اداریہ
افغانستان میں ایک طرف امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات آخری مرحلے میں ہیں تو دوسری طرف ستمبر 2019ء میں ہونے والے صدارتی انتخابات کا سرکاری اعلان بھی کر دیا گیا ہے۔ پانچ ماہ کی تاخیر کے بعد اعلان کیے جانے والے نتائج کے مطابق اشرف غنی 50.64 فیصد ووٹ لیکر ایک بار پھر افغان صدارت کے منصب پر فائز ہو گئے ہیں۔ افغان الیکشن کمیشن کے سربراہ جواد عالم نورستانی کے مطابق حتمی اور آخری نتائج کے مطابق اشرف غنی کے مخالف امیدوار عبداللہ عبداللہ کو 39.52 ووٹ ملے ہیں۔ عبداللہ عبداللہ نے حسب توقع نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ جائز مطالبات پورے ہونے تک ناقص انتخابی عمل کے نتائج تسلیم نہیں کریں گے۔ ادھر عبداللہ عبداللہ کے اتحادی سیاستدان اور سابق نائب صدر جنرل عبدالرشید دوستم نے دھمکی دی ہے کہ عبداللہ عبداللہ کی سربراہی میں متوازی حکومت تشکیل دی جائیگی۔
عبداللہ عبداللہ کی طرف سے مخالفت اور عبدالرشید دوستم کیطرف سے متوازی حکومت کا اعلان، جنگ زدہ ملک افغانستان کو ایک نئے بحران میں مبتلا کردیگا۔ افغانستان اسی کے عشرے سے جنگ و جدل اور اندرونی و بیرانی حملوں اور سازشوں کا شکار ہے۔ سویت یونین کی جارحیت کے بعد جب سے امریکہ افغان مسائل میں داخل ہوا اور اس نے مختلف ممالک کی فورسز کے جھنڈے تلے افغانستان میں اپنی سازشوں کا جال بچھایا ہے، افغانستان ایک قدم بھی سیاسی و سلامتی کے استحکام کیطرف نہ بڑھ سکا۔ امریکہ اور انکے اتحادی جمہوریت کی بحالی اور دہشت گردی کے خاتمے، نیز منشیات کے سب سے بڑے مرکز سے ہیروین کی سپلائی کو روکنے کے لیے افغانستان میں آئے تھے، لیکن امریکہ اور برطانیہ کی سازشیں یہ رنگ لائی ہیں کہ دھاندلی زدہ انتخابات سے جمہوریت کا جنازہ نکل چکا ہے۔ سیکورٹی کی صورتحال ابتر ہے۔
جبکہ منشیات کی پیداوار میں پہلے سے کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ منشیات کے علاقے برطانیہ کا اثرورسوخ ہے، لہٰذا بوڑھا سامراج اپنے ہاتھ کی صفائی دکھا رہا ہے۔ جبکہ حکومتی اور فوجی اداروں پر امریکہ کا کنٹرول ہے۔ جس کا آخری نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ امریکہ اپنا تھوکا ہوا جاٹنے پر مجبور ہے اور طالبان گروپ کیساتھ بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے اپنے مذموم اہداف حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ افغان عوام کو اس بات کو درک کر لینا چاہیے کہ نہ امریکہ، نہ برطانیہ اور نہ ہی کوئی دوسرا ملک ان کو بحرانوں سے نکال سکتا ہے۔ افغانستان کی عوامی اور محب وطن قیادت آگے بڑھ کر سب سے پہلے بیرونی طاقتوں کو اپنے ملک سے نکال باہر کرے اور اپنی تقدیر کے فیصلے اپنے ہاتھ میں لے لے ورنہ آئندہ پچاس برسوں میں بھی یہی کچھ ہوگا، جو اب ہو رہا ہے۔