12
Monday 17 Feb 2020 00:38

لبنان کی نئی عبوری حکومت کیخلاف سازش تیار 

لبنان کی نئی عبوری حکومت کیخلاف سازش تیار 
تحریر: محمد سلمان مہدی

لبنان میں نئی عبوری حکومت کا قیام عمل میں آچکا۔ 11 فروری کو وزیراعظم حسن دیاب کی مرکزی کابینہ نے پارلیمنٹ میں اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا۔ بعض ذرائع ابلاغ نے اسکی کوریج تو کی، مگر ساتھ ہی منفی تاثر بھی دینے کی کوشش بھی کی۔  یہ تو بیان کیا گیا کہ محض 63 اراکین پارلیمنٹ نے نئی حکومت پر اعتماد کے اظہار کے لئے اس کے حق میں ووٹ دیا۔  یقیناً 128 اراکین پر مشتمل لبنان کی پارلیمنٹ میں یہ تعداد کم ہی لگتی ہے، مگر مکمل سچ یہ ہے کہ اس نئی حکومت کے خلاف ووٹ دینے والوں کی تعداد محض 20 تھی، جبکہ ایک رکن میشال ضاھر نے ووٹ دینے سے گریز کیا، مگر اس کا تعلق بھی حکومت کے حق میں ووٹ دینے والوں کے سیاسی بلاک سے ہی تھا۔

نئے وزیراعظم حسن دیاب کسی سیاسی وابستگی کی بجائے ٹیکنوکریٹ ہونے کے ناطے اس عہدے کے لئے نامزد کئے گئے تھے۔ شعبے کے لحاظ سے وہ ماہر تعلیم ہیں۔ سابق وزیراعظم نجیب میقاتی ہی کے دور حکومت میں وہ وزیر تعلیم کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ طویل عرصے سے امریکن یونیورسٹی آف بیروت میں معلم و انتظامی عہدوں پر خدمات انجام دیتے آئے ہیں۔ گو کہ وہ خود سنی عرب ہیں اور ان کا دور دور تک لبنان کی شیعہ جماعتوں حزب اللہ یا حرکت امل سے کوئی تعلق نہیں رہا، مگر سعودی عرب اور امریکا کے زیر اثر ذرائع ابلاغ نے حسن دیاب کو حزب اللہ کے کھاتے میں ڈالنے کی پوری کوشش کی ہے۔

البتہ حزب اللہ کے پارلیمانی بلاک کے سربراہ محمد رعد نے پارلیمنٹ سے خطاب کے دوران واضح کر دیا تھا کہ حسن دیاب کی حکومت یا کابینہ حزب اللہ کے سیاسی کیمپ کی نمائندگی نہیں کرتی۔ حزب اللہ کے پارلیمانی بلاک نے نئی حکومت کو اعتماد کا ووٹ ضرور دیا ہے، مگر ساتھ ہی حکومت کے پیش کردہ طویل پالیسی بیان پر تنقید بھی کی۔ ان کا کہنا ہے کہ لبنان کو بیان سے زیادہ عمل کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کا اعتماد جیتنے کے لئے مالی بدعنوانی کے خلاف سنجیدہ عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ حزب اللہ، حرکت امل اور مارونی مسیحیوں کی فری پیٹریاٹک موومنٹ اور پارلیمانی بلاک مضبوط لبنان نے حکومت پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

دوسری جانب سابق وزیراعظم سعد حریری اور ان کے اتحادیوں نے حکومت کی مخالفت کی ہے۔ وہ سمیر جعجع اور ولید جنبلاط کو ساتھ ملاکر متحدہ حزب اختلاف کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے اور ان کے اتحادیوں کے بیانات سے لگتا ہے کہ وہ لبنان کو ماضی جیسے کشیدہ سیاسی ماحول میں لوٹانے کے ایجنڈا پر کام کر رہے ہیں۔ ان کے بیانات سے لگتا ہے کہ سعد حریری اب سنی کارڈ بھی کھیلنا چاہتے ہیں۔ لیکن اب وہ یہ کارڈ کس کے خلاف کھیلیں گے!؟ بظاہر جس ایک سیاستدان کو انہوں نے ہدف قرار دیا ہے، وہ مارونی مسیحی جبران باسل ہیں۔ جبران، لبنان کے صدر میشال عون کے داماد بھی ہیں تو ان کی جماعت کے سربراہ بھی ہیں۔ لبنان کے موجودہ ریاستی سیاسی سیٹ اپ میں میشال عون کی صدارت کو بھی حزب اللہ کی حمایت حاصل ہے جبکہ سعد حریری کا اتحاد مارونی مسیحی سمیر جعجع اور ان کی جماعت القوات اللبنانیہ سے ہے۔

سعد حریری نے جبران باسل پر الزام لگایا کہ انہیں بیک وقت دو لبنانی صدور سے معاملات طے کرنا پڑتے تھے۔ ایک تو صدر میشال عون جبکہ دوسرے جبران باسل تھے، جو شیڈو صدر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ یہ الزام سعد حریری نے عائد کیا ہے۔  لبنان کی سیاست میں اس نوعیت کے الزامات اور جوابی الزامات پاکستان کی طرح معمول کی بات ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سعد حریری سنی کارڈ کیوں کر استعمال کر پائیں گے، جبکہ وزیراعظم تو ہے ہی سنی عرب۔ سعد حریری یہ بھی چاہتے ہیں کہ چار ماہ سے سڑکوں پر جمع لبنانی بھی ان کے ساتھ حکومت کے خلاف اتحاد میں شامل ہو جائیں، جبکہ مظاہرین خود بھی منقسم ہیں۔ جمعہ 14 فروری کو مرکزی بیروت میں سڑکوں پر جمع احتجاجی عوام اور سعد حریری کی المستقبل جماعت کے مابین تصادم کے متعدد واقعات بھی ہوچکے ہیں، یعنی مظاہرین سعد حریری کی جماعت کے بھی مخالف ہیں۔

علاقائی اور عالمی سطح پر امریکی بلاک کے رکن و اتحادی حکمران لبنان کے حوالے سے سنگل پوائنٹ ایجنڈا رکھتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے دبے الفاظ میں یا اپنے بااعتماد ذرائع ابلاغ میں بیٹھے بااعتماد خواص کے توسط سے پرانی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ مثال کے طور پر متحدہ عرب امارات کے دی نیشنل میں شائع ایک خبر کا عنوان یہ ہے: Arab official rules out aid for Lebanon under Hezbollah's sway اسی طرح سعودی روزنامہ عرب نیوز میں حکمران آل سعود کے قریبی عبدالرحمان آل رشید کے مقالے کا عنوان: Lebanon’s prime minister: Is he a puppet?۔ یہ تحریریں لبنان کے خلاف نفسیاتی جنگ کا حصہ ہیں اور ہدف ایک ہی ہے کہ لبنان کی نئی حکومت کو حزب اللہ کے خلاف استعمال کرنے کے لئے دباؤ ڈالا جائے۔

جیسا کہ سعد حریری نے حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کی امداد سے صرف ایک جماعت کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے، پورے لبنان کا نہیں۔ اس پورے سیاسی منظر نامے میں جو چیز ثبوت کے ساتھ موجود ہے، وہ یہ ہے کہ حریری خاندان سعودی عرب کی شہریت رکھتا ہے۔ تو کہنے والے اگر عبدالرحمان آل رشید سے یہ کہیں کہ سعد حریری سعودی عرب کا کٹھ پتلی ہے تو ایسا کہنے کی ٹھوس وجہ بھی ہے، جبکہ حسن دیاب کی اعلیٰ تعلیم برطانیہ کی اور نوکری امریکن یونیورسٹی آف بیروت کی رہی ہے۔ دور دور تک اس کا حزب اللہ، حسن نصر اللہ یا ایران سے تعلق نظر نہیں آتا۔ اتنا ضرور ہے کہ لبنان میں حکومت کے نہ ہونے کا فائدہ لبنان کے دشمنوں کو ہی تھا، اسی لئے لبنان کے مفاد میں حزب اللہ، التیار الوطنی الحر وغیرہ نے حسن دیاب کے نام پر اتفاق کر لیا۔

موجودہ صورتحال میں کہ جب یوروبونڈ کی مد میں لبنان کو ایک بلین اور بیس کروڑ ڈالر مارچ میں ادا کرنے کی باتیں کی جا رہیں ہیں، اقتصادی بحران اپنے عروج پر ہے، خود لبنان کی اپنی قومی ایئرلائن مسافروں سے لبنانی کرنسی میں ٹکٹ کی قیمت وصول کرنے سے انکار کر رہی ہے، تو بیانات کی توپوں کا رخ نئی حکومت یا اس کو اعتماد کا ووٹ دینے والوں پر کرنا کسی طور لبنان کے مفاد میں نہیں ہے، بلکہ یہ بیانات لبنان کے دشمنوں کے مفاد میں ہے۔ دوسری بات یہ کہ ایسے منفی و غیر منطقی الزامات یا بیانات سے لبنان کی ایک بھی مشکل حل نہیں ہوسکتی، الٹا مشکلات میں اضافہ ہی ہوگا۔

لبنان کے حکومت مخالف بلاک کے بیانات میں امریکا پر تنقید کیوں شامل نہیں جبکہ نام نہاد ڈیل آف دی سینچری کی وجہ سے لبنان کی سمندری حدود پر بھی اسرائیل کا قبضہ تسلیم کیا جا رہا ہے۔ جنوبی لبنان کا میس الجبل علاقہ بھی تو لبنان کا ہی حصہ ہے، جہاں 12 فروری کو اسرائیلی ڈرون طیارہ پرواز کر رہا تھا تو سمیر جعجع یا سعد حریری وغیرہ لبنان کے دشمن اسرائیل کی اس دراندازی اور لبنانی حدود کی خلاف ورزیوں پر کیوں خاموش رہتے ہیں!؟  کیا سعودی عرب کی شہریت خطرے میں پڑسکتی ہے، اس لئے!؟  لبنان کی موجودہ ٹیکنوکریٹ حکومت بھی اگر قابل قبول نہیں تو پھر اور کونسا سیٹ اپ درکار ہے۔

لگتا یہی ہے کہ امریکی بلاک لبنان میں ایسے کسی سیٹ اپ سے راضی نہیں ہوگا کہ جو اسرائیل کو دشمن قرار دیتا ہو۔ چونکہ اسرائیل کے مقابلے پر حزب اللہ ایک موثر مزاحمتی تحریک ہے، اس لئے امریکی بلاک ہر لبنانی حکومت سے یہی ایک مطالبہ رکھے گا کہ حزب اللہ کے خلاف کارروائی کرے۔ چونکہ عرب عوام اسرائیل کی حمایت کرنے والوں کو مسترد کرتے ہیں، اسی لئے امریکی بلاک کے حمایت یافتہ لبنانی سیاسی گروہ اسرائیل کی کھل کر حمایت بھی نہیں کرسکتے۔ اب اگر سنی کارڈ استعمال کرتے ہیں تو لبنان سمیت پورے عالم عرب اور عالم اسلام کو امریکی سعودی بلاک سے پوچھنا چاہیئے کہ شیخ احمد یاسین، عبد العزیز رانتیسی، یاسر عرفات سمیت سنی عرب حماس و فلسطینی جہاد اسلامی کے قائدین کا قاتل کون ہے!؟ عالم اسلام و عرب کو پوچھنا چاہیئے کہ افغانستان میں مسلمانوں کا قتل عام کس نے کیا!؟

سبھی کو معلوم ہے کہ نہ صرف فلسطینی قائدین بلکہ لبنان کے عماد مغنیہ و رفیق حریری دونوں کا قاتل بھی اسرائیل ہے۔ پھر بھی یہ سعد حریری جانتے بوجھتے انجان بننے کی ایکٹنگ کر رہے ہیں۔ سعودی یا فرانسیسی آسرے پر بھی لبنان کے مسائل حل نہیں ہوسکیں گے، چہ جائیکہ امریکا۔ مفتی اعظم فلسطین شیخ عبداللطیف دریان نے بھی فیصلہ سنا دیا ہے کہ حسن دیاب پورے کے پورے لبنان کی حکومت کے وزیراعظم ہیں۔ انہوں نے حکومت کی کامیابی کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔ سازشیں تو تیار ہیں، مگر انکو ناکام بنانے کے لئے لبنان کو ایسے ہی جذبے کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 844968
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش