0
Saturday 15 Feb 2020 14:42

پاک ترک تعلقات، نیا منظر نامہ

پاک ترک تعلقات، نیا منظر نامہ
تحریر: سید ثاقب اکبر

ویسے تو پاکستان کے ترکی کے ساتھ تعلقات ہمیشہ ہی برادرانہ رہے ہیں، مختلف علاقائی اور ملکی معاہدوں میں دونوں ملک شریک رہے ہیں۔ ان روابط کی جڑیں تاریخ کی گہرائی میں موجود ہیں، لیکن یوں معلوم ہوتا ہے جیسے اب پاک ترک تعلقات کے بلندی کی طرف بڑھنے کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ ڈان نیوز نے اپنی ایک رپورٹ میں 14 فروری 2020ء کو ختم ہونے والے ترک صدر اردغان کے پاکستان کے دو روزہ دورے کے بارے میں لکھا ہے: "انقرہ اور سعودی عرب کے مابین مشرق وسطیٰ میں سیاسی منظر نامے کی وجہ سے کشیدگی، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور آرٹیکل 370 کی منسوخی، اسلامو فوبیا، پاکستان کی معاشی صورتحال اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (اے ایف ٹی ایف) جیسے مسائل کے تناظر میں ترک صدر کا دورہ کئی اعتبار سے اہم سمجھا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں پاک ترک کے مابین تجارتی تعلقات سے متعلق مشترکہ ورکنگ گروپ (جے ڈبلیو جی) کا اجلاس اور اس میں ہونے والے معاہدے خطے میں نئی تبدیلی کے تناظر میں دیکھے جا رہے ہیں۔"

بعض مبصرین کی رائے میں کوالالمپور میں 18 سے 21 دسمبر 2019ء تک ہونے والے سربراہی اجلاس میں پاکستان کی عدم شرکت کے بعد ایسے لگتا ہے جیسے پاکستان اور دیگر ممالک اس کی تلافی کرنے کے درپے ہیں۔ چنانچہ اس سے پہلے پاکستانی وزیراعظم عمران خان فروری 2020ء کے شروع میں ملائیشیاء گئے، جہاں انہوں نے کوالالمپور میں وزیراعظم مہاتیر محمد کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ آئندہ کوالالمپور سربراہی اجلاس میں شرکت کرنا چاہیں گے اور اس سے پاکستان کے دیگر مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات پر اثر نہیں پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں دسمبر 2019ء میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں شرکت نہ کرنے پر افسوس ہے۔ مشترکہ پریس کانفرنس میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میں کانفرنس میں اس لیے نہیں آ پایا کہ بدقسمتی سے پاکستان کے بہت قریب ہمارے کچھ دوستوں کو یہ محسوس ہوا کہ شاید یہ کانفرنس امت کو تقسیم کر دے گی، جو واضح طور پر ایک غلط فہمی تھی، کیونکہ کانفرنس کے انعقاد سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا مقصد امہ کی تقسیم نہیں تھا۔

یاد رہے کہ اس سمٹ میں پاکستان کی غیر موجودگی پر بات کرتے ہوئے ترکی کے صدر رجب طیب اردغان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے ہم نے دیکھا ہے کہ سعودی عرب پاکستان پر دبائو ڈالتا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے کردار پر بات کرتے ہوئے صدر طیب اردغان نے یہ بھی کہا کہ یہ ان ممالک کی عادت ہے کہ یہ دوسرے ممالک پر بعض اقدامات کرنے یا نہ کرنے کے لیے دبائو ڈالتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں سعودی سفارتخانے اور پاکستانی وزارت خارجہ کے ایک بیان میں کسی قسم کے دبائو کی نفی کی گئی تھی، تاہم وزیراعظم عمران خان کا مذکورہ بالا بیان حقیقت کو آشکار کرنے کے لیے کافی ہونا چاہیئے۔ ترک صدر اردغان کے حالیہ دو روزہ دورے کے بہت سے اہم پہلو ہیں، جو اس دورے کی غیر معمولی اہمیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ وہ پاکستان کی پارلیمینٹ سے سب سے زیادہ چار مرتبہ خطاب کرنے والے پہلے غیر ملکی سربراہ مملکت بن چکے ہیں۔ اس سے قبل وہ دو بار بطور وزیراعظم اور ایک بار بطور صدر پاکستان کی پارلیمان سے خطاب کرچکے ہیں۔

پاکستانی پارلیمان سے صدر اردغان کے خطاب میں بہت سے اہم نکات موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ترکی میں بغاوت کو ناکام بنانے میں پاکستان کی حمایت کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے جنگ آزادی کے بعد دوسری جنگ نجات میں پاکستان نے ہمارا ساتھ دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف بھی جنگ میں ترکی کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ پاکستان نے ترک سکولوں کا نظام ہمارے حوالے کرکے حقیقی دوست ہونے کا ثبوت دیا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر ہمارے لیے وہی حیثیت رکھتا ہے، جو پاکستان کے لیے۔ کشمیر کے بارے میں ان کے اس بیان کو عالمی سطح پر بے نظیر اور بے مثال قرار دیا جا رہا ہے۔ ان کا یہ جملہ تو ہمیشہ یاد رہے گا کہ پاکستان اور ترکی کی دوستی مفاد پر نہیں بلکہ عشق و محبت پر مبنی ہے۔ طیب اردغان نے پاک ترک بزنس اینڈ انویسٹمنٹ فورم سے بھی خطاب کیا۔ اس خطاب میں انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمارے درمیان 80 کروڑ ڈالر کی تجارت ہو رہی ہے، جو ہمارے لیے قابل قبول نہیں۔ ہماری مشترکہ آبادی تیس کروڑ سے زائد ہے، لہٰذا ہمیں تجارت کو اس مقام تک لے جانے کی ضرورت ہے کہ جس کے ہم مستحق ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم تجارتی حجم کو ایک ارب ڈالر تک لے جانے کے بعد اسے پانچ ارب ڈالر تک توسیع دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور ترکی کے درمیان دفاع اور عسکری تربیت کے شعبوں میں تعاون گہری دوستی کا عکاس ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کی تقریب بھی منعقد ہوئی۔ ٹی وی، ریڈیو، سیاحت، ثقافت، خوراک، تجارت میں سہولت کاری، پوسٹل سروسز، ریلوے اور عسکری تربیت سمیت دیگر شعبوں میں مفاہمت کی یادداشتوں پر متعلقہ وزارتوں کے وزراء نے دستخط کیے۔ دیگر باتوں کے علاوہ اس دورے کے دوران میں صدر طیب اردغان کی اس بات کو عالمی سطح پر بہت اہمیت دی جا رہی ہے کہ وہ پاکستان کی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) میں بھرپور حمایت کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف کے اجلاسوں میں پاکستان پر سیاسی دبائو ڈالا جا رہا ہے۔

ان تمام باتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاک ترک تعلقات کا یہ نیا منظر نامہ ہے، یہ روایتی تعلقات کا اظہار نہیں ہے بلکہ نئے اور بلند ہوتے ہوئے تعلقات کا تناظر ہے، اگرچہ ماضی میں اس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ تاہم یہ کہے بغیر چارا نہیں کہ ترکی ابھی تک ناٹو کا حصہ ہے اور ناٹو کا حصہ رہتے ہوئے امریکا اور دیگر مغربی قوتوں کے اپنے مفادات کے تقاضے بھی ہیں۔ صدر اردغان نے اگرچہ پاکستان میں بھی واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ امریکا کے فلسطین کے بارے میں نام نہاد امن منصوبے کو مسترد کرتے ہیں۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی تک اسرائیل کے ساتھ ترکی کے سفارتی تعلقات قائم ہیں۔ شام کے محاذ پر بھی ترکی کو مسائل کا سامنا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کا رویہ آہستہ آہستہ ان کے ساتھیوں اور ان کی کھل کر تائید نہ کرنے والوں کے مابین حد فاصل کھینچتا چلا جا رہا ہے۔ ایسے میں ترکی، پاکستان اور ایسے دیگر ممالک کب تک اور کہاں تک بچ بچا کر آگے بڑھتے ہیں، یا بڑھ سکتے ہیں، اس کا فیصلہ بہت جلد ہونے والا ہے۔
خبر کا کوڈ : 844737
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش