0
Sunday 2 Feb 2020 21:30

گلگت بلتستان صوبہ۔۔۔ مگر کیسے ممکن ہے؟

گلگت بلتستان صوبہ۔۔۔ مگر کیسے ممکن ہے؟
تحریر: شیر علی انجم

ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ دنیا میں اس کی انفرادی اور اجتماعی خواہشات کی تکمیل ہو، یہی وجہ ہے کہ انسان خواہشات کی تکمیل کیلئے جستجو اور محنت کرتے ہیں۔ لیکن جب کسی خطے کی شناخت اور مقدر فقط چند افراد کی خواہشات کے گرد گھومنا شروع ہو جائے تو مان لیجئے اس خطے کا سیاسی، سماجی، فکری اور معاشی طور پر بدترین بدحالی کا شکار ہونا یقینی ہو جاتا ہے۔ بدقسمتی سے قدرتی اور آبی ذخائز سے مالا مال ریاست جموں و کشمیر کی سب سے بڑی اور اہم اکائی خطہ گلگت بلتستان بھی گذشتہ تہتر سالوں سے اس صورتحال سے دوچار ہے، لیکن اس مرض کے علاج کیلئے مل بیٹھ کر مشورہ کرنے اور کسی اسپشلسٹ سے رجوع کرنے کے بجائے فقط خواہشات کی بنیاد پر خطے کے مستقبل کی سمت کا تعین کرنے کی مسلسل کوششیں کی جا رہی ہے۔

ماضی بعید میں جائے بغیر 5 اگست 2019ء کو مودی سرکاری کی جانب سے کشمیر میں درندازی کے بعد اگر 14 اگست 2019ء سے بات شروع کریں تو پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے آزاد کشمیر میں صحافیوں کے سوال پر دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ گلگت بلتستان ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے۔ لہذا اس خطے کو کسی قسم کا صوبہ نہ بنایا گیا ہے اور نہ بنانے کا ارادہ ہے۔ ہم وہ کام ہرگز نہیں کریں گے، جس سے مسلہ کشمیر کو عالمی سطح پر نقصان پہنچے۔ یعنی اُن کی اس بات سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ گلگت بلتستان کو کسی قسم کا صوبہ بنانا مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے رائے شماری سے پہلے ریاست پاکستان کی قومی پالیسی کا حصہ نہیں۔ پس ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم جس مُلک میں شامل ہونے کی خواہش رکھتے ہیں، اُس مُلک کی قومی پالیسی کے مطابق ہماری شمولیت مسئلہ کشمیر کے حل تک ممکن نہیں۔ لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم جنہیں عوامی نمائندہ یا مذہبی رہنماء سمجھتے ہیں، جنہوں نے اپنی مراعات اور مفادات کے تحفظ کی بنیاد پر خواہشات کو ہی قانون اور تاریخ سمجھا ہوا ہے۔

ہندوستان مہاراجہ جموں و کشمیر کی جانب سے الحاق کی بنیاد پر گلگت بلتستان کو اپنا قانونی حصہ سمجھتا ہے، لیکن گلگت بلتستان والوں کا اس حوالے سے نظریہ تاریخی اعتبار سے بالکل ہی مختلف ہے۔ کیونکہ مہاراجہ کی جانب سے الحاق کے بعد ہی ناکام بغاوت گلگت کا واقعہ تاریخ کا اہم باب ہے اور اُس ناکام بغاوت کی وجہ سے اقوام متحدہ میں گلگت بلتستان کی ریاست جموں و کشمیر کی ایک الگ اکائی کے طور پر جداگانہ حیثیت کو بھی پاکستان اور ہندوستان نے اقوام متحدہ کے قرارداد 13 اگست 1948ء میں قبول کیا ہوا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے گلگت بلتستان کو اُس بنیاد پر حقوق دینے کے بجائے پہلے برطانوی سامراجی ایجنٹ میجر بروان کی سازشوں کے ذریعے ایک ٹیلکس کی بنیاد پر مقامی راجاوں اور میروں کی غداری سے ایک تحصلیدار کو پولٹیکل ایجنٹ قبول کرکے ایف سی آر نافذ کر دیا۔ پھر اس سے بھی سنگین غلطی کرکے آزاد کشمیر کی طرح لوکل اتھارٹی کی بجائے اقوام متحدہ کی قرارداد کو پس پشت ڈال کر گلگت بلتستان کا معاہدہ کراچی کے ایک شق کے ذریعے مکمل طور پر کنٹرول سنبھال لیا۔

یوں مودی فارمولہ گلگت بلتستان کے حوالے سے تاریخی حقائق کی بنیاد پر خود بخود مسترد ہوتا ہے، لیکن اُنہوں نے جب 5 اگست 2019ء کو جموں و کشمیر لداخ سے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کرکے خطہ لداخ کو الگ یونین کا درجہ دیکر آفیشل پولٹیکل میپ جاری کر دیا، جس میں مودی سرکار نے چلاس تک کے علاقے کو ضلع لہہ لداخ میں شامل کر دیا۔ اُس میپ پر بھی ریاست پاکستان کا یہی موقف تھا کہ یہ علاقے متنازعہ ہے اور ان علاقوں کی قسمت کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ لہذا مودی حکومت کی جانب سے جاری کردہ آفیشل پولٹیکل میپ کی بین الاقوامی سطح اقوام متحدہ کے قراردادوں کی بنیاد پر کوئی حیثیت نہیں۔

مگر گلگت بلتستان اسمبلی اس بار بھی خواہشات کی دنیا سے نہ نکل پائی اور گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کیلئے اسمبلی سے متفقہ قرارداد پاس کر دی، جو اب کس شکل میں ہے، شائد ہی کسی کو علم ہو اور ویسے بھی ان تمام حقائق کو ایک طرف رکھ کر گلگت بلتستان صوبہ بنایا تو پاکستان میں مزید درجنوں صوبے بنانے پڑیں گے، کیونکہ گلگت بلتستان آبادی کے لحاظ کے پاکستان کے کئی اضلاع کے برابر بھی نہیں۔ لہذا گلگت بلتستان کسی صوبے میں شامل ہونا شائد ممکن ہوسکتا ہے، لیکن الگ سے صوبے کی خواہش کو بھی خواب کے اوپر ایک اور خواب کہا جا سکتا ہے۔ بات کو مزید ریاست پاکستان کے قومی بیانیئے کے تناظر میں قانونی نکتہ نگاہ سے سمجھنے کی کوشش کریں تو دفتر خارجہ نے بھی گذشتہ ماہ گلگت بلتستان کو کسی قسم کے صوبے کی افواہوں کو یکسر طور پر مسترد کیا اور میڈیا کو بتایا کہ گلگت بلتستان ریاست جموں و کشمیر کی اکائی ہے۔

لہذا کسی کاغذ میں گلگت بلتستان صوبے کے شواہد موجود نہیں۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے عوامی نمائندوں سے لیکر عام آدمی تک کو بدقسمتی سے آج بھی معلوم نہیں کہ اصل مسئلہ کشمیر کس چیز کا نام ہے۔ حالانکہ تاریخی حقائق اور اس حوالے سے ریاست کا موقف روز روشن کی طرح عیاں ہونے کے بعد اب تک سمجھ جانا چاہیئے تھا کہ خواہشات کی بنیاد پر سنگین مسئلے حل نہیں ہوتے اور خواہشات کی تکمیل کیلئے انقلاب برپا کرنا پڑتا ہے، لیکن یہاں ہم کس کے خلاف انقلاب برپا کریں۔؟ جس مہاراجہ کے خلاف انقلاب برپا کیا تھا، اُس بنیاد پر آج تہتر سال بعد بھی ہماری پہچان منجمد ہے اور اگر جس مُلک میں شامل ہونے کی ہم خواہش رکھتے ہیں، اُن سے شامل کرو کہہ کر بغاوت شائد دنیا کیلئے ایک نیا عجوبہ اور نئی تاریخ سمجھی جائے گی۔

قارئین، بات کو مزید مختصر کرتے ہوئے ہم پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے گلگت بلتستان آرڈر 2020ء نافذ کرنے کی افواہوں اور مقامی اخبارات کی خبروں کی طرف رجوع کریں تو میڈیا رپورٹ کے مطابق اُس آرڈر کا بھی لب لباب یہی ہے کہ مسئلہ کشمیر کو خراب کئے بغیر سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اختیارات وفاق سے گلگت بلتستان اسمبلی کو منتقل کئے جائیں۔ حالانکہ پاکستان تحریک انصاف کے منشور میں گلگت بلتستان کو داخلی خود مختاری دینے کی شق شامل ہے، لیکن دوسری طرف گذشتہ روز گلگت بلتستان کے سینیئر صحافی نے اسلام آباد میں دفتر خارجہ کے ترجمان سے یہی سوال کیا تو اُنہوں نے اس خبر کو قیاس قرار دیکر جواب دینا ہی مناسب نہیں سمجھا۔

اب اس خبر کے بعد گلگت بلتستان اسمبلی کے ممبران جن میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کے اراکین شامل تھے، پھر سے متحرک ہوگئے اور گلگت بلتستان ہاوس میں پریس کانفرنس کرکے ایک بار پھر سرتاج عزیز کمیٹی کے سفارشات اور سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کا مطالبہ کیا اور سوائے قوم پرست رہنما نواز خان ناجی اور اپوزیشن لیڈر کیپٹن شفیع کے علاوہ سب نے صوبے کا مطالبہ کر دیا اور دبے الفاظ میں اس بات کا بھی ذکر کیا کہ اگر صوبہ نہیں بن سکتا ہے تو گلگت بلتستان کے لئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حقوق کو یقینی بنائیں۔

اس نے بڑھ کر اس خطے کے عوام کی بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے کہ یہاں کے عوامی نمائندوں کو آج تک پتہ نہیں چلا کہ گلگت بلتستان کو صوبہ نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ یا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ مراعات اور مفادات کی خاطر عوام سے جان بوجھ کر مسلسل جھوٹ بولا جا ریا ہے۔ یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ کیا سپریم کورٹ آف پاکستان نے گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا حکم واقعی میں دیا تھا؟ اگر دیا ہے تو یقیناً اس کام کیلئے آئینی ترمیم کرنا اولین شرط بلکہ ضرورت ہے اور اگر ایسا ہوا تو سمجھ لیجئے کہ مسئلہ کشمیر ہی ختم ہو جائے گا، ایک طرف ہندوستان نے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کر دیا اور دوسری طرف اسلام آباد نے آئین میں ترمیم کرکے گلگت بلتستان کو قانونی اور آئینی طور پر پاکستان کا حصہ بنا لیا۔

لیکن ریاست پاکستان اس بیانئے کو ہمیشہ مسترد کرتے رہی ہے اور رائے شماری کے ذریعے متنازعہ خطے کے عوام کی قسمت اُن کی مرضی سے کرنے پر یقین رکھتی ہے۔ گلگت بلتستان میں لوگ سپریم کورٹ کے فیصلے کا بہت زیادہ ذکر کرتے ہیں، لیکن اُس فیصلے کو مسئلہ کشمیر کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کا گلگت بلتستان کے حوالے سے آخری فیصلہ تین دسمبر 2018ء کو آیا۔ میڈیا پر جو خبر نشر ہوئی، اُس کے مطابق سپریم کورٹ کے لاجر بنچ نے گلگت بلتستان آرڈر 2018ء میں ترمیم کرکے گلگت بلتستان کو مزید بااختیار بنانے کا حکم دے دیا تھا۔ جسٹس عظمت سعید نے یہاں تک ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر کے تناظر میں گلگت بلتستان کا اسیٹس تبدیل نہیں ہوگا، نہ ہی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی ملے گی۔ لیکن گلگت بلتستان کے شہریوں کو پاکستان کے دیگر صوبوں کے برابر بنیادی حقوق دینے اور خطے کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کا ضرور حکم دیا ہے۔ لیکن گلگت بلتستان کا اصل مقدمہ قومی پہچان کا ہے، گلگت بلتستان کے عوام اپنی قانونی حیثیت کے مطابق اپنے وسائل پر اختیار مانگتے ہیں۔

بدقسمتی کی بات ہے کہ گلگت بلتستان اسمبلی کے ممبران نے سرتاج عزیز کمیٹی کو صحیفہ سمجھنا شروع کر دیا ہے، حالانکہ دنیا کی مہذب اور جمہوری قوموں کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ قومی فیصلے عوام کی منشاء کے مطابق عوامی نمائندے کرتے ہیں اور گلگت بلتستان اسمبلی کے ممبران شائد دنیا کی وہ عجیب مخلوق ہیں، جو سونے کے پہاڑ پر بیٹھ کر کوئلے کی کان صاف کرنے والوں سے اپنے مقدر کی لیکر کھنچنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اگر گلگت بلتستان اسمبلی واقعاً اپنے آپ عوامی نمائندہ سمجھتی ہے تو تہتر سالوں سے منجمد قومی شناخت کیلئے اب منافقت اور مراعات کی دنیا سے نکل کر سوچنا ہوگا، کیونکہ زمینی حقائق دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تمام قسم کے غیر قانونی قوانین کے نفاذ کے باوجود گلگت بلتستان کی نئی نسل بیدار ہوچُکی ہے، جو سوال کرتی ہے کہ آخر اس خطے کے عوام کا جرم کیا ہے، جنہیں ایک غلام قوم کی طرح مسلسل پیکج کی بنیاد پر چلایا جا رہا ہے۔ یہ سوال آنے والے سالوں میں مزید مسائل پیدا کرسکتا ہے۔ لہذا پاکستان کے مقتدر حلقوں کو چاہیئے کہ گلگت بلتستان کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قرارداد پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں اور اس خطے کی تہتر سالہ سیاسی محرومیوں کا ازالہ کریں اور اقوام متحدہ کے قراداد 13 اگست 1948ء کی بنیاد پر گلگت بلتستان لوکل اتھارٹی کو یقینی بنائیں۔
خبر کا کوڈ : 842228
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش