QR CodeQR Code

توقیر کھرل، ”گمنامی سے دلوں کی حکمرانی تک"

17 Feb 2020 11:35

اسلام ٹائمز: ”گمنامی سے دلوں کی حکمرانی تک“ کا پہلا ایڈیشن شائع کرتے وقت، وقت کم مقابلہ سخت کی سی صورتحال کا سامنا تھا۔ اس لئے اس میں ترتیب و پروف ریڈنگ کے لحاظ سے بعض خامیاں بھی رہیں۔ جلد ہی اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن درست ترتیب و تنظیم اور اضافے کیساتھ شائع ہونا چاہیئے اور اس نئے ایڈیشن میں شھید ابو مھدی مھندس اور دیگر شہدائے بغداد کا پروفائل بھی شامل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اصل بات یہ ہے کہ توقیر کھرل نے اس اہم نیک کام میں پہل کرکے جو کارنامہ انجام دیا ہے، اسکی بنیاد پر میں یہ اعتراف کرتا ہوں کہ اس نے مجھے مات دی ہے۔ وہ جیت گیا ہے۔ میں ہار گیا ہوں۔ لیکن میں اس جوان نظریاتی صحافی کی جیت کو بھی اپنی جیت ہی سمجھتا ہوں اور یہی نہیں بلکہ اس نے اس واجب کفائی کو انجام دیکر ہمیں بھی گناہگار ہونے سے بچا لیا ہے۔


تحریر: محمد سلمان مہدی

اگر اس وقت مادر وطن پاکستان کے غیرت مند فرزندوں کی ٹرینڈنگ ہو تو آنکھیں بند کرکے کہا جاسکتا ہے کہ نظریاتی صحافت کے لحاظ سے ٹاپ ٹرینڈ # توقیر کھرل ہے۔  اس جواں سال صحافی کا جذبہ قابل تحسین ہے۔ اس نے ایک ہی وار میں ہم جیسوں کا کام تمام کر دیا ہے۔  و اسرع الیک فی البارزین کے متمنی انسانوں کی صفوں میں اس جوان کو مستجاب الدعوۃ کہوں تو بھی حق ہے۔ ہم ایسے جوانوں کی شکل میں اپنا ماضی دیکھتے ہیں، جبکہ ان جوانوں کو بھی معلوم ہونا چاہیئے کہ ہمارے آج اور آنے والے کل کا انحصار انہی پر ہے۔ تاریخ ہر دور کے نوجوانوں پر یہ بھاری بوجھ ڈالتی ہے۔  ہر شعبے کے جوان کو اسی جذبے سے سرشار ہونا چاہیئے۔

یقیناً بہت سے لوگ تاحال ناواقف ہوں گے کہ اس ایک جوان کا قصیدہ کیوں لکھا جا رہا ہے۔ جو نہیں جانتے وہ جان لیں کہ عالم انسانیت، عالم اسلام و عرب کے سورما بیٹے جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد اردو فہم دنیا شہید کی مقروض تھی۔ اس قرض کی ادائیگی پورے برصغیر سمیت دنیا بھر کے اردو بلد افراد کی ذمے داری تھی۔ یہ قرض تھا کہ اپنے معاشروں میں اس عظیم شہید کی شخصیت سے متعلق حقائق کی نشر کریں، جبکہ ہمارے معاشرے کی بدقسمتی اور المیہ یہی ہے کہ خواص کی اکثریت ایسے مواقع پر۔۔۔۔
ارادے باندھتا ہوں، سوچتا ہوں، توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے


لیکن ایسے مواقع پر متذبذب افراد کے پیدا کردہ جمود کو توڑنے والا ہی معاشرے کا ہیرو قرار پاتا ہے۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ پاکستان کے غیرت مند بیٹوں نے اس میں کوتاہی کی ہو۔ کہنہ مشق صحافیوں، دانشوروں اور اہم شخصیات نے بھی رائے دی تھی۔ عوام کا ایک وسیع حلقہ حاج قاسم سلیمانی سے متعلق حقائق جاننا چاہتا تھا  اور ادھر ادھر شائع ہونے والی مختصر تحریں ان کی اس خواہش کی تکمیل نہیں کرسکتیں تھیں۔ جنرل قاسم سلیمانی کا زندگی نامہ، ان کے ملکی و بین الاقوامی سطح کے کارنامے، یہ سبھی کچھ ہر ایک کے سامنے آشکارا نہیں تھے۔ ان سارے پہلوؤں کو اور دیگر کی کاوشوں کو یکجا کرکے کتابی شکل میں پیش کرنے میں جس نے سبقت حاصل کی، وہ جواں سال صحافی توقیر کھرل ہے۔

اس نے ارادہ کیا، سوچا۔ اسکے ذہن میں بھی کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے کا نعرہ کاہلانہ و بزدلانہ گونجا۔ مگر اس نے اپنے دوست و احباب کے سامنے یہ ارادہ ظاہر کیا تو بہت سوں نے اس کی تائید کی، بلکہ مفید مشورے بھی دیئے اور اس کتاب کے لئے معاونت بھی فراہم کی۔ یہ سبھی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ توقیر کھرل سمیت اس سن کے سارے جوانوں کے لئے مجھ حقیر کا پیغام یہ ہے کہ وہ اس نظم کو یاد رکھیں، میں چھوٹا سا اک لڑکا ہوں، پر کام کروں گا بڑے بڑے! یہ کھلا میدان ہے۔ یہاں کم عمر کارناموں سے بڑا ہو جاتا ہے جبکہ کاہلانہ تذبذب بڑے بڑوں کو بہت چھوٹا کر دیتا ہے۔ اجرکم علی اللہ۔ لومۃ لائم۔

البتہ ”گمنامی سے دلوں کی حکمرانی تک“  کا پہلا ایڈیشن شائع کرتے وقت، وقت کم مقابلہ سخت کی سی صورتحال کا سامنا تھا۔ اس لئے اس میں ترتیب و پروف ریڈنگ کے لحاظ سے بعض خامیاں بھی رہیں۔ جلد ہی اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن درست ترتیب و تنظیم اور اضافے کے ساتھ شائع ہونا چاہیئے اور اس نئے ایڈیشن میں شھید ابو مھدی مھندس اور دیگر شہدائے بغداد کا پروفائل بھی شامل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اصل بات یہ ہے کہ توقیر کھرل نے اس اہم نیک کام میں پہل کرکے جو کارنامہ انجام دیا ہے، اس کی بنیاد پر میں یہ اعتراف کرتا ہوں کہ اس نے مجھے مات دی ہے۔ وہ جیت گیا ہے۔ میں ہار گیا ہوں۔ لیکن میں اس جوان نظریاتی صحافی کی جیت کو بھی اپنی جیت ہی سمجھتا ہوں اور یہی نہیں بلکہ اس نے اس واجب کفائی کو انجام دے کر ہمیں بھی گناہگار ہونے سے بچا لیا ہے۔

یہ بھی شہید حاج قاسم سلیمانی کے مقدس لہو کا معجزہ ہے۔ پاکستان کے ایک نسبتاً کم عمر اور کم معروف فرزند کو اس کام کے لئے چنا۔ بڑے بڑے انقلابی حتیٰ کہ خود ”اہل زباں“ سوچتے رہ گئے۔ انقلابی اردو ادب کو اس اہم کام کے لئے پنجابی کڑا مل گیا۔ یہی پاکستان کا حسن ہے۔ یہ راہ خالص و مخلص انسانوں کی راہ ہے۔ حق تو یہ ہے کہ ایسے ہی سرفروش اس کام کا بیڑہ اٹھائیں۔ پاکستان کو ہر شعبے میں ایسے افراد کی ضرورت ہے، جو توقیر کھرل کی طرح بروقت فیصلہ کریں اور عملی اقدامات کے ذریعے ایسے اہم نیک کاموں کو پایہ تکمیل تک بھی پہنچائیں۔ توقیر کھرل ایک زندہ مثال ہے۔ جس نے شہید کی یاد کو اس طرح زندہ کرنے کی سعادت حاصل کی ہے اور یہ اہل بیت (ع) کے کریمانہ سخی مکتب کی سخاوت ہے کہ کتاب شہید قاسم سلیمانی پر لکھی گئی ہے، مگر یہ مولف کو بھی گمنامی سے دلوں کی حکمرانی کا سفر طے کروانے کا سبب بن رہی ہے۔

کہنے کو یہ کتاب جنرل قاسم سلیمانی سے متعلق ہے اور یہ حقیقت بھی ہے۔ مگر،  اس کے مولف نے بھی خود کو مکتب سلیمانی کا ایک پیروکار ثابت کیا ہے۔ حاج قاسم سلیمانی کے مرشد عالمی سیاست کے بت شکن آیت اللہ العظمیٰ سید روح اللہ المعروف امام خمینی نے مسلمان جوانوں کو یہ خود اعتمادی ہدیہ کی تھی: "ما می توانیم" جی ہاں، ہم کرسکتے ہیں اور توقیر نے اس قول ک توقیر رکھی۔ اس ایک نے پاکستان کے جوانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے ثابت کیا کہ "ما می توانیم!" اس جواں سال صحافی کی اس محنت نے ایک صحافی کو اتنا متاثر کیا کہ اس نے اعزازی کتاب لینے پر خریدنے کو ترجیح دی۔ جس جذبے سے یہ کتاب لکھی گئی، ویسا ہی جذبہ اس کتاب کو پڑھنے والوں کا بھی ہونا چاہیئے۔ دعاگو ہوں اللہ تعالیٰ توقیر کھرل کو اپنی راہ میں ہمیشہ خالص و مخلص رکھے اور اس عبادت کو قبول فرمائے۔


خبر کا کوڈ: 845055

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/845055/توقیر-کھرل-گمنامی-سے-دلوں-کی-حکمرانی-تک

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org