QR CodeQR Code

امریکہ شدید سیاسی انتشار کے دہانے پر

7 Feb 2020 21:19

اسلام ٹائمز: آئندہ صدارتی الیکشن قریب ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ ملک کی سیاسی فضا کو کشیدہ کر کے ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ایک ایسا جذباتی ماحول بنانا چاہتے ہیں جس میں ان کے مخالفین کی منطقی آواز بھی دب جائے اور عوام جوش میں آ کر انہیں ووٹ دیں۔


تحریر: سید رحیم نعمتی

ایوان نمائندگان میں صدر مملکت کی سالانہ تقریر امریکہ کی ایک ایسی روایت ہے جس کی بنیاد پہلے امریکی صدر جارج واشنگٹن نے رکھی۔ اگرچہ 1913ء تک یہ روایت صدر کی جانب سے کانگریس کو رپورٹ بھیجنے پر مشتمل تھی لیکن اس وقت سے لے کر آج تک یہ روایت کانگریس میں صدر کی آمد اور تقریر کی صورت میں انجام پاتی ہے۔ اس روایت کو State of the Union Address کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس تقریر میں امریکی صدر ملک کی عمومی صورتحال اور اپنی پہلی ترجیحات اور پالیسیوں کے بارے میں وضاحت پیش کرتا ہے۔ اسی وجہ سے اس تقریب کو ہر طرح کی سیاسی تقسیم بندی اور پارٹی بازی سے ماوراء تصور کیا جاتا ہے اور اسے وائٹ ہاوس اور کانگریس کے درمیان اتحاد کی علامت بھی جانا جاتا ہے۔ اسی طرح یہ تقریب امریکہ کی دو بڑی سیاسی جماعتوں ریپبلکنز اور ڈیوکریٹس کے درمیان اتحاد کی بھی علامت ہے۔ لیکن اس سال ایوان نمائندگان میں کچھ اور ہی منظر دکھائی دیا جو امریکہ کی پوری تاریخ میں منفرد تھا۔ منگل 4 فروری کے دن کانگریس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سالانہ تقریر نہ صرف قومی اتحاد کی علامت نہ تھی بلکہ شدید سیاسی اختلافات اور پارٹی بازی کا منظر پیش کر رہی تھی۔

یہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایوان نمائندگان میں تیسری سالانہ تقریر تھی۔ فرینکلن روزویلٹ کے زمانے سے رسم یہ تھی کہ امریکی صدر نیا سال شروع ہونے کے موقع پر جنوری کے مہینے میں ایوان نمائندگان میں حاضر ہو کر سالانہ تقریر کیا کرتا تھا۔ اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ بار بھی اس رسم کی پابندی نہیں کی تھی لیکن اس سال ان کی سالانہ تقریر میں تاخیر کی ایک خاص وجہ بھی تھی۔ یہ وجہ ایوان نمائندگان میں ان کے مواخذے کی تحریک تھی۔ کانگریس نے صدر کے مواخذے کی تحریک منظور کر کے اسے سینیٹ بھیج دیا تھا اور سینیٹ میں یہ بل زیر بحث تھا اور اسی طرح صدر کا مواخذہ بھی جاری تھا لہذا ان کی سالانہ تقریر میں تاخیر پیش آ گئی۔ سینیٹ میں ریپبلکن پارٹی سے وابستہ اراکین کی اکثریت ہے لہذا اس اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے بعض انتہائی اہم افراد جیسے جان بولٹن کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف گواہی دینے کیلئے حاضر ہونے کی اجازت نہیں دی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر جان بولٹن کو گواہی دینے کی اجازت مل جاتی تو مواخذے کی تحریک نیا رخ اختیار کر سکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ٹویٹر پیغامات میں جان بولٹن کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ مواخذے کی تحریک ناکام ہونے کو ڈیموکریٹک پارٹی کے مقابلے میں اپنی ایک اہم کامیابی تصور کرتے ہیں۔ دوسری طرف کانگریس میں ڈیموکریٹک پارٹی کی اکثریت ہے۔ لہذا جب اس بار ڈونلڈ ٹرمپ کانگریس میں سالانہ تقریر کیلئے حاضر ہوئے تو انہوں نے اپنی حریف پارٹی کی تحقیر کا ارادہ کر لیا اور جب ڈیموکریٹک پارٹی سے وابستہ کانگریس کی سربراہ نینسی پلوسی نے ان کی جانب مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھایا تو ٹرمپ انہیں نظرانداز کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کا یہ اقدام امریکی ثقافت میں ایک بے ادبانہ، توہین آمیز اور صدر کے منصب کے منافی اقدام تصور کیا جاتا ہے۔ نینسی پلوسی نے بھی فوراً ردعمل ظاہر کیا اور ڈونلڈ ٹرمپ کی سالانہ تقریر کی پرنٹ شدہ کاپی سب کے سامے پھاڑ ڈالی۔ نینسی پلوسی کا یہ اقدام امریکی تاریخ میں بے سابقہ ہے اور قومی روایات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ بعد میں نینسی پلوسی نے اپنے اس اقدام کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: "ان کے سامنے مختلف آپشنز موجود تھے اور ان میں سے سب سے زیادہ مودبانہ آپشن یہی تھا جو انہوں نے انجام دیا ہے۔"

شاید نینسی پلوسی یہ سمجھ رہی ہوں کہ انہوں نے اپنے اس اقدام کی بہت اچھی دلیل پیش کی ہے لیکن درحقیقت ان کے اس جذباتی ردعمل نے ایک ایسی جنگ کا آغاز کر دیا ہے جسے شروع کرنے کیلئے ڈونلڈ ٹرمپ کانگریس گئے اور نینسی پلوسی سے توہین آمیز انداز میں پیش آئے۔ ریپبلکن پارٹی کے حامیوں کی جانب سے نینسی پلوسی کے اقدام کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی شدت میں مزید اضافہ ہو گا۔ یہ وہی صورتحال ہے جس کی ڈونلڈ ٹرمپ کو انہائی اشد ضرورت تھی۔ آئندہ صدارتی الیکشن قریب ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ ملک کی سیاسی فضا کو کشیدہ کر کے ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ایک ایسا جذباتی ماحول بنانا چاہتے ہیں جس میں ان کے مخالفین کی منطقی آواز بھی دب جائے اور عوام جوش میں آ کر انہیں ووٹ دیں۔ لہذا ڈونلڈ ٹرمپ نے کانگریس میں اپنے اس اقدام کے ذریعے نہ صرف ڈیموکریٹک پارٹی سے اپنے مواخذے کا بدلا لیا ہے بلکہ ان کے خلاف ایک شدید نفسیاتی جنگ بھی شروع کر دی ہے۔ یوں جیسے جیسے نئے صدارتی انتخابات قریب آ رہے ہیں امریکہ مزید سیاسی انتشار اور کشمکش کی جانب آگے بڑھ رہا ہے۔


خبر کا کوڈ: 843260

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/843260/امریکہ-شدید-سیاسی-انتشار-کے-دہانے-پر

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org