1
Tuesday 4 Feb 2020 21:22

55 اسلامی ممالک جدہ میں دو عرب حکومتوں کے یرغمال

55 اسلامی ممالک جدہ میں دو عرب حکومتوں کے یرغمال
تحریر: علی احمدی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں مسئلہ فلسطین سے متعلق ایک نیا امن منصوبہ پیش کیا ہے جس کا نام سینچری ڈیل رکھا گیا ہے۔ اس میں فلسطینیوں کے بنیادی حقوق نظرانداز کرتے ہوئے تمام مراعات اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کو دے دی گئی ہیں۔ اس معاہدے کا جائزہ لینے کیلئے سعودی عرب کے شہر جدہ میں اسلامک کانفرنس تنظیم یا او آئی سی کا ہنگامی اجلاس منعقد کیا گیا ہے۔ یہ اجلاس وزرائے خارجہ کی سطح کا تھا اور اس میں تقریبا 55 اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ سعودی عرب کی جانب سے ویزا نہ ملنے کے باعث اس اجلاس میں شرکت نہ کر پائے۔ اس اجلاس کا نتیجہ ایک متفقہ بیانیہ جاری کئے جانے کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ اگرچہ اس بیانیے کا مکمل متن ابھی تک شائع نہیں ہوا لیکن جو حصہ منظرعام پر آیا ہے اس میں صدی کی ڈیل نامی منصوبے کی مذمت نظر نہیں آتی۔ اس بیانیے میں صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا گیا ہے کہ کوئی بھی اسلامی ملک صدی کی ڈیل کی حمایت نہ کرے اور تمام اسلامی ممالک اس بارے میں امریکہ سے تعاون کرنے سے گریز کریں۔

الجزیرہ نیوز چینل کے مطابق اس بیانیے میں آیا ہے: "صدی کی ڈیل نامی منصوبہ فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق پورے کرنے سے قاصر ہے۔" ترکی کے وزیر خارجہ احمد داود اوگلو نے صدی کی ڈیل نامی منصوبے کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا: "اس منصوبے کا مقصد اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کو قانونی جواز فراہم کرنا اور بیت المقدس اور مغربی کنارے کو اسرائیل سے ملحق کرنا ہے۔" انہوں نے اس ڈیل کے بارے میں ہر قسم کے مذاکرات کو ناممکن قرار دیا اور کہا کہ صدی کی ڈیل درحقیقت فلسطین بیچ ڈالنے کا اجازت نامہ ہے۔ احمد داود اوگلو نے سینچری ڈیل کو اسرائیلی ڈکٹیشن قرار دی جو امریکی صدر کی زبانی بیان ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا: "یہ منصوبہ ان تمام بین الاقوامی معاہدوں اور قوانین سے تضاد رکھتا ہے جو مسئلہ فلسطین کے عادلانہ، جامع اور پائیدار حل خاص طور پر سرحدی تنازعات، یہودی بستیوں، قدس شریف کی حیثیت اور جلاوطن فلسطینیوں کی وطن واپسی سے متعلق تشکیل دیے گئے ہیں۔

دوسری طرف سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے صدی کی ڈیل کا براہ راست ذکر کئے بغیر کہا کہ ریاض ایک ایسے جامع راہ حل کی حمایت کرے گا جس میں مشرقی بیت المقدس کی مرکزیت میں فلسطینی ریاست کی تشکیل پر مبنی فلسطینی عوام کے حقوق کی ضمانت فراہم کی گئی ہو۔ اسی طرح متحدہ عرب امارات کے نائب وزیر خارجہ انور قرقاش نے بھی اپنی تقریر میں مسئلہ فلسطین کی حمایت پر زور دیا۔ اجلاس منعقد ہونے کے ایک دن بعد ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے صدی کی ڈیل کے بارے میں خاموشی اختیار کرنے پر سعودی عرب کو آڑے ہاتھوں لیا۔ انور قرقاش نے ان کی تنقید پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے عرب ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے۔ فلسطین اتھارٹی کے وزیر خارجہ ریاض مالکی نے او آئی سی کے ہنگامی اجلاس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کا پیش کردہ سینچری ڈیل منصوبہ ایک طرف فلسطینی سرزمینوں کو اسرائیل سے ملحق کرنے کا جواز فراہم کرتا ہے جبکہ دوسری طرف قدس شریف کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بنائے جانے کو بھی مسترد کرتا ہے۔ انہوں نے کہا: "اس منصوبے میں نہ صرف اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کا ذکر تک نہیں کیا گیا بلکہ اسرائیل کو مزید قبضے کی ترغیب بھی دلائی گئی ہے۔ اسی طرح قدس شریف کو مکمل طور پر اسرائیل کا دارالحکومت بنا دیا گیا ہے۔"

فلسطین اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سینچری ڈیل نامی معاہدے کے نتیجے میں فلسطین چھ مختلف ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے گا۔ انہوں نے تمام اسلامی ممالک سے اس منصوبے کی واضح مخالفت کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم امریکہ کی ثالثی مسترد کر چکے ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل کے انٹیلی جنس اداروں سے وابستہ دبکا نامی عبری زبان کی نیوز ویب سائٹ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ حماس نے مصری حکام سے اپنے رہنماوں خاص طور پر حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو غزہ جانے کی اجازت دینے کی درخواست کی ہے۔ ایران کا دورہ کرنے کے بعد مصری حکام اسماعیل ہنیہ کو غزہ جانے کی اجازت نہیں دے رہے۔ اسرائیلی باخبر ذرائع کے بقول رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حماس نے مصری حکام کو خبردار کیا ہے کہ اگر وہ اسماعیل ہنیہ کو غزہ جانے کی اجازت نہیں دیں گے تو اسرائیل کو میزائل حملوں سے نشانہ بنائے جائے گا۔ یاد رہے اسرائیل نے دو ماہ پہلے اسلامک جہاد کے رہنما بہاء ابوالعطا کی ٹارگٹ کلنگ کی تھی جس کے بعد حالات کشیدہ ہو گئے تھے جو اب تک جاری ہیں۔
خبر کا کوڈ : 842638
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش