0
Sunday 2 Feb 2020 23:41

ستّی

ستّی
تحریر: سید توکل حسین شمسی

میں کلمہ گو ہوں، رسم و رواج کے پجاریوں نے شمشان سجایا، ان کو میرے چار بچوں کے گم سم چہرے اور میری رنج و محن میں ریڑھیاں رگڑی جوانی پر ترس نہ آیا، مادی و مذہبی شدت پسند ہر دین و مسلک میں پائے جاتے ہیں، کچھ قصور میرے شوہر کا بھی تھا، لوگ اس زمانے میں عزت و ناموس کو تنہا چھوڑ کر شہر تک نہیں جاتے، اک وہ تھا کہ اتنے لمبے سفر پر چل نکلا تھا، ہوس کی آنکھیں بے آسرا و بے سرپرست چاردیواری میں اکثر نقب لگاتی ہیں۔ ہندو عورتیں ان بے لگام ہوس کے پجاریوں، معاشرے کے طعن و تشنیع سے بچنے کے لئے آگ میں گود پڑتی تھیں، حمایت کرنے والا شوہر نہ رہے تو اس کی چتا کے شعلے، اس زندگی کے دھکتے انگاروں سے سہل، پھر عظمت و استقلال، وفاداری اور شجاعت کے تمغے  اس کے خاندان کے لئے باعث عزت ہوتے، پھر اس کے بھائي سر اٹھا کر سینہ پھلا کر چلتے، پھر وہ اک دم سے مقدس ہو جاتی۔

ستی، سہاگن کا روپ دھارے، سرخ ملبوس پہنے، اپنے بے وفا پریتم کا روغنی سر، لکڑیوں کے ڈھیر کی سیج پر اپنے زانو پر رکھے، آگ کی سرخ چادر اوڑھ لیتی، یا پھر اس کو شوہر کی قبر میں بیٹھا دیا جاتا تھا اور اس دنیا سے اس کی بے تعلقی کا اعلان کر دیا جاتا تھا۔ میں مسلمان تھی، آگ سلگاتے تو نمرود کہلاتے، زندہ درگور کرتے تو زمانہ جاہلیت کے طرفدار میرے ستی ہونے کا انداز بدل دیا گیا، اب قبر کے اندر نہیں قبر کے باہر بیوگی کا لباس زیب تن کئے، مجھے دنیا سے ناتا توڑنا ہے، دھکتے انگاروں پر بیٹھنا ہے، لیکن یہاں تقدیس کہاں، میرا سایہ سہاگن کے لئے بدشگون، دروازوں پر تازہ پتوں کا گچھا، رکھ راکھا کی باتیں نئی گود بھرائی پر مجھ اچھوت بنا دیا جاتا ہے، رسم و رواج میں مجھے دور رہنا ہے کیونکہ میں بیوہ ہوں۔
 مجھے بھی ستی کیا گيا ہے، اب لوگ مجھے مقدس درگاہ سمجھ کر اپنے چڑھوائے چڑھاتے ہیں، اپنے خیرات و صدقات پہنچاتے ہیں، اگر کوئی ستی ہونے سے فرار کرتی تھی تو اس کے غیرت مند بھائی اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اس کو زور و زبردستی سے آگ کے گڑھے میں ڈالتے تھے، بانس کے لمبے لمبے تنوں سے دھکیلتے تھے، یا پھر رسن بستہ چتا پر بٹھا دیتے تھے۔ دھکیلا اب بھی جاتا ہے، دھتکارا اب بھی جاتا ہے، رسم و رواج کی نادیدہ رسیوں میں جکڑا اب بھی جاتا ہے، اگر کوئی ستی شمشان گھاٹ سے دوڑ نکلتی تو وہ بڑی نحس سمجھی جاتی تھی۔ پہلے اس کا تعاقب کیا جاتا تھا، تاکہ اس پست فطرت مخلوق کا کام تمام کیا جائے، پھر اس کو سنگین موت سے دچار کیا جاتا تھا، پانی میں ڈبویا جاتا یا پھر زمین میں گاڑا جاتا، عزت کے رکھوالے اس کی موت کی تسلی کرتے اور اگر اس کو کسی نے پناہ دے دی،  پھر وہ ہمیشہ کے لئے کلنک بن جاتی تھی۔ اچھوت سمجھی جاتی، یہ مندروں کی گھنٹیاں بہت سا اثر ڈال گئیں، یہ مٹی سے جڑے بہت سارے رواج، ریت پریت مذہب سے ماوراء ہیں، ان پر ایمان و ایقان رکھنے والے، مسجد کے نمازی بھی ہیں تو بتوں کے پجاری بھی، فقط رسوم کے نام الگ الگ ہیں، وہاں ستی ہے تو یہاں بیوہ۔
 
اسلام میں بیوہ کو عزت دی گئی، بانی اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کتنی ہی خواتین کو عزت سے نوازا، ان کی دہلیز پر بھی  النکاح من سنتی کا پیغام لے جانے کی عظیم سنت قائم فرمائی، آج اس سنت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے، آج کسی بیوہ کی شادی کی بات کی جائے تو لوگ بالکل ویسا ہی رویہ اختیار کرتے ہیں، جیسے پھر ایک ستی نے بدشگونی انجام دی اور شوہر کی چتا سے راہ فرار کا انتخاب کیا، شوہر کی وفات پر صبر کا جام پی لینا اگر وفاداری ہے توُ پھر اسلام سے، بانی اسلام سے، وانکحوا الایام منکم سے وفاداری کون کرے گا، کب تک یتیموں کو صدقہ و خیرات سے نواز کر دل خوش کیا جائے گا، دست شفقت کون رکھے گا۔

اسلام بلا تفریق ہر بے ہمسر کی تزویج و ازدواج کی بات کرتا ہے، چاہے وہ پہلی خوش نما بہار کی کلیاں ہوں یا خزاں کی سرد ہواوں سے ٹھٹھری شاخوں پر ابھرنے والی نئی کونپلیں، آج حقوق نسواں پر بلند و بالا دعوے کرنے والے کیوں کسی بیوہ کے سفید لباس کو سرخ نکھار دینے کی بات نہیں کرتے۔ اگر وجود زن سے ہی تصویر کائنات میں رنگ ہے تو پھر بیوگی کی چادر اتنی بے رنگ کیوں ہے، اس کی درد و رنج سے بھری کتاب نقاشی میں نقش و نگار کیوں نہیں ابھرتے، اس کی بیچارگی محسوس کرنے والے، اس کی بے رنگی کیوں محسوس نہیں کرتے، یتیموں کے سر پر دست شفقت اپنا باطنی حسن اس وقت ظاہر کرے گا، جب وہ اک بے سہارا ہاتھ کو تھامنے والا بھی ہو، اپنے گھر کا ایک گوشہ اور چند نوٹ منتخب کرنے والے ماں جاِیے اس کو کسی گھر کی بہار بیگم کیوں نہیں بناتے، ہر دور میں تمھیں ماننا پڑے گا، اسلام ہی اس صنف نازک کے حقوق کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔
خبر کا کوڈ : 842256
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش