0
Friday 14 Feb 2020 20:25

شہید وحدت حاج قاسم سلیمانی

شہید وحدت حاج قاسم سلیمانی
تحریر: ایس ایم موسوی

آج القدس فورس کمانڈر حاجی قاسم سلیمانی کے چہلم کے موقع پر ان کی حالات زندگی کا مطالعہ کرنے پر معلوم ہوا کہ ان کے لیے شہید وحدت کہلانا زیادہ مناسب ہوگا، کیونکہ انہوں نے اپنی پوری زندگی امت مسلمہ کے اتحاد و اتفاق کے خاطر صرف کر دی ہے اور اسی جرم میں انہیں مظلومانہ انداز میں شہید کر دیا گیا۔ مگر وہ شہادت کے درجے پر فائز ہونے کے بعد بھی دنیا بھر کے مسلمانوں میں اتحاد کی فضا قائم کر گئے ہیں۔ ان کی بیٹی زینب سلیمانی نے بھی کہا کہ میرے باپ کے خون کا بہترین بدلہ یہ ہے کہ تمام امت مسلمہ متحد ہو جائے، کیونکہ میرے بابا ہمیشہ اسی فکر میں ہوتے تھے کہ کس طرح امت مسلمہ کو ایک پیچ پر جمع کروں اور مسلمانوں کو آل یہود کی سازشوں سے بچاوں؟ آج ہم دیکھتے ہیں کہ جس ملک کے ساتھ آٹھ سالوں تک خونی جنگ رہی ہو، اس کے ساتھ اتحاد قائم ہوا تو یہ ان کی کاوشوں کا نتیجہ ہے، شہید قاسم سلیمانی اپنے عراقی دوست ابو مہدی مہندس کے ساتھ زندگی بھر قدم سے قدم ملا کر چلتے رہے اور شہادت کے وقت بھی دونوں ہاتھوں میں ہاتھ دیئے ساتھ چلے گئے۔ آج ان کی دوستی پر دنیا رشک کر رہی ہے۔

جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت سے کچھ روز قبل عراق میں بیرونی طاقت کے بل بوتے پر پلنے والوں کی جانب سے ایران کے خلاف مظاہرے کیے گئے اور ایرانی سفارتخانے کو آگ لگائی گئی، مگر اس کے مقابلے میں انہوں نے دوسرے دن ایرانی طلباء کے ذریعے عراقی سفارتخانے کے سامنے پھول رکھوا کر محبت اور بھائی چارے کا پیغام دیتے ہوئے اس سازش کو ناکام بنا دیا۔ دنیا کے جس کونے میں بھی مسلمانوں پر برا وقت آیا، وہ ان کے دفاع کے خاطر صف اول میں نظر آتے تھے، خصوصاً مسلم ممالک کے درمیان پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرکے انہیں قریب لانے میں ان کا مثالی کردار رہا ہے۔ شہادت سے چند روز پہلے یہ بھی طے پایا تھا کہ ایران و سعودی عرب کے آپس میں تعلقات بڑھانے کے لیے وہ سعودی عرب کا دورہ کریں گے، لیکن جیسے ہی یہ معاملہ طے پایا، امریکہ نے ان پر حملہ کرکے اس کوشش کو ناکام بنا دیا، کیونکہ امریکہ کبھی نہیں چاہتا کہ مسلم ممالک آپس میں متحد ہو جائیں۔

لیکن نادانوں کو کیا معلوم تھا کہ ان کی شہادت بھی مسلم ممالک کے درمیان اتحاد و اتفاق کا باعث بنے گی۔ ان کی شھادت کے بعد پاکستان میں بھی اتحاد امت فورم وجود میں آیا، جس میں تمام مذہبی پارٹیوں کے راہنماء اکٹھے ہوئے اور انہوں نے ایک ساتھ ایران کا دورہ بھی کیا۔ پاکستان کے بارے میں ان کا موقف واضح تھا، انہوں نے کہا تھا کہ اگر کوئی پاکستان پر حملہ آور ہوا تو ہم اپنے خون کے آخری قطرے تک پاکستان کا دفاع کریں گے۔ ہمیں آج بھی یہ معلوم ہی نہیں کہ جنرل قاسم سلیمانی کس شخصیت کا نام ہے؟ ہمار ے میڈیا کا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا، وہ امریکہ و یورپ کے میڈیا کی ہی کاپی کرتا ہے، ہمیں بار بار یہی بتایا جا رہا ہے کہ وہ ایک ایرانی جنرل تھے۔ یہ آدھا سچ ہے، ہمیں ہمیشہ آدھا سچ ہی بتایا جاتا ہے۔ مکمل سچائی یہ ہے کہ وہ صرف ایرانی جنرل اور ایک فوجی شخصیت ہی نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں گریٹر اسرائیل کے راستے میں کھڑی ایک مضبوط دیوار بھی تھے۔

القدس فورس کے کمانڈر حاج قاسم سلیمانی کو شہید قدس بھی کہا جاتا ہے۔ قدس نہ ایرانیوں کا ہے نہ فلسطینیوں کا بلکہ قدس تو تمام مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اور وہ اسی قبلہ اول کی آزادی کے لیے کوشاں تھے، لہذا وہ شہید اسلام ہیں۔ انہوں نے اپنی بصیرت کے ساتھ اسرائیل پر تباہی کا خوف سوار کرکے صرف ایران کا نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کا دفاع کیا۔ امریکہ اور مغرب جو مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ تبدیل کرنا چاہتے تھے، شہید قاسم سلیمانی نے اس نقشے کو خلیج فارس میں ڈبو کر ہمیشہ کے لیے نابود کر دیا۔ اگر امریکہ و یورپ کے منصوبے کے تحت مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ تبدیل ہو جاتا تو ساری اسلامی ریاستوں کے ٹکڑے ہو جاتے۔ جنرل قاسم سلیمانی نے اس منصوبے کو ناکام بنا کر ساری اسلامی ریاستوں کی حفاظت کی ہے۔ اسی طرح ہر باشعور انسان یہ جانتا ہے کہ داعش کو فقط شام اور عراق کے لیے نہیں بنایا گیا تھا، بلکہ سارے جہانِ اسلام کے لیے بنایا گیا تھا۔ حاج قاسم سلیمانی نے داعش کا خاتمہ کرکے پورے عالم اسلام کو تحفظ بخشا ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ اس نظریئے کو غلط ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ و یورپ کے خلاف صرف شیعہ ہلال سرگرم ہے، بلکہ جنرل قاسم سلیمانی نے عراق، شام  اور فلسطین جیسی غیر شیعہ ریاستوں کا دفاع کرکے اور حشد الشعبی کو فعال کرکے شیعہ ہلال کے ساتھ سُنی ہلال کو بھی ملایا اور اب یہ ہلال ماہَ کامل بن چکا ہے۔ اب امریکہ و یورپ کی استعماری کارروائیوں کے خلاف صرف شیعہ ہلال نہیں بلکہ دشمن کے مقابلے میں شیعہ و سُنی بدر یعنی ماہ کامل ہے۔ قاسم سلیمانی نے اپنی جدوجہد سے حالات تبدیل کر دیئے ہیں، اب سوچیں بدل چکی ہیں، اب ہر عقلمند خواہ وہ شیعہ ہو یا سنی، وہ یہ سمجھنے لگا ہے کہ امریکہ و یورپ کو کسی شیعہ یا سنی سے محبت ہے اور نہ نفرت، بلکہ ان کا اصل ہدف مسلمانوں کو پارہ پارہ کرنا ہے۔ جس کے لیے وہ بڑی ہوشیاری سے کسی کے ساتھ دوستی کسی کے ساتھ دشمنی نبھا کر مسلمانوں کو آپس میں دست گریبان رکھنا چاہتے ہیں۔

قاسم سلیمانی نے اپنی چالیس سالی مقاومتی زندگی میں اہل سنت کو یہ شعور دیا ہے کہ ہم کوئی الگ الگ ہلال نہیں بلکہ ہم امت واحدہ اور ماہ کامل ہیں۔ ہم دہشت گرد نہیں بلکہ دہشت گردوں کو ہم پر مسلط کیا جاتا ہے۔ بی بی سی فارسی کی ایک دستاویزی فلم کے لیے ایک انٹرویو میں عراق میں سابق امریکی سفیر رائن کروکر نے بھی کہا تھا کہ جنرل سلیمانی کا بغداد مذاکرات میں اہم کردار تھا۔ رائن کروکر کے مطابق انہوں نے جنرل سلیمانی کے اثر و رسوخ کو افغانستان میں بھی محسوس کیا تھا، جب وہ بطور امریکی سفیر افغانستان میں تعینات تھے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جس جگہ ہم پالیسی بناتے تھے، وہاں قاسم سلیمانی ہمارے لیے بڑی رکاوٹ بنتے تھے۔ بس اسی نتیجے میں انہیں شہید کر دیا گیا ہے۔ مگر ان کی شہادت کے بعد بھی امریکہ و اسرائیل کو چین حاصل نہیں ہوا بلکہ ان کی شہادت نے ان کو اس قدر خوفزدہ کر دیا ہے کہ اب وہ سوشل میڈیا پر ان کی کوئی تصویر شیر نہیں کرنے دیتے۔

اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ امریکہ کے لیے سردار قاسم سلیمانی سے زیادہ شہید قاسم سلیمانی خطرناک ثابت ہوا ہے۔ وہ قاسم سلیمانی جسے پہلے کوئی جانتا تک نہیں تھا، اب دنیا بھر کے شعراء کے اشعار، خطباء کی تقاریر، مصوروں کی تصاویر، علماء کی کتابیں، تجزیہ نگاروں کے تجزیئے، کالم نگاروں کے کالمز، مصنفین کے مقالے اور تحریروں کا موضوع بن گیا ہے۔ اب قاسم سلیمانی کے بارے میں منبروں سے خطبے جاری ہوتے ہیں، محرابوں سے تکبیروں کی صدا آتی ہیں، میڈیا پر اشاعتیں ہوتی ہیں، اسمبلیوں میں قراردادیں پاس ہوتی ہے، مائیں تربیت کرتیں ہیں، اساتیذ تہذیب نفس اور مجاہدین استقامت کا درس دیتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو عالم اسلام کی یہ بیداری، شیعہ سنی کی وحدت، اپنے ملک کے دفاع کیلئے دہشت گردوں کے خلاف متحد ہو جانا، دہشت گردی کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم، امریکہ و استعمار کا نوکر بننے کو توہین سمجھنا، المختصر ہوشیاری اور بصیرت کے ساتھ قومی وقار اسلام وحدت اور باہمی بھائی چارے کو فروغ دینے کا نام قاسم سلیمانی ہے۔
خبر کا کوڈ : 844597
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش