1
Sunday 9 Feb 2020 00:03

امریکہ کے صدارتی امیدوار کے سنسنی خیز انکشافات

امریکہ کے صدارتی امیدوار کے سنسنی خیز انکشافات
تحریر: حسن فرامرزی

صدارتی امیدواروں کے درمیان انتخابات سے پہلے منقعد ہونے والی مناظراتی گفتگو ایسے انکشافات کا موقع فراہم کرتی ہے جو اپنے حریف سے متعلق اہم حقائق آشکار کرنے کیلئے پہلی بار سامنے آتے ہیں۔ یہ حقائق مختلف قسم کی خبروں سے اخذ کئے جاتے ہیں۔ لہذا ایسے انکشافات وارننگ دینے اور خبردار کرنے کے ساتھ ساتھ ایک ملک یا معاشرے کی نئی تصویریں بھی پیش کرتے ہیں۔ امریکہ میں اس سال نئے صدارتی انتخابات منعقد ہونے والے ہیں اور تمام امیدواروں کی صدارتی مہم عروج پر ہے۔ اسی سلسلے میں مختلف صدارتی امیدواروں کے درمیان مناظراتی گفتگو بھی منعقد کی جا رہی ہے۔ حال ہی میں ایک ایسی ہی مناظراتی گفتگو میں ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار برنی سینڈرز نے امریکی معاشرے اور حکومت کے بارے میں کچھ انتہائی سنسنی خیز انکشافات کئے ہیں جو عالمی رائے عامہ اور میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے امریکی معاشرے کے بارے میں ایک اہم انکشاف یہ کیا کہ اس وقت ملک بھر میں 2 لاکھ بیگناہ افراد جیل میں قید ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان افراد کے خلاف کوئی جرم ثابت نہیں ہوا اور صرف اس لئے جیل میں بند ہیں کہ ان کے پاس اپنی ضمانت کیلئے 500 ڈالر کی حقیر سی رقم بھی نہیں ہے۔

برنی سینڈرز نے مزید کہا کہ امریکی معاشرہ نسل پرستی میں غرق ہو چکا ہے اور ایک بہت بڑی بے انصافی یہ ہے کہ سفید فام شہریوں کی دولت سیاہ فام شہریوں سے دس گنا زیادہ ہے۔ دوسری طرف جیلوں میں قید افراد کی زیادہ تر تعداد سیاہ فام شہریوں پر مشتمل ہے۔ اسی طرح انہوں نے امریکہ کی جانب سے جنرل قاسم سلیمانی، ابو مہدی المہندس اور ان کے ساتھیوں کی بہیمانہ ٹارگٹ کلنگ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: "یہ صحیح نہیں کہ آپ دنیا کے مختلف کونوں میں یہ کہتے ہوئے چل پڑیں کہ آپ کی ٹارگٹ کلنگ کریں گے کیونکہ آپ برے ہیں۔ اگر ایسا کریں گے تو عالمی سطح پر بدامنی اور انارکی کا دروازہ کھول دیں گے۔" اگرچہ برنی سینڈرز بھی امریکی نظام حکومت کا حصہ ہیں اور ان سے یہ توقع رکھنا بے جا ہے کہ وہ غیر جانبدار ہو کر حق کی بات کریں گے لیکن ان کی جانب سے اسی حد تک حقائق سامنے لانا ایک اہم نکتہ ہے کیونکہ آج امریکہ کا رویہ اس قدر وحشیانہ اور نامعقول ہو چکا ہے کہ وہ اعلانیہ طور پر ریاستی دہشت گردی پر مبنی اقدامات انجام دیتا دکھائی دیتا ہے۔

علم نفسیات میں ایک اصول بیان کیا جاتا ہے کہ جب کوئی شخص بے چارگی اور بے بسی کی انتہائی حد تک پہنچ جاتا ہے اور اسے برداشت نہیں کر پاتا تو خطرناک قسم کے اقدامات اور مہم جوئی پر مبنی فیصلے انجام دیتا ہے۔ برنی سینڈرز نے اس مناظراتی گفتگو میں صرف چند موارد کا ذکر کیا ہے لیکن یہی چند موارد امریکہ کی حالیہ پالیسیوں اور لائحہ عمل کا راز کھولنے کیلئے کافی ہیں۔ امریکی معاشرہ سرمایہ دارانہ سوچ کے غلبے کی وجہ سے ایسی جگہ پہنچ چکا ہے کہ دو لاکھ سے زائد افراد جرم ثابت ہوئے بغیر صرف اس وجہ سے جیل میں قید ہیں کہ ان کے پاس پانچ سو ڈالر نہیں۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ میں ایک سرمایہ دار شخص کے جوتوں کے تسمے کی قیمت بھی پانچ سو ڈالر سے زیادہ ہوتی ہے۔ دوسری طرف سرمایہ داری کے ساتھ ساتھ نسل پرستی کے بھی غلبے کی وجہ سے سفید فام شہریوں اور سیاہ فام شہریوں میں شدید طبقاتی اختلاف پایا جاتا ہے۔ درحقیقت امریکی معاشرہ دو بڑے زخموں سے کراہ رہا ہے؛ ایک سرمایہ داری اور دوسرا نسل پرستی۔

سرمایہ دارانہ نظام اور سوچ نے امریکی معاشرے کو کئی ٹکڑوں میں تبدیل کر دیا ہے جبکہ نسل پرستی کی جڑیں امریکی معاشرے میں بہت گہری ہیں اور اس کا واضح ثبوت موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا رویہ اور اقدامات ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور دیگر امریکی سیاسی رہنماوں میں فرق یہ ہے کہ ٹرمپ کسی منافقت کے بغیر امریکی ثقافت اور اقدار کا حقیقی چہرہ نمایاں کرتے ہیں جبکہ دیگر سیاسی لیڈران منافقت سے کام لے کر خوبصورت الفاظ کے روپ میں وہی کام کرتے ہیں جو ڈونلڈ ٹرمپ کھلم کھلا اور صاف الفاظ میں کرتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ سمیت تمام امریکی صدور اور دیگر سیاسی لیڈران کا وطیرہ رہا ہے کہ جب بھی انہیں ملک کے اندر کسی سیاسی بحران یا چیلنج سے سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے بین الاقوامی سطح پر ایک ایسا اقدام انجام دیا جس کی بدولت اپنی عوام کی توجہ اصل مسئلے سے ہٹا کر اس دوسرے ایشو کی جانب مبذول کر دی۔ تکفیری دہشت گرد گروہوں کے خلاف سرگرم عمل سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ اسی قسم کے امریکی اقدامات کا ایک بڑا مصداق ہے۔ جب ڈونلڈ ٹرمپ اندرونی سطح پر انتہائی کمزور پوزیشن کا شکار ہوئے تو انہوں نے اس مہم جوئی کے ذریعے خود کو طاقتور ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ امریکی سیاست دانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے ملک کو درپیش اقتصادی، سماجی اور ثقافتی مسائل کو قبول کرتے ہوئے انہیں حل کرنے کیلئے حقیقت پسندانہ راہ حل تلاش کریں۔
خبر کا کوڈ : 843497
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش