2
Thursday 6 Feb 2020 17:17

شہید قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ اور خطے کا اسٹریٹجک توازن

شہید قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ اور خطے کا اسٹریٹجک توازن
تحریر: مہدی فضائلی

اس میں کوئی شک نہیں کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی ایک اعلی پائے کے اسٹریٹجسٹ تھے اور ان کی موجودگی بہت سے شعبوں میں تاثیر گذار اور مشکلات دور ہونے کا باعث تھی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اس اعلی سطحی کمانڈر کی شہادت کے بعد مغربی ایشیا خطے اور دنیا کے دیگر حصوں میں موجود سیاسی تجزیہ کار اور اسٹریٹجک ماہرین یہ سوچنے لگے کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی کی عدم موجودگی خطے میں موجود اسٹریٹجک توازن پر کس طرح اثرانداز ہو گی؟ کیا یہ توازن امریکہ کے حق میں تبدیل ہو جائے گا اور خطے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا پلڑا بھاری ہو جائے گا یا کوئی تبدیلی نہیں آئے گا اور حالات جیسے تھے ایسے ہی رہیں گے یا یہ کہ خطے میں اسٹریٹجک توازن ایران اور اسلامی مزاحمتی بلاک کے حق میں تبدیل ہو جائے گا اور اسلامی مزاحمتی بلاک کا پلڑا بھاری ہو جائے گا؟ البتہ ممکن ہے ابھی ان سوالات کے جوابات دینا قدرے مشکل دکھائی دے اور بہتر انداز میں جواب دینے کیلئے کچھ وقت گزر جانے کی ضرورت محسوس کی جائے لیکن کچھ ایسے شواہد پائے جاتے ہیں جن کے پیش نظر اس وقت بھی ان سوالات کا بہت حد تک درست جواب دیا جانا ممکن ہے۔

اس سوال کے جواب میں امریکی حکمرانوں کا کہنا ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی جیسے اسٹریٹجسٹ کی ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں اسلامی مزاحمتی بلاک کو شدید ٹھیس پہنچی ہے اور خطے میں طاقت کا توازن امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے حق میں تبدیل ہوا ہے۔ یاد رہے شہید قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ سے امریکہ کا اصل مقصد ایران کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کرنا تھا۔ وہ چایتے تھے کہ ایران اپنے موقف میں پسماندگی اختیار کرے اور مصلحت پسندی اختیار کرتے ہوئے موجودہ زمینی حقائق کے سامنے تسلیم ہو جائے کیونکہ صرف اسی صورت میں امریکہ اور اس کے اتحادی خطے میں آزادانہ انداز میں سرگرمیاں انجام دے سکتے ہیں۔ امریکی حکام کے اس نقطہ نظر کا جائزہ لینے کیلئے بہتر یہ ہے کہ پہلے "اسٹریٹجک توازن" نامی اصطلاح کی وضاحت کر دی جائے کہ اس سے ہماری کیا مراد ہے۔

اسٹریٹجک توازن سے ہماری مراد "جنگ میں شامل فریق کی جانب سے اپنی قومی پالیسیوں کی زیادہ سے زیادہ حمایت کیلئے طاقت استعمال کرنے کی ایسی صلاحیت ہے جس کا نتیجہ ممکنہ حد تک کامیابی اور کم ترین حد تک ناکامی کے ساتھ مطلوبہ نتائج کے حصول کی صورت میں ظاہر ہو۔" لہذا اس تعریف کی روشنی میں امریکی حکمرانوں کا نقطہ نظر باطل دکھائی دیتا ہے۔ اگر ہم سیاسی میدان کا جائزہ لیں تو شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی المہندس کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد امریکہ کو خطے میں متعدد سیاسی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مثال کے طور پر اس امریکی اقدام کے چند دن بعد ہی عراق کی پارلیمنٹ نے ایک بل منظور کیا جس کے تحت ملک سے امریکی فوجی انخلاء کو لازمی قرار دے دیا گیا اور یہ فیصلہ قانون کی حیثیت اختیار کر گیا۔ دوسری طرف بغداد، نجف اور کربلا جیسے عراق کے اہم شہروں میں بہت بڑے پیمانے پر شہید قاسم سلیمانی، شہید ابو مہدی المہندس اور ان کے دیگر شہید ساتھیوں کا تشییع جنازہ منعقد ہوا جس میں لاکھوں عراقی باشندوں نے شرکت کی۔ یہ درحقیقت امریکہ کے منہ پر پہلا طمانچہ تھا۔ جنازے میں شریک افراد نے ایسے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر "قابض امریکہ نکل جاو" جیسے نعرے درج تھے۔ یہ عظیم اجتماعات درحقیقت عراقی عوام کی جانب سے امریکہ سے شدید نفرت کا اظہار اور اسے ملک سے نکال باہر کرنے کیلئے ایک عظیم عوامی ریفرنڈم ثابت ہوئے۔ علم سیاسیات کی سوجھ بوجھ رکھنے والے افراد بخوبی جانتے ہیں کہ کسی ملک کی عوام کی جانب سے اپنے خلاف نفرت کا اظہار کتنا بڑا سیاسی نقصان تصور کیا جاتا ہے۔

اسی طرح فوجی میدان میں بھی امریکہ کو شدید شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے نہ صرف اپنے موقف میں پسماندگی اختیار نہ کی بلکہ دلیرانہ انداز میں جوابی کاروائی کرتے ہوئے بغداد کے قریب واقع "عین الاسد" نامی امریکی فوجی اڈے کو دسیوں بیلسٹک میزائلوں سے نشانہ بنایا۔ یہ انتہائی جدید قسم کے میزائل تھے جو ریڈار سے بچنے کی صلاحیت رکھنے کے ساتھ ساتھ جی پی ایس کنٹرول سسٹم کے ذریعے ٹھیک نشانے پر وار کرنے والی ٹیکنالوجی سے لیس تھے۔ ایران کی جانب سے فائر کئے گئے تمام میزائل اپنے نشانے پر لگے۔ ہر میزائل تقریبا 650 کلوگرام دھماکہ خیز مواد رکھتا تھا۔ امریکہ کا عین الاسد فوجی اڈہ ایک انتہائی جدید ریڈار سسٹم اور کنٹرول اینڈ کمانڈ سنٹر سے لیس تھا جس کی مدد سے امریکہ عراق اور شام میں اپنے تمام فوجی آپریشنز کو کنٹرول کرتا تھا۔ ایران کے میزائل حملوں میں یہ مرکز مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے۔ مزید برآں، جنرل قاسم سلیمانی کی شخصیت امریکہ کیلئے بہت حد تک جانی پہچانی تھی لیکن اب ان کی جگہ جو نئے افراد اس کے مدمقابل آئے ہیں ان کے بارے میں امریکہ کی معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں اور جنگ کے میدان میں دشمن سے متعلق معلومات نہ ہونا ایک بہت بڑی کمزوری تصور کی جاتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 843030
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش