0
Saturday 1 Feb 2020 22:15

وائٹ کالر بدمعاشوں کا امن منصوبہ

وائٹ کالر بدمعاشوں کا امن منصوبہ
تحریر: سید اسد عباس

انسانی معاشروں میں بدمعاشوں کی دو قسمیں پائی جاتی ہیں، ایک وہ بدمعاش جو کھلم کھلا بدمعاشی اور بدقماشی کے عادی ہوتے ہیں اور اپنی اس شہرت پر کچھ شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ بدمعاشوں کی دوسری قسم وہ ہے، جو ہوتے بدمعاش ہی ہیں، تاہم بدمعاش کہلانا پسند نہیں کرتے، ایسے بدمعاشوں کو ہم وائٹ کالر بدمعاش کہہ سکتے ہیں۔ ایسے بدمعاش عموماً ایک دوسرے کے مخالف نہیں ہوتے بلکہ دھونس، دھاندلی کے کاموں میں ایک دوسرے کے مددگار ہوتے ہیں۔ عام لوگوں کی زندگی اور معاشرتی سکون ان دونوں قسم کے بدمعاشوں کی وجہ سے درہم برہم رہتا ہے، لیکن ان میں زیادہ خطرناک وائٹ کالر بدمعاش ہے، جو ظاہراً تو شرافت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے، تاہم اس کا طور طریقہ بدمعاشوں والا ہی ہے۔ یہ بدمعاش فقط چھوٹی سطح پر نہیں ہوتے، بعض بدمعاشوں کے باقاعدہ گروہ ہوتے ہیں، ایسے بدمعاش گروہوں کے سرغنہ کو گاڈ فادر کا خطاب دیا جاتا ہے۔

عالمی سیاست پر نظر دوڑائی جائے تو ہمیں یہاں بھی بدمعاشوں کی یہ دوسری قسم یعنی وائٹ کالر بدمعاش نظر آتے ہیں۔ فلسطین کے بارے صدی کی ڈیل کو ہی لے لیجیے۔ امریکا اور اسرائیل معاشی طاقت، فوجی قوت، سائنسی ترقی اور علمی میدانوں میں پیشرفت سبھی کچھ کے حامل ہیں۔ اگر ان کو دنیاوی معیارات کے تناظر میں دیکھا جائے تو ان کا شمار عزت دار اقوام اور معاشروں میں کیا جانا چاہیئے، تاہم ان کا مختلف مسائل کے بارے میں رویہ بالکل بدمعاشوں والا ہے۔ بالخصوص فلسطین کے مسئلے کے بارے میں تو ان کی بدمعاشی آج سب کے سامنے کھل چکی ہے۔ امریکی صدور اسرائیل کے قیام کے وقت سے انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ اس اکائی کی فلسطینیوں کے خلاف ہر جارحیت کی حمایت کرتے رہے۔ ہر موقع پر انہوں نے اسرائیل کو فائدہ پہنچانے اور اس کے تحفظ کی کوشش کی۔ فلسطینیوں کے سر پر بھی شفقت کا ہاتھ رکھے رکھا اور اسرائیلیوں کی بھی مدد کرتے رہے، تاہم آج امریکہ نے اپنی نام نہاد شرافت کا پردہ خود ہی اپنے ہاتھوں سے چاک کر دیا ہے۔

2017ء میں ٹرمپ نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے عالمی قراردادوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنا سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کیا، اگست 2018ء میں ٹرمپ نے امریکیوں کی جانب سے فلسطینیوں کو ملنے والی امداد کو بند کر دیا، پھر اقوام متحدہ کے ادارے UNRWA کے ذریعے فلسطینیوں کو ملنے والی امداد بند کر دی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ واشنگٹن میں قائم فلسطین کا سفارتی مرکز بھی بند کر دیا گیا اور اب 2020ء میں فلسطین کو مکمل طور پر اسرائیل کا ذیلی علاقہ بنانے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ اس صدی کی ڈیل کو برا بھلا کہے یا عرب لیگ اس کے خلاف مشترکہ بیان جاری کرے، امریکی غنڈہ اپنی طاقت اور قوت کے بل بوتے پر دنیا کے سامنے کھڑا ہے اور ان کا منہ چڑاتے ہوئے کہ رہا ہے کہ تم کو میرا جو بگاڑنا ہے بگاڑ لو، کروں گا میں وہی جو میری مرضی ہے۔

عرب لیگ بھی عجیب و غریب چڑیا کا نام ہے، جب صدر ٹرمپ فلسطین کے حوالے سے صدی کی ڈیل کا اعلان کر رہے تھے تو کئی ایک مسلمان ممالک کے نمائندے اس تقریب میں موجود تھے۔ اس صدی کی ڈیل کے بارے میں گذشتہ برس ایک کانفرنس بحرین کی میزبانی میں منعقد کی گئی اور آج یہ عرب لیگ فلسطینیوں کے ساتھ کھڑی ہے اور ٹرمپ کے فارمولے کو ماننے سے منکر ہوگئی ہے۔ نہیں معلوم عرب ملکوں کا امریکہ کے ہمراہ کھڑا ہونا حقیقی ہے یا ان کی آج کی یاداشت۔ صدی کا سودا جسے ٹرمپ کا امن منصوبہ بھی کہا جا رہا ہے، کا معاشی ڈھانچہ ٹرمپ کے داماد نے گذشتہ برس مانامہ بحرین میں پیش کیا تھا اور اس کا سیاسی منصوبہ ٹرمپ نے 28 جنوری 2020ء کو پیش کیا۔

معاشی ڈھانچے کے حوالے سے راقم نے اپنے سابقہ کالم بعنوان ’’مسئلہ فلسطین کو معاشی مسئلہ بنانے کی کوشش‘‘ میں لکھا تھا کہ: "فلسطین کے بارے میں امریکی امن منصوبے کے لیے 50 بلین ڈالر کا عالمی فنڈ قائم کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے، جو اس امن منصوبے کے انجن کے طور پر کام کرے گی۔ دس برس کے لیے قائم اس فنڈ میں سے 6.3 بلین ڈالر لبنان میں پناہ گزین فلسطنینیوں کے لئے وقف ہیں، 27.5 بلین ڈالر مغربی کنارے اور غزہ کے فلسطینیوں پر لگایا جائے گا، اسی طرح 9.1 بلین ڈالر مصر میں مقیم فلسطینیوں جبکہ 7.4 بلین ڈالر اردن میں پناہ لیے ہوئے فلسطینیوں کے لیے وقف ہوگا۔

ٹرمپ نے فلسطینی ریاست کی حیثیت کے حوالے سے جو تجویز پیش کی ہے، اس کے مطابق فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر قبول کیا جائے گا، جس کا دارالخلافہ مشرقی بیت المقدس کے نواحی علاقوں میں ہوگا، اس ریاست کی تشکیل کے لیے چار برس دیئے جائیں گے اور یہ ریاست مکمل طور پر غیر فوجی ہوگی اور ایسی ہی رہے گی۔ دنیا کی تاریخ میں شاید ہی اس سے بڑا مذاق ہو کہ ایک آزاد اور خود مختار ریاست جس کو اپنے دفاع کے لیے سوئی رکھنے کا بھی حق حاصل نہیں ہوگا، وہ اپنے دفاع کے لیے ہمسایہ ریاست جو کہ غاصب ہے، کی مرہون منت ہوگی۔ ٹرمپ کے خواب میں آنے والی اس فلسطینی ریاست کو اپنا آئین، نظام مملکت، عدلیہ، قانون کی عملداری کا اختیار ہوگا۔ ان کو اپنا معاشی نظام تشکیل دینے کی اجازت ہوگی، فلسطینیوں کو اپنے نصاب سے اسرائیل مخالف تعلیمات کو نکالنا ہوگا، وہ اپنے شہریوں کو کنڑول کرنے اور غیر مسلح کرنے کے مجاز ہونگے نیز ان کو منصوبے میں درج تمام شرائط و ضوابط پر عمل کرنا ہوگا۔

ٹرمپ کے منصوبے کے مطابق فلسطینیوں کو دہشتگردی کے خلاف ایسی جنگ لڑنی ہوگی، جو اسرائیلی معیارات پر پوری اترتی ہو۔ فلسطین کی سرحدوں پر اسرائیلی فوج تعینات ہوگی اور فلسطینی فضاوں پر اسرائیلی فضائیہ کا کنٹرول ہوگا، اسرائیلی نیوی فلسطین میں ہتھیاروں کی نقل و حمل کو روکنے کے لیے اقدامات کرے گی۔ فلسطینی ریاست کسی ایسے ملک سے خفیہ معلومات کے تبادلے کا معاہدہ نہیں کرے گی، جو اسرائیلی مفادات کے خلاف ہو۔ منصوبے میں بیت المقدس کو اسرائیل کے دارالخلافہ کے طور پر قبول کیا گیا ہے اور اس پر اسرائیل کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے، بیت المقدس، مسجد اقصیٰ، حرم شریف سب کو اسرائیل کے تحت دینے کا کہا گیا ہے اور اسرائیل سے کہا گیا ہے کہ وہ مذہبی آزادی کا احترام کرے۔

اس منصوبے میں مغربی کنارے کا ستر فیصد حصہ فلسطینیوں کو دینے کی بات کی گئی ہے، تاہم فلسطینیوں کو 1967ء سے قبل کا علاقہ سو فیصد نہیں دیا جائے گا۔ مغربی کنارے کے کچھ حصوں کی اسرائیلی مملکت میں شمولیت کے بدلے فلسطینیوں کو صحرائے النقب کا کچھ علاقہ دیا جائے گا، جو کہ فلسطینی ریاست سے الگ ہوگا۔ اس منصوبے میں پوری اردن کی وادی پر اسرائیل کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ غزہ کو غزہ کرائٹیریا حاصل کرنے کے بعد فلسطینی ریاست کا حصہ بننے کی اجازت ہوگی، جس کی شرائط کا تعین اسرائیلی ریاست کرے گی۔ حماس، اسلامی جہاد اور دیگر تنظیموں کو مکمل طور پر غیر مسلح ہونا ہوگا۔ حماس کو اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنا ہوگا۔

ٹرمپ کا امن منصوبہ کسی مزاحیہ ڈرامہ سیریل کا سکرپٹ لگتا ہے۔ اس منصوبے کے پیچھے موجود صہیونی دماغ بدمعاشی کی تمام حدوں کو عبور کرتے ہوئے کھلے عام فلسطین پر قبضے کا اعلان کر رہا ہے۔ انہیں اس سے فرق نہیں پڑتا کہ اقوام عالم کیا کہتی ہیں، اقوام متحدہ کا اس بارے میں موقف کیا ہے، فلسطینی اس منصوبے کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور انتہائی ڈھٹائی سے اس منصوبے کو امن منصوبے کا نام دیا جا رہا ہے۔ امریکہ اسرائیل اور ان کے پس پشت صہیونی لابی کو زعم ہے کہ دنیا میں کوئی نہیں، جو اس منصوبے کے خلاف کھڑا ہوسکے یا اس پر عمل درآمد کو روک سکے۔ افسوس تو ان بدووں پر ہے، جو اس بدمعاش گروہ سے امن کی توقع لگائے بیٹھے ہیں۔

بہرحال اپنے اس منصوبے کے اعلان سے امریکہ، اسرائیل اور اس کے حواریوں نے دنیا پر ثابت کر دیا کہ اس مسئلہ کا واحد حل مقاومت اور مزاحمت ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس وائٹ کالر بدمعاش کے گریبان کو مقاومت کے آہنی ہاتھوں سے پکڑ کر یوں جھنجوڑا جائے کہ اسے چھٹی کا دودھ یاد آجائے۔ آج محمود عباس بھی اس منصوبے کو توہین آمیز کہ رہے ہیں اور واضح طور پر اس کے خلاف کھڑے ہیں۔ عرب دنیا کو بھی اس منصوبے کے مقابلے میں قرارداد مذمت کے بجائے عملی میدان میں کھڑا ہونا ہوگا اور مقاومت کو تقویت دینی ہوگی، ورنہ ان کی یہ خیانت انہی کے گلے کا طوق بن جائے گی۔ طیب اردگان نے بجا کہا کہ اگر آج بیت المقدس ہم سے چھین لیا گیا تو کل مدینہ اور مکہ بھی ہمارے ہاتھوں میں نہیں رہے گا۔
خبر کا کوڈ : 842098
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش