاسم سلیمانی کی تصاویر اور ویڈیوز شائع کرنے پر بھی بہت سے افراد کو اپنے اکاونٹ سے ہاتھ دھونے پڑ گئے۔ ایسا ہی رویہ انسٹاگرام، فیس بک، ٹویٹر وغیرہ پر مشاہدہ کیا گیا ہے۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ یہ پالیسی نہ صرف امریکہ بلکہ اس کے اتحادی مغربی ممالک میں بھی اپنائی گئی ہے۔ مثال کے طور پر جب متحدہ عرب امارات کی بندرگاہ فجیرہ پر تیل بردار سمندری جہازوں پر حملہ ہوا تو پورے سوشل میڈیا پر اس بارے میں شدید سینسرشپ عائد کر دی گئی اور حتی ٹویٹر پر فجیرہ بندرگاہ کا نام لکھنے پر وارننگ دی جانے لگی۔
 
خبر کا کوڈ : 841808
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش