0
Saturday 22 Feb 2020 01:31

FATF، دہشتگردی اور عالمی دبائو

FATF، دہشتگردی اور عالمی دبائو
تحریر: ارشاد حسین ناصر

چند دن پہلے ایک ٹیلی ویژن کے لائیو پروگرام میں ایک شیعہ خاتون وکیل کی طرف سے سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا کے حق فدک غصب کرنے کے بارے میں تاریخی شخصیات کی طرف سے انصاف کے قتل اور حق نہ دینے کے بارے میں بیان کے بعد پاکستان کے مختلف گوش و کنار بالخصوص سوشل میڈیا پر طرح طرح کی باتیں سامنے آئیں، جن میں بعض جذباتی انداز میں، بعض مناظرانہ انداز میں، بعض توہین آمیز انداز میں اور بہت سوں کی طرف سے گالم گلوچ کے انداز سے اپنے اپنے خیالات اور عقائد کا اظہار کر رہے تھے۔ ایک دفعہ پھر یہ محسوس ہوا کہ شائد یہ ملک میں فرقہ واریت کے فروغ اور قتل و غارتگری کا سبب بن سکتا ہے اس کے بعد کوئٹہ میں ایک کالعدم فرقہ پرست گروہ کی ایک ریلی میں ہونے والے خودکش دھماکے کے بعد بھی ایسے نعرے سننے کو ملے کہ جس سے یہ تاثر ملا کہ شائد اس دھماکے کی ذمہ داری اہل تشیع پر ڈال دی جائے گی، مگر سکیورٹی فورسز اور ملکی سلامتی کے ضامن اداروں کو بڑی اچھی طرح معلوم ہے کہ اور کچھ ہو نہ ہو، اہل تشیع پاکستان میں کسی خودکش دھماکے کے ذمہ دار کبھی بھی نہیں رہے، انکا ریکارڈ اس حوالے سے بالکل واضح ہے۔

لہذا سپیکر میں اہل تشیع کا نام لیکر پیغام پاکستان نامی فتوے کی دھجیاں اڑانے والے اس ریلی کے ذمہ داروں نے اپنا پورا زور لگایا، مگر انہیں ناکامی ہی ملی اور لوگوں کو بھی یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ اہل تشیع ایک پرامن قوم اور ملت ہیں، جو پاکستان کو اس طرح کی دہشت گردانہ کاروائیوں سے کمزور نہیں کرنا چاہتے۔ اگرچہ حکمرانوں کو ایسے کالعدم گروہوں کو اعلانیہ اہل تشیع کی تکفیر اور ریلیز نکالنے کی اجازت دینا خود ایک سوالیہ نشان ہے۔ ہمارے خیال میں اگر حکمران اور ادارے اس ملک کو ترقی اور پیش رفت کی راہ پہ دیکھنے کے خواہش مند ہیں تو ایسے گروہوں کو ایسے ہی لگام دینا ہوگی، جیسے آپ نے اس ملک میں لشکر طیبہ کو دی ہے، جیسے اس کے نام بدل کر جماعت الدعوہ کو دی ہے، جیسے فلاح انسانیت فائونڈیشن کو دی ہے، یہ لوگ بھی تو آخر ایک قوت رکھتے ہیں اور انکا بھی حلقہء اثر ہے، پھر عالمی دبائو پر ان کو ہمارے اداروں نے کیسے کنٹرول کیا ہے اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کو یقین دلایا ہے کہ وہ ایسے عناصر اور تنظیموں کو ملک میں کسی بھی قسم کی سرگرمی کی اجازت نہیں دیتے۔

اس کے باوجود حالیہ اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نہیں نکالا گیا ہے اور چار مہینے تک ایک بار پھر انتظار کروایا جائے گا اور کچھ دیگر پوائنٹس اور نکات پہ کارکردگی دکھانا ہوگی، ایک طرف فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا پریشر ہے، دوسری طرف ہمارے ملک کی بقا و سلامتی کا تقاضا ہے، فرقہ وارانہ عناصر کی حوصلہ شکنی اور انہیں پابند سلاسل کرنا، انہیں کھل کھیلنے کی اجازت نہ دینا، انہیں وطن کی سلامتی سے کھیلنے کی اجازت نہ دینا ملک کی خدمت اور اس کے بنانے کا ہدف اور قیام کا تقاضا ہے، جس پر پوری تند ہی اور خلوص کیساتھ عمل درآمد کرنا واجبات میں سے ہے اور ہمارے حکمران اس واجب کو نہ صرف ترک کرتے آئے ہیں بلکہ اس کی مخالف سمت چلا جاتا ہے، جو کہ اس ملک اور یہاں کی بائیس کروڑ عوام کیساتھ ظلم کے مترادف ہے۔

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ایک استعماری حربہ ہے، جو کمزور بالخصوص اقتصادی طور پہ کمزور ممالک کے خلاف اقتصادی پابندیاں لگاتا ہے اور عالمی استعمار کو رپورٹ کرتا ہے کہ فلاں مملکت اور اس کے فلاں ادارے دہشت گردی اور اس میں ملوث غیر ریاستی عناصر کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں یا ان کے خلاف جو اقدامات اٹھانے ضروری ہیں، نہیں اٹھا رہے۔ اس بہانے سے حکومتوں کو بلیک میل کیا جاتا ہے، پاکستان جو اقتصادی طور پہ کمزور مملکت ہے اور یہاں پر عرصہ سے حکومتی سطح پہ کرپٹ عناصر اقتدار کے مزے لوٹتے آرہے ہیں، ایسے نام نہاد اداروں اور فورمز کا جلد اور بآسانی نشانہ بنا جاتا ہے، یہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس آخر ہندوستان کے خلاف کیوں اقدامات نہیں اٹھاتی، جہاں ہندو توا کا فلسفہ رائج کیا جا رہا ہے اور متعصبانہ قوانین بنائے جا رہے ہیں۔

ایک کثیر المذہبی مملکت کو ایک مخصوص مذہب کی ریاست بنا دیا گیا ہے اور ہندو کے علاوہ دوسرے تمام مذاہب کا جینا دوبھر کر دیا گیا ہے اور سب سے بڑھ کے سرکاری سطح پر ایسی تنظیموں اور غنڈا گرد گروہوں کو ابھارا جا رہا ہے، جو دہشت گردی، تشدد اور فرقہ واریت کے پھیلائو کے ذریعے ہزاروں بے گناہوں کو قتل کرچکے ہیں، اب بھی ایسے عناصر سے اس ملک کے کروڑوں انسانوں کی جانوں کو خطرات لاحق ہیں اور تو چھوڑیں صرف کشمیر میں اتنا طویل کرفیو لگایا گیا ہے، جس سے انسانی المیہ جنم لے چکا ہے، اہل کشمیر ظلم کی جس چکی میں پس رہے ہیں، ان کا درد کوئی نہیں جانتا نہ کوئی اس درد کو محسوس کرتا ہے، مگر ہندوستان کو کوئی ادارہ، کوئی عالمی فورم یا فورس دبائو میں لانے کا سوچ بھی نہیں سکتا، آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ یہی سوچنے کی بات ہے۔

ہمارے موجودہ حکمران بالخصوص وزیراعظم اقتدار سے پہلے اپنے جن خیالات کا اظہار کیا کرتے تھے اور جس عزم کا اظہار کیا جاتا تھا، اس پر عمل درآمد کر لیتے تو پاکستان کی عزت و وقار واقعی بحال ہو جاتا، مگر ہم نے اقتدار ملنے کے بعد روایتی سیاستدانوں کی طرح عالمی اقتصادی اداروں کی من مانی مرضیاں اختیار کیں اور ان کے بھیجے گئے بندوں کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور دے دی، اس کے باوجود ملک پر منحوس سائے روز بروز گہرے ہوتے جا رہے ہیں اور ہم ترقی و پیش رفت کی بجائے اقتصادی بدحالی کے گڑھے میں گرتے جا رہے ہیں اور عوام پر بھاری ٹیکسز اور یوٹیلیٹی بلز اور روز مرہ کی اشیائے خورد و نوش کی پہنچ مشکل بنا دی گئی ہے، جس سے دو سال سے پہلے ہی موجودہ حکمرانوں سے عوامی اعتماد اٹھتا دیکھا جا سکتا ہے۔ ایسے میں اگر عالمی سازش گر اپنے ایجنٹوں کے ذریعے فرقہ واریت اور دہشت گردی کے جن کو بوتل سے باہر نکال دیں تو خدا ںخواستہ ایک بار پھر ہمارے پیارے پاکستان کے گلی کوچے اور مسد و مندر اور عبادت خانے بے گناہوں کے خون سے سرخ دکھائی دینگے۔ خدا نہ کرے ایسا ہو، مگر بھوک اور ننگ انسان سے اس کا دین و مذہب سب کچھ چھین لیتی ہے، بھوکے کا کوئی دین یا مذہب نہیں ہوتا۔

ہمیں اس دن سے ڈرنا چاہیئے، جب اس ملک کے بھوکے عوام اکٹھے ہو جائیں اور عالمی اداروں اور استعماری حکمرانوں جن کی کرپشن سے اس ملک میں بھوک کا ننگا ناچ ہوتا ہے، کے گریبان پکڑ لیں اور انہیں دریا برد کر دیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اقتدار کی کرسی سے چمٹے ہوئے ہمارے حکمرانوں اور کارپردازوں کو چاہیئے کہ اس ملک کو اقتصادی لحاظ سے آزاد کروا کر، اس مملکت کے تمام ستون اپنے اپنے دائرے میں اپنا اپنا کام کریں، کوئی کسی کے کام میں مداخلت نہ کرے اور سب مل کر یکجان ہو کر اس پاک وطن کی سلامتی، استحکام اور اس کی حمیت و استقلال اور استقامت کو بحال کریں، تاکہ کوئی عالمی ادارہ اور فورس استعماری مقاصد کیلئے ہم پہ اپنے فیصلے نہ ٹھونس سکے، اگر ہم اقتصادی لحاظ سے آزاد ہوگئے تو کوئی بھی ملک چاہے وہ دوست کی شکل میں ہو یا مخالف کے روپ میں، ہم پر اپنا رعب نہیں جما سکے گا، ہم اپنی خارجہ پالیسی میں کسی اور ملک کے مفادات کا نہیں سوچیں گے بلکہ ہماری پہلی ترجیح ہمارا اپنا پیارا ملک ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 846015
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش