3
Thursday 6 Feb 2020 12:57

آخر یہ عرب حکمران کس کام کے

آخر یہ عرب حکمران کس کام کے
تحریر: ثقلین واحدی
Msaqlain1412@gmail.com

حال ہی میں امریکی صدر ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کے لئے ایک نیا منصوبہ پیش کیا ہے، جسے ڈیل آف سینچری کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں صیہونی ریاست کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ فلسطینی غیور قوم کے حقوق کی کمالِ ڈھٹائی کے ساتھ نفی کی گئی۔ بلا شبہ امریکی صدر کے اس منصوبے کو تاریخ کا بدترین ڈھونگ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ منصوبہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کے قیام کے لئے نہیں بلکہ صیہونی ریاست کے تحفظ کے لئے تیار کیا گیا ہے اور غاصب اسرائیلی ریاست کو خطے کے دوسرے ممالک پر مسلط کرنے کی مذموم کوشش کی گئی، جبکہ فلسطینی عوام کے آئینی و قانونی حقوق کو پامال کیا گیا۔ یہ منصوبہ دراصل امریکی صدر کے یہودی داماد اور سعودی ولی عہد کے قریبی دوست جیرڈ کوشنر کا ہے، جس نے تین سال کے عرصے میں یہ منصوبہ تیار کیا ہے۔ یہ منصوبہ جو 181 صفحات پہ مشتمل ہے، اس میں مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ غربِ اردن کی وادی کو بھی اسرائیلی علاقے کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور اہم بات یہ کہ امریکی صدر نے اس منصوبے میں بیت المقدس (یروشلم) کو غیر منقسم اسرائیلی دارالحکومت قرار دیا۔ اس منصوبے کو تسلیم کرنے کے لئے فلسطینیوں کو چار سال کا وقت دیا گیا ہے،  جبکہ اس مدت میں فلسطین کی تمام زمینی سرحدیں حتی کہ سمندری رستے بھی اسرائیلی کنٹرول میں رہیں گے۔

ٹرمپ کے اس فیصلے پر بھی توقع کے عین مطابق آمر اور عیاش عرب حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ یہ شاہی حکومتیں جو اپنے اکثر معاشی و سیاسی مفادات کے لئے امریکہ و اسرائیل کا رخ کرتی نظر آتی ہیں، بھلا اتنی جرات کب کرسکتی ہیں کہ اس منصوبے کی مخالفت میں کچھ کہہ سکیں۔ سینچری ڈیل کی تقریب رونمائی میں امارات، بحرین اور عمان کے سفیروں کی موجودگی اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ یہ حکمراں ابھی غیرت کی دیوار نہیں پھلانگ سکے۔ ہاں مگر حماس ابھی زندہ ہے اور امریکہ و اسرائیل سمیت ان عربوں کو بھی اصل خطرہ حماس کی مزاحمت کا ہے۔ امریکہ جو اس ناجائز ریاست کا سب سے بڑا حامی و پشتیبان بنا ہوا ہے، اس نے کچھ عرصہ پہلے بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کیا۔ اگر اس وقت یہ نام نہاد مسلم اتحاد او آئی سی اور اکتالیس ملکی فوجی اتحاد ردعمل دکھاتے تو آج ٹرمپ کو یہ جرات نہ ہوتی کہ وہ یوں دن دیہاڑے فلسطینی حقوق پہ ڈاکہ ڈالتا۔ اسی خاموشی سے شہ پا کر امریکی صدر نے اس صدی کے سب سے بڑے جھوٹ کی رونمائی کی۔ اس پر سب سے بڑا اعتراض تو یہ بنتا ہے کہ یہ کیسا امن منصوبہ ہے، جس میں فریقین میں سے ایک اصل اور اہم فریق موجود ہی نہیں، جبکہ دوسرا فریق جو دراصل غاصب ہے، وہ اپنے تمام تر حامیوں کے ساتھ موجود ہے۔

امریکی صدر نے اس منصوبے کو پیش کرتے ہوئے وقت کی اہمیت کو بھی خاص طور پر مدنظر رکھا ہے، ایک طرف جب خود اس کے خلاف مواخذے کی تحریک پیش کی جاچکی ہے، ایسی صورتحال میں ٹرمپ نے یہ منصوبہ پیش کرکے بااثر یہودی لابی کو خوش کیا، جس کا نتیجہ آج یہ نکلا کہ مواخذے کی یہ تحریک ناکامی سے دوچار ہوئی۔ دوسری طرف اس منصوبے کو پیش کرکے یہ کوشش بھی کی گئی کہ تقریباً ایک ماہ بعد اسرائیل میں ہونے والے عام انتخابات میں نیتن یاہو کے لئے کامیابی کا راستہ ہموار کیا جا سکے۔ ویسے تو امریکہ ہمیشہ گریٹر اسرائیل کے لئے راستہ ہموار کرتا رہا، لیکن ٹرمپ نے اپنے چار سالہ دورِ اقتدار میں لاڈلے اسرائیل کے لئے تین انتہائی اہم اقدامات کئے، جن میں سے پہلا بیت المقدس کے بارے میں تھا، جسے امریکہ نے اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے تل ابیب سے اپنا سفارتخانہ وہاں منتقل کیا۔  دوسرا فیصلہ گولان کی انتہائی اہم پہاڑیوں سے  متعلق تھا، جنہیں سرکاری طور پر صیہونی ریاست کا حصہ تسلیم کیا گیا۔ تیسرا اہم اقدام سینچری ڈیل کی صورت میں اٹھائیس جنوری کو پیش کیا گیا۔

ہاں مگر فلسطینیوں کے جذبہ حریت کو پوری دُنیا تسلیم کرتی ہے۔ اسرائیل بھلے ہی امریکہ و یورپ سمیت عرب حکمرانوں کا چہیتا کیوں نہ ہو، مگر عوامی سطح پر وہاں بھی ایسے طبقات موجود ہیں، جو فلسطینی مزاحمت کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ تقریبا 72 سال سے جاری یہ فلسطینی مزاحمت دُنیا بھر کے حریت پسندوں کے لہو کو گرمائے ہوئے ہے۔ ہاں مگر مظلوم فلسطینی مسلمانوں پر امریکی و اسرائیلی بھیڑیوں کے یہ ظلم و ستم دیکھ کر ہر غیرت مند مسلمان خواہ وہ شیعہ ہو یا سنی سوچتا تو ہوگا کہ آخر یہ عرب حکمران کس کام کے ہیں؟ بقول شاعر۔۔۔۔۔
غیرت زدہ تو ڈوب گیا ایک بوند میں
ہاں مگر بے غیرتوں کو کوئی سمندر نہ ملا
خبر کا کوڈ : 842983
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش