0
Saturday 22 Feb 2020 17:43

فلسطین کی آزادی حتمی ہے

فلسطین کی آزادی حتمی ہے
تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی


مسئلہ فلسطین کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ایک سو سالہ تاریخ میں فلسطین کے باہمت عوام نے صہیونیوں کی ریشہ دوانیوں کا ہمیشہ مقابلہ کیا ہے اور اپنی استقامت و مزاحمت سے مسئلہ فلسطین کو نابود ہونے سے بچایا ہے۔ فلسطینیوں کی مزاحمت ہی ہے کہ جس کا آغاز پتھروں سے شروع ہوا اور آج کے زمانے میں فلسطینی مزاحمت غاصب صہیونیوں کے مقابلے میں میزائل اور ڈرون حملوں کو کامیابی سے انجام دے رہے ہیں۔ اسرائیل جس کے لئے برطانوی استعمار نے 1917ء میں بالفور اعلامیہ کے تحت فلسطین کی زمین پر قبضہ جمانے کی سازش تیار کی تھی اور 1948ء میں فلسطین کی ارض مقدس پر صہیونیوں کے لئے جعلی ریاست بعنوان اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ فلسطینی عوام نے اسرائیل کے قیام سے قبل کی جانے والی تمام تر صہیونیوں کی کوششوں کے مقابلہ میں مزاحمت کی، سینہ سپر رہے اور عالمی فورم پر ہونے والی ہر قسم کی ناانصافی پر نہ صرف احتجاج کیا بلکہ پوری دنیا میں اس کے خلاف آواز بلند کی۔

مسئلہ فلسطین سنہ67ء اور پھر سنہ73ء کی عرب اسرائیل جنگوں کے بعد نابودی کا شکار ہونا شروع ہوچکا تھا۔ مصر جو اس زمانے میں عرب اسرائیل جنگ میں عرب دنیا کی قیادت کر رہا تھا اور فلسطینیوں کے لئے ایک ڈھارس بنا ہوا تھا، کیمپ ڈیوڈ معاہدے میں شامل ہونے کے بعد فلسطین کی حمایت سے رفتہ رفتہ دور ہوتا چلا گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب ایک طرف اردن میں فلسطینیوں کے لئے مشکلات تھیں تو دوسری طرف مقبوضہ فلسطین میں صہیونیوں کی آباد کاری بھی تیزی سے بڑھ رہی تھی، غاصب اسرائیل اپنے دیرنہ مقصد یعنی گریٹر اسرائیل (عظیم تر اسرائیل) کے خواب کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف تھا اور اسرائیل کے صہیونی یہ چاہتے تھے کہ صہیونیوں کی اس جعلی ریاست اسرائیل کی سرحدوں کی وسعت نیل کے ساحل سے فرات تک کھینچ دی جائے۔

یہ ایک ایسے زمانے کی شروعات تھی کہ عرب دنیا میں اور خاص طور پر فلسطینی عربوں میں مصر کی جانب سے کیمپ ڈیوڈ معاہدے میں شمولیت کی وجہ سے مایوسی کے بادل چھا گئے تھے۔ ایسے حالات میں فلسطین کی آزادی کی ایک اور کرن ایران میں اسلامی انقلاب کی صورت میں نمودار ہوئی اور اس انقلاب کے بانی حضرت آیت اللہ امام خمینی ؒ نے فلسطین کے لئے بھرپور حمایت کا اعلان کیا، ایران میں اسرائیل کے سفارت خانہ کو فلسطینی سفارت خانہ میں بدلنے کے ساتھ ساتھ فلسطینی عوام کی ہر سطح پر مدد کرنے کا اعلان کیا اور عملی طور پر اس مدد کو انجام دیا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب فلسطینی عوام کی مزاحمت کمزور ہوچکی تھی اور اسرائیل طاقت کے نشے میں مست ایک بدمست ہاتھی کی طرح علاقے کے ممالک میں دراندازی کر رہا تھا اور اپنے عظیم تر اسرائیل کے منصوبہ کو تکمیل کے خواب کی کوششوں میں مصروف عمل تھا۔ ان حالات میں فلسطین میں اسلامی مزاحمت نے از سر نو جدوجہد کا آغاز کر دیا۔

لبنان میں اسلامی مزاحمت نے اسرائیل کے خلاف اپنی کارروائیوں کا آغاز کر دیا، شام نے فلسطین کی حمایت میں کھڑے ہو کر صہیونیوں کو بہت بڑا جھٹکا پہنچایا۔ ان حالات کے نتیجہ میں اسرائیل لبنان سے فرار ہونے پر مجبور ہوا، فلسطین میں حماس اور لبنان میں حزب اللہ کے وجود نے امریکہ اور اسرائیل کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ حالات اس ڈگر پر آن پہنچے ہیں کہ آج غرب ایشیائی ممالک میں امریکہ اور اسرائیل کی پہلی جیسی قوت باقی نہیں رہی ہے۔ آج فلسطینی مزاحمت کاروں نے اسرائیل کو اس قدر کمزور کر دیا ہے کہ اسرائیل چند گھنٹوں سے زیادہ فلسطینی مزاحمت کا سامنا کرنے کے قابل نہیں رہا ہے، حزب اللہ لبنان نے اسرائیل کو اس قدر گھٹنوں پر ٹیکا دیا ہے کہ حزب اللہ جب اور جہاں چاہتی ہے، مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی قابض افواج پر نشانہ وار حملہ کرتی ہے اور اسرائیل اس قابل نہیں کہ اپنا دفاع بھی کر سکے۔

آج فلسطینی عوام کی جدوجہد پہلے سے کئی گنا تیز ہوچکی ہے، یہ فلسطینیوں کی ایک سو سالہ جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا میں عالمی شیطانی قوتوں کو فلسطینیوں کے سامنے شکست کا سامنا ہے۔ امریکی صدر نے فلسطین سے متعلق صدی کی ڈیل کا اعلان کیا ہے، تاہم فلسطینیوں نے صدی کی ڈیل کو اپنی مزاحمت سے ناکام بنا دیا ہے۔ آج امریکی حکومت اسرائیل کی غاصب حکومت کے ساتھ مل کر فلسطینیوں پر اپنے فیصلے تھونپنا چاہتی ہے، لیکن فلسطینیوں کی مزاحمت کے باعث امریکہ اور اسرائیل کو ناکامی کا سامنا ہے۔ امریکی حکام اس قدر بوکھلاہٹ کا شکار ہیں کہ دوسرے ممالک میں دوسرے ملکوں کو فوجی افسران پر حملے کرکے انہیں قتل کر رہے ہیں، جس کی تازہ مثال حال ہی میں امریکی صدر کے احکامات پر بغداد میں جنرل قاسم سلیمانی اور ابو مہدی کو شہید کیا گیا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ امریکی و صہیونی سازشوں کے مقابلہ میں اسلامی مزاحمت کی تحریکوں کا مرکز و محور فلسطین ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے جاری جدوجہد ایک نئے مرحلہ میں داخل ہوچکی ہے اور اس عنوان سے خود صہیونی تجزیہ نگاروں نے بھی اس بات کی پیشن گوئی کی ہے کہ اسرائیل عنقریب دنیا کے نقشہ سے محو ہو جائے گا اور فلسطین کی آزادی حتمی ہے۔ اسرائیل میں ایک نامور مورخ اور پروفیسر بنی موریس نے کہا ہے کہ بین الاقوامی پابندیوں اور مقبوضہ فلسطین کے رہنے والے فلسطینیوں کے حوصلوں میں روزانہ اضافہ ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ دوسری طرف فلسطینیوں نے اپنے حق واپسی کی صدا بلند کر رکھی ہے، جس کو دنیا کی کوئی طاقت بھی نظر انداز نہیں کرسکتی، کیونکہ فلسطینیوں کو دنیا کا کوئی بھی قانون اپنے وطن فلسطین واپس آنے سے نہیں روک سکتا۔

اسی طرح امریکی صدر کے منصوبہ صدی کی ڈیل پر بھی فلسطینی مجبور نہیں ہو رہے کہ وہ امریکی صدر کے فیصلوں کو تسلیم نہیں کر رہے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سرزمین فلسطین دھیرے دھیرے خود بخود ان کے قبضہ میں واپس چلی جائے گی۔ صرف انہیں ایک دو نسلوں تک صبر کرنے کی ضرورت ہے، یہاں تک کہ صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل نابود ہو جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ فلسطین کی آزادی حتمی ہے اور اسرائیل کا زوال شروع ہوچکا ہے، جو عنقریب اسرائیل کی نابودی اور دنیا کے نقشہ سے محو ہونے کے ساتھ اختتام پذیر ہوگا اور یقیناً خداوند کریم کا فیصلہ مظلوموں کی حمایت میں ہی ہے کہ مظلوموں کی حکومت قائم ہو کر رہے گی۔
خبر کا کوڈ : 846175
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش