1
Wednesday 5 Feb 2020 22:43

ذرا نہیں پورا سوچئے

ذرا نہیں پورا سوچئے
تحریر: علی زین
 
تمہارا مذہب کیا ہے۔؟؟ کس فرقے سے تعلق رکھتے ہو۔؟؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جسے ہم میں سے تقریباً ہر شخص کو اپنی فیلڈ میں بلا تفریق رنگ و نسل، علاقہ و زبان اکثر و بیشتر پیش آتا رہتا ہے، مگر اس سوال کے حوالے سے میرا تجربہ بالکل مختلف تھا، کیونکہ مجھے یہ سوال کسی اور سے نہیں بلکہ خود اپنے ہی والد گرامی کی طرف سے کیا گیا۔ ان کے اس سوال پہ پہلے تو میں ششدر رہ گیا، مگر جب جواب دیا کہ وہی جس پہ آپ ہیں تو ان کے سوالات کی بوچھاڑ سے اندازہ ہوا کہ میں تو جہاں بھی ہوں، مکمل گمراہ ہوسکتا ہوں کہ بلا دلیل ہوں۔ والد صاحب نے ایک مقررہ وقت دیا اور گھر میں موجود مختلف مکاتب فکر کی 300 سے زائد کتب کی طرف اشارہ کرکے کہا "بیٹا یہ کتب ہیں، ان کے علاوہ جہاں کہیں سے بھی مدد لے سکو لو، مگر مجھے مدلل جواب چاہیئے کہ تمہارا مذہب کیا ہے، دلیل کے ساتھ الحاد بھی ثابت کرو گے تو مجھے قبول ہے، وگرنہ کچھ بھی کہو میرے لئے قابل قبول نہیں۔" وقتی طور پہ ناگوار گزرنے والی یہ باتیں آج مجھے زندگی کا خوبصورت ترین تحفہ لگتی ہیں، جو بابا جان نے مجھے دیا کہ اس کی بدولت میں اس حساس موضوع پہ بھی سوچنا شروع کیا اور ناصرف سوچا بلکہ ممکنہ حد تک مطالعہ کی توفیق بھی ملی۔۔۔۔
 
*مگر کیا معاشرے میں ہر فرد اس مذکورہ حالت سے گزرتا ہے؟؟؟* آیا ہم میں سے ہر شخص جوانی کی دہلیز پہ جب قدم رکھتا ہے تو اسے گھر سے یہ تربیت ملتی ہے کہ دیگر علوم کے ساتھ جس راہ پہ چلنا ہے، وہ رستہ بھی خود تلاش کرے یا کم از کم اس کی صداقت۔۔۔؟؟؟ مگر افسوس کہ معاشرہ اس سوال کے جواب پہ مجرمانہ غفلت کا شکار دکھائی دیا ہے۔ برادر علی رضوان کی وال سے بہت خوبصورت جملے پڑھنے کو ملے، جن کو میں یہاں ان کی اجازت سے شامل کرنا چاہوں گا۔ ہمارے معاشرے کے حالات کچھ ایسے ہیں کہ اگر *کوئی اہل حدیث ہے* فقط اس لئے کہ وہ کسی مجتہد کی گود میں پیدا ہوئے تھے۔ *کوئی بریلوی ہے* فقط اس لئے کہ اس نے آنکھ کھولی تو گھر میں میلاد کی محفل تھی۔ *کوئی دیوبندی ہے* کیونکہ اس نے ایک ثقہ بند دیوبندی گھرانے میں جنم لیا۔ *کوئی شیعہ ہے* کیونکہ اس نے آنکھ کھولی تو پنجتن پاک، شہدائے کربلا اور بارہ امام ہی سننے کو میسر آئے۔
 
یہاں تک تو بات ہر ایک کا ذاتی معاملہ ہے مگر پھر ہوا یوں کہ ان میں سے ہر ایک درست راہ کا راہی ٹھہرا، باقی تین گمراہ یا کافر ہوگئے۔ حور و غلمان کے کاپی رائٹس اس ایک کے نام، بہشت بریں کے سب رستوں سب گلیوں پہ اسی ایک کا قبضہ *مگر یہاں کچھ سوچ و بچار کیلئے سوالات ہیں* کہ اگر ایک شیعہ سُنی گھرانے میں پیدا کر دیا جاتا تو کیا وہ سنی نہ ہوتا؟ سُنی اگر شیعہ گھرانے میں آنکھ کھولتا تو کیا وہ شیعہ نہ ہوتا؟ *آخر کیوں؟* کیونکہ اس کے عقیدوں کے ٹھیک ہونے کی دلیل اس کے سوا کوئی نہیں کہ اس نے اپنے اجداد کو اس راہ پہ پایا اور فقط ان کی پیروی کے سوا حتی کسی کتاب تک کو ہاتھ نہ لگایا۔
 
*محترم قارئین حضرات!!!* ہم سب کا کوئی نہ کوئی مذہب و مسلک ضرور ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کوئی مسلمان ہے تو کیوں۔؟؟؟ شیعہ/ سنی/ ہے تو کیوں۔؟؟؟ حتی کوئی مسیح ہے تو کیوں۔؟؟؟ کوئی ہندو ہے تو کیوں؟؟؟ کوئی کسی بھی مذہب و مسلک پہ کیوں ہے۔؟؟؟ کیا آپکا کسی مسلک سے وابستہ ہونا ایک اتفاقی حادثہ تو نہیں ہے۔؟ *دل پہ ہاتھ رکھ کر بتائیں! آپ کے شیعہ یا سُنی ہونے میں آپ کے فہم و ادراک کا کتنا دخل ہے؟* سوچیئے، آپ اگر اجداد سے ملنے والے عقیدے پہ مطمئن ہیں، تو آپ کا حریف کیوں نہ ہو۔؟ اجداد تو اسے بھی عزیز ہیں نا جناب۔؟ دوسری بات: اجداد سے ملنے والے عقیدے پہ چلنا اگر حریف کا جرم ٹھہرا ہے تو کسی عقیدے سے آپ کی وابستگی میں آپ کا کیا کمال ہوا۔؟ تو پھر بتلائیں، خود کے جنتی ہونے کا یہ یقین کیسا؟ دوسروں کے جہنمی ہونے پہ اصرار کیسا۔؟

سچ یہ ہے کہ کلی طور پہ ہمارا معاشرہ اُس خدا کی پوجا کر رپا ہے، جو اسے اپنے اجداد سے ملا ہے۔ کبھی اجداد کے گنبد سے دو قدم باہر نکل کر، عقل و دانش کی منطق تو کھنگالنے کی ہمت کرو۔ مسلمانان عالم!!! ذرا قرآن کریم اور عقل کی روشنی میں اپنا رب ضرور تلاش کیجئے، جس نے آپ کا نام *مُسلم و مومن* پسند کیا۔ خدارا آخر میں بس یہی التماس ہے کہ آپ اختلاف رکھیں ضرور رکھیں، مگر کسی کو برا بھلا کہنا کہاں کا اختلاف ہے۔؟؟؟؟ ایک دوسرے کو لعنتی، جہنمی کہہ کر اس کی تکفیر کرکے واجب القتل قرار کہنا کیسا اختلاف ہے۔؟ کیا ایسے کریں گے آپ معاشرے کی تعمیر۔؟؟؟؟ ایک دوسرے کو گالیاں دینا کون سا دین ہے۔؟ اگر آپ سارے کلمہ گو ایک دوسرے کو جہنمی اور گمراہ کہیں گے تو بتاٸیں پروردگار عالم نے اتنی وسیع و عریض، خوبصورت و دلنشین اتنی بہشت بریں کس لیۓ بنائی۔؟

ذرا تاریخ کے پرت سے گرد ہٹا کر نگاہ کریں، نبی آخر مُحَمَّد مصطفیٰﷺ نے تو کبھی کافر و مشرک درکنار توہین کرنے والے کو بھی گالی نہیں دی، دین تو صلح رحمی کا درس دیتا ہے اور دین اسلام کے علاوہ تمام ادیان کا درس بھی وحدت، حرمت و صلح رحمی ہی ہے، جسے ایک نقطے میں درس انسانیت کہا جا سکتا ہے۔ خدارا اپنے دماغوں میں لگے انا پرستی کے تالوں کو کھولیں اور بھاٸی چارے والی معاشرتی زندگی کی طرف رجوع فرماٸیں۔ معاشرہ سازی انسان سازی سے مربوط ہے اور انسان سازی کبھی بھی تکفیر کرنے سے نہیں ہوتی، اس کے لئے ضروری ہے کہ موقع دیں ہر ایک کو اپنی جگہ خود کو درست سمجھنے کا اور اپنے مطابق عمل کرنے کا، مگر ساتھ ہی نہ فقط خود بلکہ آئندہ نسلوں کو بھی اتنی جگہ دیں کہ وہ سوچنے کی صلاحیت کو بروئے کار لاسکے۔
بشکریہ سر علی رضوان ہمت
خبر کا کوڈ : 842904
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش