0
Sunday 2 Feb 2020 00:16

سینچری ڈیل اور فلسطینی قوم کا انتخاب

سینچری ڈیل اور فلسطینی قوم کا انتخاب
تحریر: عبدالباری عطوان (چیف ایڈیٹر رای الیوم)

سینچری ڈیل جن شقوں پر مشتمل ہے ان کا مقصد فلسطینی قوم اور رہنماوں کو اسرائیل کے سامنے مکمل طور پر جھکانے اور ان کی جانب سے شکست کا اعلان ہے۔ دوسری طرف فلسطینیوں کو یہ دھمکی بھی دی گئی ہے کہ اگر وہ اس معاہدے کو قبول کرنے سے گریز کرتے ہیں تو انہیں شدید ترین محاصرہ اور طاقت کے استعمال کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہیں فلسطین سے نکال کر اردن بھیج دیا جائے۔ سینچری ڈیل درحقیقت جنوبی افریقہ کی نسل پرست رژیم کی جانب سے مسلط کردہ قوانین کا دوسرا نسخہ ہے۔ سینچری ڈیل کے مطابق تمام فلسطینی مسلمانوں کو غزہ کی پٹی میں محدود کر دیا جانا ہے جبکہ وہ چاروں سمت سے اسرائیلیوں کے محاصرے میں ہوں گے اور پانی کے تمام ذخائر بھی اسرائیل کے قبضے میں چلے جائیں گے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں فلسطینی مسلمانوں کا صرف ایک کام رہ جائے گا اور وہ غلاموں کی طرح اسرائیلیوں کی خدمت اور نوکری کرنا ہو گا۔ اس ظالمانہ معاہدے میں نہ صرف جلاوطن فلسطینیوں سے وطن واپسی کا حق چھین لیا گیا ہے بلکہ مقبوضہ فلسطین میں موجود فلسطینیوں کو بھی یہاں سے نکال باہر کرنے کی سازش تیار کی گئی ہے۔

ایک طرف سینچری ڈیل نامی معاہدے کی رو سے مسجد اقصی گرا کر اس کی جگہ ہیکل سلیمان تعمیر کیا جانا ہے جبکہ دوسری طرف قدس شریف کو سرکاری سطح پر اسرائیل کا دارالحکومت بنا دیا جانا ہے اور فلسطینی حکام بھی اسے اسرائیل کا دارالحکومت ماننے پر مجبور ہوں گے۔ یہودی بستیوں کو قانونی حیثیت دے دی جائے گی اور اردن کا کچھ علاقہ بھی اسرائیل کو عطا کر دیا جائے گا۔ مزید برآں فلسطینی مزاحمتی گروہوں کو ختم کرنے کی ذمہ داری خود فلسطین اتھارٹی اور فلسطینی حکام پر عائد کر دی جائے گی۔ غزہ کی پٹی میں موجود فلسطینی مجاہد تنظیموں کو غیر مسلح ہونا پڑے گا۔ ان تمام امور کو سامنے رکھتے ہوئے بنجمن نیتن یاہو کا حق بنتا ہے کہ وہ جشن منائے اور سینچری ڈیل کے اعلان کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی قرار دے۔ ہمیں عربوں کی سرزنش کرنے سے پہلے یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ ہمارے 40 ہزار افراد یہودی بستیوں میں مقیم صہیونیوں کے چوکیدار اور جاسوس بن چکے ہیں اور اسی وجہ سے آج ہم موجودہ صورتحال کا شکار ہوئے ہیں۔ فلسطین اتھارٹی فلسطینی قوم کی نمائندہ ہونے کی دعویدار ہے جبکہ اس نے فلسطینی سرزمین کے 80 فیصد حصے سے چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے۔

ہمیں گذشتہ 26 سال کے دوران انجام پانے والے مذاکرات اور اقوام متحدہ میں ہونے والی تقریروں اور بین الاقوامی اداروں میں انجام پانے والی رکنیتوں کو فراموش نہیں کرنا چاہئے اور جان لینا چاہئے کہ انہی اقدامات نے ہمیں آج اس ذلت آمیز اور تحقیر آمیز صورتحال سے دوچار کیا ہے۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ فلسطین اتھارٹی اور فلسطینی سیاسی رہنما اب بھی اپنی گذشتہ روش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ فلسطین اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے جس تبدیلی کا وعدہ کیا ہے وہ مزید جدائی، مذاکرات کے تسلسل اور بین الاقوامی قوانین کی نئے سرے سے پابندی پر مشتمل نہیں ہونی چاہئے۔ بلکہ فلسطینی قوم میں مزاحمت اور انقلاب کی نئی لہر دوڑانے اور فلسطین اتھارٹی کو توڑ کر اسرائیل کے ساتھ انجام پائے تمام معاہدوں سے دستبرداری کی صورت میں ظاہر ہونی چاہئے۔ اوسلو معاہدہ ختم کر دیں اور فلسطینی قوم اپنی تقدیر اپنے ہاتھ میں لے لے۔ وہ نسل پرستانہ رژیم جسے فلسطین میں ڈونلڈ ٹرمپ زندہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے صرف اور صرف مزاحمت اور مسلح جدوجہد سے ہی اس کا سدباب ممکن ہے۔

پہلے انتفاضہ نے غاصب صہیونی رژیم کو اپنی بقا کیلئے عالمی طاقتوں سے رجوع کرنے اور فلسطین کی مجاہد قوم کے وجود کو تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا۔ دوسرے مسلح انتفاضہ نے اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم شیمون پیرز کو مزید جانی نقصان سے بچنے کیلئے فلسطینیوں سے مذاکرات پر مجبور کر دیا جبکہ عالمی طاقتیں بھی جلدی سے روڈمیپ تشکیل دینے کیلئے چار جانبہ کمیٹی تشکیل دینے پر مجبور ہو گئیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سینچری ڈیل کا انجام ناکامی اور شکست کے سوا کچھ نہیں۔ ایسے ہی جیسے غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی بالادستی اور قبضہ ختم ہوا ہے اور اس سے پہلے جنوبی لبنان سے اسرائیل کو ذلت آمیز پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ رام اللہ کے حکمرانوں کی جانب سے اسرائیل کی سکیورٹی فراہم کرنے کی کوشش قابل مذمت ہے اور فلسطینی قوم کے نقصان میں ہے۔ فلسطینی قوم اس وقت ایک خطرناک دوراہے پر کھڑی ہے اور فیصلہ کن تاریخی موڑ پر ہے۔ ایک طرف 50 ارب ڈالر کے بدلے قومی وقار اور خودمختاری بیچنے کا راستہ ہے جبکہ دوسری طرف مزاحمت کا راستہ ہے۔ البتہ اقوام متحدہ میں موجود 170 رکن ممالک اپنے حقوق کیلئے مزاحمت کو فلسطینی قوم کا جائز حق تصور کرتے ہیں۔
 
خبر کا کوڈ : 842083
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش