0
Saturday 1 Feb 2020 11:30

سنچری ڈیل اور بین الاقوامی قوانین(2)

سنچری ڈیل اور بین الاقوامی قوانین(2)
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

گذشتہ سے پیوستہ
ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ سنچری ڈیل میں آیا ہے کہ فلسطینی حکومت نہ ملک کے اندر اور نہ باہر اپنی فوجی قوت میں اضافہ یا توسیع دے سکتی ہے۔ اس شق میں حماس کو غزہ کے اندر ہتھیاروں سے عاری بھی کرنا ہے، یعنی غزہ میں حماس کو غیر مسلح کرنا بھی شامل ہے۔ یہ شق بھی عالمی قوانین کے منافی ہے، کیونکہ فوجی طاقت کا حصول اور اس کا باقی رکھنا ہر ملک کا قانونی حق ہے اور کوئی دوسرا ملک کسی ملک سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ تم فوجی طاقت نہ حاصل کرسکتے ہو اور نہ باقی رکھ سکتے ہو۔ کوئی دوسرا ملک کسی ملک کے بارے میں یہ تعین نہیں کرسکتا کہ اس ملک میں کس گروہ کے پاس ہتھیار ہونے چاہیں اور کونسا غیر مسلح ہونا چاہیئے۔ اقوام متحدہ کے منشور کی اکاون ویں شق اس حق کا دفاع کرتی ہے اور ہر ملک کو اس بات کا حق دیتی ہے کہ وہ مسلح گروہ رکھے یا نہ رکھے، وہ بھی فلسطین جیسے علاقے میں جہاں کشیدگی انتہا پر ہے۔ دشمن سر پر کھڑا ہو اور دفاع اشد ضروری ہے۔ لہذا فلسطینیوں کو مسلح یا غیر مسلح کرنے یا رکھنے کا حق فلسطینی حکومت کا ہے نہ کہ امریکہ یا غاصب اسرائیل کا۔ فلسطین کو آئے روز اسرائیلی حملوں کا خطرہ ہے، کیونکہ ماضی میں اسرائیل کئی بار غزہ اور فلسطینی علاقوں پر حملہ آور ہوچکا ہے۔

ایک اور نقطہ جس پر سب کی توجہ ہے، وہ فلسطین کے مہاجرین کا ہے۔ سنچری ڈیل میں فلسطینی مہاجرین کی واپسی پر قدغن لگا دیا گیا ہے۔ فلسطینی جو اس سرزمین کے اصل مالک ہیں اور انہیں غاصب اسرائیلیوں نے اپنی سرزمین سے نکال دیا یا وہ مجبور ہوکر نکل گئے، ان کی واپسی کے راستے کو بند کرنا سو فیصد غیر قانونی ہے۔ فلسطینی مہاجرین فلسطین کے باقاعدہ شہری ہیں، یہ علاقہ ان کا آبائی علاقہ ہے، کسی بھی قانون کے تحت انہیں اس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ عالمی قوانین کے تحت سنچری ڈیل کے تمام اہم شقیں بین الاقوامی قوانین کے ساتھ تضاد رکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر اقوام متحدہ کے ادارے سلامتی کونسل نے جس میں امریکہ بھی مستقل ممبر کے طور پر موجود ہے، 1967ء میں یہ فیصلہ دے چکا ہے کہ مشرقی بیت المقدس ایک مقبوضہ علاقہ ہے۔ اقوام متحدہ اور اس کی عالمی عدالت مشرقی بیت المقدس میں اسرائیل کی طرف سے تعمیر کی جانے والی حائل دیوار کو بھی غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔ سلامتی کونسل نے اپنی قرارداد 242 میں اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ 1967ء کے بعد قبضہ کی گئی سرزمینوں کو خالی کر دے، ان سرزمینوں میں مشرقی بیت المقدس بھی شامل ہے۔

انٹرنیشنل لاء کے استاد پروفیسر ستاد عزیزی کہتے ہیں کہ ٹرامپ کے پیش کردہ سنچری ڈیل منصوبے میں کئی تضادات پائے جاتے ہیں، جو عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ قدس کو اسرائیل کا دارالحکومت نہیں ہونا چاہیئے، کیونکہ اس پر فلسطینیوں کو حق مالکیت حاصل ہے اور اس کی تائید اقوام متحدہ بھی کر رہی ہے، جس کا ثبوت سلامتی کونسل کی قرارداد ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ غزہ پٹی اور غرب اردن عالمی قوانین کی روشنی میں فلسطینیوں کا ہے اور اس علاقے میں صہیونی بستیاں غیر قانونی ہیں۔ تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ اس معاہدے میں فلسطینی مہاجرین کی واپسی کے مسئلے کو اہمیت ہی نہیں دے گئی۔ ٹرامپ کا یہ معاہدہ یا ڈیل فلسطینی مہاجرین کی وطن واپسی کو ناممکن بنا رہا ہے۔ سنچری ڈیل کی تمام شقیں اسرائیل کی حمایت اور فلسطینیوں کی مخالفت میں ہیں۔

ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ غرب اردن کا وہ تمام علاقہ جو اردن کی سرحد سے ملتا ہے، وہ سارے کا سارا فلسطینیوں کی ملکیت ہونا چاہیئے۔ اس مسئلے کو بھی سنچری ڈیل میں غیر اہم سجھا گیا ہے اور سرحدوں کے کنٹرول کا نظام بھی اسرائیل کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ نقشے پر نگاہ کریں تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ فلسطین کے خشکی کے راستے کی تمام سرحدیں اسرائیل کے کنٹرول اور رحم کرم پر ہوں گی اور فلسطینی اسرائیلیوں کے محاصرے میں بے دست و پا غیر مسلح انسانوں کی ایک بھیڑ ہوگی، جس کے ساتھ اسرائیل جس طرح چاہے گا سلوک کرے گا۔ سنچری ڈیل میں بہت سے بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے، جس کی وجہ سے بین الاقوامی اداروں میں اس کو کوئی پذیرائی نہیں ملے گی، البتہ ڈونالڈ ٹرامپ چونکہ عالمی سطح پر افراتفری پھیلانے کے ایجنڈے پر ہیں اور وہ جہاں عالمی معاہدوں سے نکل کر انہیں مختلف چیلنجوں سے دوچار کر رہے ہیں، اسی طرح بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرکے عالمی قوانین کو رائے عامہ کی نگاہ میں بے وقت، کم تر اور غیر ضروری قرار دے کر ان کی حیثیت ختم کرنے کے خواہشمند ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 841935
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش