QR CodeQR Code

ایرانیوں کا سخت انتقام یا اندھا انتقام(5)

7 Feb 2020 22:49

اسلام ٹائمز: خداوند عالم سے دعا ہے کہ وہ عظیم پروردگار! برادر توقیر کھرل کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں عظیم عبادت قرار دے اور جن بزرگوں اور دوستوں نے انکی سرپرستی اور معاونت کی ہے، اللہ تعالیٰ انہیں بھی اجرِ عظیم عطا کرے۔ یہ کتاب سخت اور خدائی انتقام کی چنگاریوں میں سے ایک چنگاری ہے، ایک ایسی چنگاری جو ہمیں ہمیشہ یہ یاد دلاتی رہیگی کہ اللہ تعالیٰ ہر دور میں مختلف اسباب اور وسائل کیساتھ ظالموں کو شکستِ فاش دیتا ہے۔ وہ کبھی ظالموں کیخلاف نفرت اور مظلومین کی محبت کو لوگوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے اور کبھی اسکی بھیجی ہوئی آندھی اور طوفان سے ظالموں کے پرچم سرنگوں ہو جاتے ہیں، وہ کبھی ظالموں کے دلوں میں مظلومین کا رعب ڈال دیتا ہے۔


تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

مظلومین کا سب سے بڑا منتقم خداوند عالم ہے، ظالم جتنا طاقتور ہوتا ہے، اس کے لئے خدائی انتقام اتنا ہی سخت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر دور میں مختلف اسباب اور وسائل کے ساتھ مظلوموں کی مدد کرتا ہے اور ظالموں کو شکستِ فاش دیتا ہے۔ وہ  کبھی ظالموں کے خلاف نفرت اور مظلومین کی محبت کو لوگوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے اور کبھی اس کی بھیجی ہوئی آندھی اور طوفان سے ظالموں کے پرچم سرنگوں ہو جاتے ہیں، وہ کبھی ظالموں کے دلوں میں مظلومین کا رعب ڈال کر انہیں  پسپا کرتا ہے اور کبھی چھوٹی چھوٹی کنکریوں سے ہاتھیوں کا لشکر تباہ کروا دیتا ہے۔ وہ کبھی دریا کی موج سے فرعون کی سلطنت کی بساط لپیٹتا ہے اور کبھی ظالم کو ظالم سے لڑوا کر ظالموں کو تہس نہس کر دیتا ہے، وہ کبھی غار کے منہ پر مکڑی سے جالا بنوا کر ہادی عالمﷺ کی جان بچاتا ہے اور کبھی فرشتے نازل کرکے 313 کو ایک ہزار پر غالب کر دیتا ہے۔

گذشتہ دنوں قاسم سلیمانی کی شہادت کے  فوراً بعد ہم سب نے بھی خدائی مدد اور خدائی انتقام کی مختلف صورتوں کا مشاہدہ کیا۔ خصوصاً دنیا کے ہر باضمیر انسان کے دل میں امریکہ کے خلاف شدید نفرت اور انقلاب اسلامی ایران سے شدید عشق کا شعلہ بھڑکا، دنیا بھر میں امریکہ سے نفرت اور ایران سے محبت عام ہوئی، امریکی ابرہہ کے لشکر پر ایرانی میزائل ابابیلوں کی کنکریوں کی مانند برسے، ایران کے 52 مقامات کو نشانہ بنانے کی دھمکی دینے والے ٹرمپ کا سارا رعب و دبدبہ صابن کی جھاگ کی طرح بیٹھ گیا اور اس وقت ایران کا خوف امریکیوں کے اعصاب پر اس طرح سوار ہے کہ افغانستان، یمن، فلسطین، عراق الغرض دنیا میں جہاں بھی کوئی امریکی جہاز گرتا ہے، یا ان پر کوئی حملہ ہوتا ہے تو انہیں ڈر کے مارے وہاں پر ایران ہی ایران دکھائی دیتا ہے۔

صاحبان علم و دانش بخوبی جانتے ہیں کہ ایران کا بیانیہ کوئی نیا بیانیہ نہیں ہے، دنیا سے طاغوت کا انخلا اور خاتمہ! یہ کوئی نئی فکر نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے اسی مقصد کیلئے انبیائے کرام کو بھیجا اور کتابیں نازل کیں۔ مظلوموں کی مدد، کمزوروں کی داد  رسی اور مجبوروں کی نجات کیلئے انبیائے کرام تبلیغ، جہاد اور ہجرتیں کرتے رہے۔ شہید قاسم سلیمانی کا راستہ وہی راستہ ہے، جو انبیائے کرام کا راستہ تھا، انہوں نے انبیائے کرام، آل رسولﷺ، صحابہ کرام ؓ اور اولیائے کرام کی سرزمین عراق و فلسطین و شام اور یمن میں مقامی قبائل اور نہتے لوگوں کو طاغوت کے خلاف متحد کیا۔

وہ ساری زندگی انبیا ؑو مرسلین ؑ کے عظیم مشن کی خاطر جہاد کرتے رہے، جہاد ایک عظیم عبادت ہے، اس عظیم جہاد کے صدقے میں انہوں نے شہادت کی عظیم سعادت پائی۔ انہیں یہ عظیم سعادت ایک عظیم اور مقدس سرزمین عراق میں نصیب ہوئی، وہی عراق جس میں سیدالشہداء حسین ابن علیؑ اور ان کے والد ماجد علی ابنِ ابیطالبؑ بھی شہید ہوئے تھے۔ وہ کسی اور دن نہیں بلکہ جمعۃ المبارک کے عظیم دن شہادت کی معراج پر فائز ہوئے۔ ان کی عظمت اور ہیبت کے کیا کہنے کہ انہیں کرائے کے قاتل صہیونی یا داعشی نہیں قتل کرسکے، بلکہ براہ راست امریکی صدر نے ان کے خون میں اپنے ہاتھ رنگے۔ یوں سمجھئے کہ انہیں گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو ناکام کرنے، بیت المقدس کی آزادی کیلئے جدوجہد کرنے اور حضرت زینبؑ کے حرم کا دفاع کرنے کے عظیم جہاد کا عظیم انعام اس عظیم شہادت کی صورت میں ملا ہے۔

قاسم سلیمانی شہید ہوئے تو شرق و غرب میں یہی صدائیں گونجنے لگیں کہ ہم سب قاسم سلیمانی ہیں، یہ صدائیں نوشتہ دیوار ہیں کہ قاسم سلیمانی کا مشن ان کے بعد بھی جاری و ساری رہے گا۔ طاغوت نے سوچا تھا کہ قاسم سلیمانی زیادہ سے زیادہ ایران کے شہید اور تہران کے ہیرو ہیں، لیکن قاسم سلیمانی کے جنازے کے مناظر نے ساری دنیا پر یہ واضح کر دیا ہے کہ حریّت، آزادی، استقلال، خود مختاری، عدل و انصاف اور انسانیت کو ممالک کی حدود اور مسالک کی چاردیواری میں بند نہیں کیا جا سکتا۔ قاسم سلیمانی کے قتل سے طاغوت جس تہران کو ڈرانا اور دبانا چاہتا تھا، وہ تہران انقلابِ اسلامی کے بعد آج ایک مرتبہ پھر اس شہادت کی برکت سے عالمِ اسلام کا جنیوا بن گیا ہے اور دنیا بھر کے مظلومین کو علامہ محمد اقبال کے اس خواب کی تعبیر عملی طور پر نظر آنے لگی ہے کہ 
دیکھا ہے ملوکیتِ افرنگ نے جو خواب
ممکن ہے کہ اس خواب کی تعبیر بدل جائے
طہران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا
شاید کرہ ارض کی تقدیر بد ل جائے


قاسم سلیمانی کی شہادت کے روز اس کرّہ ِ ارض پر سوائے امریکی، صہیونی اور داعشی ٹولوں کے ہر آنکھ اشکبار تھی اور ہر شخص نے کسی نہ کسی انداز میں شہید کے ساتھ اپنی عقیدت اور محبت کا اظہار کیا۔ شہید کے جنازے سے لے کر امریکہ مردہ باد کی ریلیوں تک، ہر طرف عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا۔ اس موقع پر بلاتفریقِ مذہب و مسلک ہر غیور اور خوددار انسان نے شہید کی زندگی، خدمات، افکار، اہداف، جدوجہد، شہادت اور مقام و منزلت کے بارے میں اپنی زبان کھولی اور قلم اٹھایا۔ ایسے میں ملت پاکستان بھی کسی سے پیچھے نہیں رہی۔ پاکستانی قوم نے بھی مختلف میدانوں میں شہید کے ساتھ اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔ ان تاریخی لمحات میں پاکستانی قوم کے جذبات، تاثرات اور تجزیات کو ایک مستند دستاویز کی صورت میں محفوظ کرنا ضروری تھا۔ ظاہر ہے یہ کام جتنا ضروری تھا، اتنا ہی مشکل بھی۔ چنانچہ خدائی انتقام کی ایک جھلک یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ برادر توقیر کھرل نے ایک پاکستانی ہونے کے ناطے شہید سے اپنی عقیدت کے رشتے کو نبھانے کی خاطر اپنے لئے ایک الگ تھلگ، خالی اور مشکل میدان کا انتخاب کیا۔ قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد موصوف حسبِِ استطاعت شہید کے بارے میں ملت پاکستان کے جذبات، تاثرات اور تجزیات کی جمع آوی میں مصروف ہوگئے۔

یہ کہنا آسان ہے کہ انہوں نے اس کتاب کی جمع آوری کی، لیکن جو احباب کاغذ و قلم سے لگاو رکھتے ہیں، شہید اور شہادت کے مرتبے کو سمجھتے ہیں اور قاسم سلیمانی کی شخصیت سے آشنائی رکھتے ہیں، وہ یقیناً اس امر کی گواہی دیں گے کہ ایسے کام صرف محنت اور زحمت کرنے سے انجام نہیں پاتے۔ نظریات کو عمل میں ڈھالنے کیلئے صرف صحافی ہونا ہی کافی نہیں ہوتا، بلکہ تائید غیبی اور نصرت الہیٰ کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر، اُسی پر بھروسہ کرتے ہوئے اور اُسی کی مدد سے اس کتاب کیلئے نگارشات کی جمع آوری کا کام شروع کیا، جمع آوری کے تھکا دینے والے کام کے بعد رُلا دینے والے کام یعنی تصحیح، ترتیب و تدوین اور پھر نشر و اشاعت کے مراحل کو  بھی انجام دیا۔ کسی بھی کام کو انجام دینے والے میں تین خوبیوں کا پایا جانا ضروری ہے۔ پہلی یہ کہ انسان جس کام کا ارادہ کرے، اُس میں وہ کام انجام دینے کی صلاحیت بھی موجود ہو، دوسری یہ کہ انسان اُس کام کو پسند بھی کرتا ہو، تیسری یہ کہ انسان اس کام کیلئے زحمت اٹھائے اور محنت کرے۔

اگر انسان ایک کام کا ارادہ کرے، لیکن اس میں وہ کام انجام دینے کی صلاحیت نہ ہو، یا صلاحیت تو ہو لیکن وہ اس کام کو پسند نہ کرتا ہو اور یا پھر ایک کام کی صلاحیت بھی ہو، اسے پسند بھی کرتا ہو، لیکن اس کام کیلئے محنت اور جدوجہد نہ کرے تو وہ  کام تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ شہید پر مختلف زاویوں سے لکھے گئے کالمز،  رپورٹس، تاثرات، خوشگوار یادوں، شاعری اور تصاویر پر مشتمل یہ اہم دستاویز اس بات پر دلیل ہے کہ برادر توقیر کھرل میں مذکورہ بالا تینوں اوصاف پائے جاتے ہیں۔ اس کتاب کی اہمیت کے بارے میں مزید کچھ کہنے سے قاصر ہوں، اس لئے کہ یہ کتاب جس عظیم شہید کی خاطر تالیف کی گئی ہے، وہ شہید لامحدود عظمتوں کی معراج پر فائز ہے اور یہ حُسنِ اتفاق دیکھئے کہ اس عظیم شہید کے بارے میں تالیف کی جانے والی یہ کتاب کائنات کی عظیم ترین خاتون سیدہ دو عالم حضرت فاطمۃ الزہرا ؑ کی شہادت کے عظیم دن کو مکمل ہوئی ہے۔

ہماری بھی خداوند عالم سے دعا ہے کہ وہ عظیم پروردگار! برادر توقیر کھرل کی اس  کاوش کو اپنی بارگاہ میں عظیم عبادت قرار دے اور جن بزرگوں اور دوستوں نے ان کی سرپرستی اور معاونت کی ہے، اللہ تعالیٰ انہیں بھی اجرِ عظیم عطا کرے۔ یہ کتاب سخت اور خدائی انتقام کی چنگاریوں میں سے ایک چنگاری ہے، ایک ایسی چنگاری جو ہمیں ہمیشہ یہ یاد دلاتی رہے گی کہ اللہ تعالیٰ ہر دور میں مختلف اسباب اور وسائل کے ساتھ ظالموں کو شکستِ فاش دیتا ہے۔ وہ کبھی ظالموں کے خلاف نفرت اور مظلومین کی محبت کو لوگوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے اور کبھی اس کی بھیجی ہوئی آندھی اور طوفان سے ظالموں کے پرچم سرنگوں ہو جاتے ہیں، وہ کبھی ظالموں کے دلوں میں مظلومین کا رعب ڈال دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


خبر کا کوڈ: 843294

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/843294/ایرانیوں-کا-سخت-انتقام-یا-اندھا-5

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org