QR CodeQR Code

امریکی مداخلت، مسئلہ افغانستان کی جڑ

20 Feb 2020 16:46

اسلام ٹائمز: افغانستان میں ایک سیاسی بحران سر اٹھا چکا ہے۔ ایک طرف مسلح مزاحمت یا بغاوت کا سلسلہ ہے اور دوسری طرف افغانستان کے جمہوری عمل میں شریک دیگر اہم نمائندہ قائدین کی ناراضگی ہے۔ مطلب یہ کہ یک نہ شد دو شد!! افغانستان سمیت پورے خطے میں امریکا اپنی بالادستی کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اسکا ہدف یہ ہے کہ اسکی ڈکٹیشن پر عمل کرنیوالی حکومتیں قائم ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان سمیت پورا خطہ امریکا نے خود ہی ڈسٹرب کر رکھا ہے۔ افغانستان سمیت اس پورے خطے کا مسئلہ تب تک حل نہیں ہوسکے گا، جب تک کہ امریکی مداخلت اور فوجی اڈے یہاں موجود ہیں۔


تحریر: محمد سلمان مہدی

امریکا کی مداخلت کی وجہ سے جو ممالک مصائب و مشکلات کا شکار رہے، ان میں برادر پڑوسی ملک افغانستان سرفہرست ہے۔ چالیس برسوں سے یہ ملک مشکل میں مبتلا ہے۔ امن یہاں کے عوام کا دیرینہ خواب ہے، جو تاحال شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔ دسمبر 1979ء میں سوویت یونین کا بہانہ تھا۔ 2001ء میں نائن الیون حملوں کو جواز بنا کر امریکا نے افغانستان پر جنگ مسلط کر دی۔ امریکا نے نائن الیون کے حملوں کے سہولت کاروں کو سزا دینے کے لئے افغانستان پر جنگ کی تھی۔ تب سے اب تک ہزاروں افغانی شہید کئے جاچکے۔ روزانہ کی بنیادوں پر خبریں جاری کی جاتیں رہیں کہ فوجی کارروائی کے نتیجے میں جنگجو انتہاء پسند ہلاک ہوئے۔ مگر نہیں معلوم کہ جنگجوؤں کی کتنی تعداد ہے کہ جو اب تک زندہ سلامت ہیں۔ نہ صرف زندہ ہیں بلکہ اتنے طاقتور ہیں کہ افغانستان کی سکیورٹی فورسز اور عوام کو بھی نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ سال 2001ء سے امریکا اور اس کے اتحادی کسی نہ کسی بہانے یا عنوان سے یہاں موجود ہیں۔ فوجی اڈے بنا کر بیٹھ گئے ہیں۔ جانے کا نام ہی نہیں لیتے۔ امریکی افواج، نیٹو افواج یا ایساف کی فورسز کی موجودگی کے ہوتے ہوئے بھی افغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکا ہے۔

اگر امریکا چاہتا تو القاعدہ کے ساتھ ساتھ طالبان کا صفایا بھی کر دیتا مگر اس نے طالبان کے لئے الگ پالیسی وضع کی تھی۔ نہ تو طالبان ختم ہوئے، نہ ہی مفاہمت ہوسکی۔ نہ ہی تعمیر نو یا نیشن بلڈنگ!! جو کچھ ہوا، وہ یہ کہ افغان امن و مفاہمت کے لئے کی جانے والی ہر کوشش ناکام ہوئی۔ وقتی طور پر بظاہر افغان ریاست کے اسٹیک ہولڈرز ہاتھ ملا لیتے ہیں، گلے بھی ملتے ہیں، مگر بعد میں ایک دوسرے کے گلے پڑ جاتے ہیں۔ اسلام آباد میں تعینات سی آئی اے کے سابق اسٹیشن چیف رابرٹ گرینیئر نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی یادداشتوں پر مشتمل خود نوشت بعنوان ”(88 Days to Kandahar)“ میں نائن الیون کے بعد امریکا کی افغان جنگ کی روداد بھی بیان کی ہے۔ ان کے بیان کردہ موقف کی روشنی میں آج بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ امریکا افغانستان کے معاملات میں کس حد تک مداخلت کرتا رہا ہے۔ طالبان و امریکا تعلقات کی نوعیت بھی اس کتاب کو پڑھ کر سمجھی جاسکتی ہے، یعنی امریکی مداخلت، امریکی کردار ہی افغانستان کی مشکلات کی جڑ ہے۔

ایک اور مرتبہ امریکا نے افغان نژاد امریکی زلمے خلیل زاد کو افغانستان کے معاملات نمٹانے کے لئے مسؤل مقرر کر دیا۔ خلیل زاد پاکستان، افغانستان اور قطر آتے جاتے رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ افغان طالبان سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ طالبان کا بیان آتا ہے کہ امریکا سے مکمل فوجی انخلاء کا مطالبہ کیا ہے۔ یہاں پھر یہ سوال تاحال جواب طلب ہے کہ افغان طالبان سے کیا مراد ہے اور پاکستان ان پر کس حد تک اثر انداز ہے۔ ملا عمر کی 1990ء کے عشرے والی طالبان کو پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات تسلیم کیا کرتے تھے۔ اب جو طالبان ہے، اسکا دفتر کبھی ترکی میں کھولا جاتا ہے تو کبھی قطر میں۔ ماضی قریب میں سعودی و اماراتی حکام بھی طالبان نمائندوں سے ملاقاتیں کرچکے ہیں۔ اب اگر یہی طالبان ہیں تو پھر امن و مفاہمت میں کیا رکاوٹ رہ جاتی ہے!؟ کیونکہ ترکی نیٹو کا رکن ملک ہے جبکہ قطر، سعودی و اماراتی حکومتیں بھی امریکا کی دوست اور اتحادی ہیں۔ پاکستان بھی طول تاریخ میں اسی بلاک کا حصہ رہتا آیا ہے۔ نائن الیون کے بعد تعاون کے بدلے میں امریکا نے پاکستان کو غیر نیٹو اتحادی کا درجہ دیا تھا۔

بسا اوقات یہ خبریں گردش کرتی رہیں ہیں کہ طالبان کے مختلف دھڑے ہیں اور وہ مختلف ممالک کے زیر اثر ہیں۔ اثر انداز ممالک میں روس، چین اور ایران کے نام بھی آتے رہے ہیں۔ البتہ طالبان کے جن سیاسی نمائندوں نے چین، ایران اور روس کے دورے کئے ہیں، وہ تو وہی طالبان ہیں، جن کے دفاتر کبھی ترکی اور کبھی قطر میں ہوتے ہیں۔ یہ تو وہی طالبان ہیں کہ جن سے زلمے خلیل زاد بھی مذاکرات کرتے ہیں۔ جب سبھی سے مذاکرات یہی کر رہے ہیں تو وہ طالبان جنہوں نے الگ فرینچائز کھول رکھی ہے، وہ کہاں ہیں!؟ پاکستان میں بھی اس ضمن میں بہت سے مفروضے ہمہ وقت تیار ملتے ہیں۔ موجودہ صورتحال یہ سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ افغانستان میں امن کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ خود امریکا ہے۔ امریکی حکومت نہ صرف افغانستان بلکہ اس پورے خطے میں اپنی اجارہ داری چاہتی ہے۔ افغانستان کے حوالے سے سوال کا جواب اعلیٰ حکومتی عہدیدار دے چکے ہیں۔ یہ نکات ہم ماضی میں لکھ چکے ہیں۔

وہ پاکستان کا کاندھا استعمال کرکے افغانستان میں روس، ایران اور چین کے کردار کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ امریکی عہدیداروں نے امریکا کے قانون ساز اداروں کو بریفنگ کے دوران سرکاری پالیسی سے آگاہ کیا تھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ زلمے خلیل زاد نے افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی۔ انہوں نے بتایا کہ امریکا نے طالبان سے ایک ہفتے کے لئے جنگ بندی کا محدود و مشروط معاہدہ کیا۔ افغان صدر نے ان کو بتایا کہ وہ افغانستان کے مختلف مقامی رہنماؤں سے ملاقاتیں کرچکے ہیں۔ ان ملاقاتوں کا مقصد افغان امن عمل سے متعلق ان کا فیڈ بیک لینا تھا۔ پاکستان میں اشرف غنی کو بھارتی لابی کا فرد قرار دیا جاتا رہا ہے۔ یہی الزام سابق صدر حامد کرزئی پر لگایا گیا۔ لیکن سی آئی اے کے سابق اسٹیشن چیف کے مطابق حامد کرزئی کو پاکستان سے مسلح کرکے امریکا نے افغانستان بھجوایا تھا۔ ایک طرف تو امن کے لئے مفاہمتی عمل ہے، جس میں مسلح گروہوں کی جانب سے قبولیت لازمی ہے۔ دوسری طرف سیاسی مفاہمت ایک اور پہلو ہے۔ یہاں سیاسی اسٹیک ہولڈرز کی قبولیت لازمی ہے۔

تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ عبداللہ عبداللہ نے اشرف غنی کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کے اعلان کو مسترد کر دیا ہے۔ سابق چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ تاجک افغانی ہیں۔ یعنی صدارتی الیکشن کے نتائج جو پونے پانچ ماہ بعد نشر کئے گئے، انہیں دیگر فریق مسترد کر رہے ہیں۔ صدر اشرف غنی کے ساتھ نائب صدر رہنے والے ازبک افغانی جنرل عبدالرشید دوستم نے بھی عبداللہ عبداللہ کے موقف کی حمایت کر دی ہے۔ انہوں نے اپنے حامیوں کو احتجاج کی کال دی ہے۔ اب معاملہ صرف افغان طالبان اور صدر اشرف غنی کی حکومت تک محدود نہیں رہا، بلکہ خود اشرف غنی کی صدارت خطرے میں ہے۔ طالبان سے پہلے تو انہیں سیاسی اسٹیک ہولڈرز سے مفاہمت کرکے شراکت اقتدار کا نیا فارمولا طے کرنا ہوگا۔ یعنی افغانستان میں ایک سیاسی بحران سر اٹھا چکا ہے۔ ایک طرف مسلح مزاحمت یا بغاوت کا سلسلہ ہے اور دوسری طرف افغانستان کے جمہوری عمل میں شریک دیگر اہم نمائندہ قائدین کی ناراضگی ہے۔ مطلب یہ کہ یک نہ شد دو شد!! افغانستان سمیت پورے خطے میں امریکا اپنی بالادستی کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس کا ہدف یہ ہے کہ اس کی ڈکٹیشن پر عمل کرنے والی حکومتیں قائم ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان سمیت پورا خطہ امریکا نے خود ہی ڈسٹرب کر رکھا ہے۔ افغانستان سمیت اس پورے خطے کا مسئلہ تب تک حل نہیں ہوسکے گا، جب تک کہ امریکی مداخلت اور فوجی اڈے یہاں موجود ہیں۔


خبر کا کوڈ: 845718

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/845718/امریکی-مداخلت-مسئلہ-افغانستان-کی-جڑ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org