0
Saturday 22 Feb 2020 12:07

مادری زبان کی اہمیت و افادیت اور حکومتی اقدامات!!

مادری زبان کی اہمیت و افادیت اور حکومتی اقدامات!!
تحریر: مطیع اللہ کاکڑ

گذشتہ روز یعنی اکیس فروری کو بلوچستان سمیت ملک بھر اور پوری دنیا میں مادری زبانوں کا عالمی دن منایا گیا، اس دن کے منانے کی کیا اہمیت ہے اور اس کی ضرورت کیونکر پیش آئی؟ اس سوال کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔ قیام پاکستان کے بعد جب اردو کو قومی زبان قرار دیا گیا تو اس پر مشرقی پاکستان میں اکثریتی زبان (بنگلہ) بولنے والوں نے احتجاج کا سلسلہ شروع کیا اور اردو کے ساتھ ساتھ بنگالی کو بھی قومی زبان کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا۔ 21 فروری 1951ء وہ دن ہے، جب پولیس نے احتجاجی طلبہ پر گولی چلائی، بعد میں 1956ء میں بنگالی کو اردو کے ساتھ قومی زبان کا درجہ تو دے دیا گیا، لیکن طلبہ کے موثر احتجاج نے دنیا کو ایک اہم مسئلے کی طرف متوجہ کرلیا۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے نومبر 1999ء میں یہ فیصلہ کیا کہ 21 فروری کو مادری زبانوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جائے، تاکہ وہ زبانیں جو معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں، ان کے تحفظ کے لئے کام کیا جاسکے اور حکومتوں کو زبانوں کی اہمیت او ر افادیت سے آگاہ کیا جاسکے۔

2000ء کے بعد ہر سال اکیس فروری کو مادری زبانوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے، گذشتہ روز اکیس فروری تھی اور دنیا بھر میں مادری زبانوں کا عالمی دن منایا گیا۔ اس دن کی مناسبت سے مختلف سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کی طرف سے مادری زبانوں سے متعلق پروگرامز منعقد ہوئے، جس میں مختلف زبانوں کے ادیبوں، شعراء اور سیاسی رہنمائوں نے زبانوں کی تاریخ، قوموں کی ثقافت، ادب پر روشنی ڈالی اور کہا کہ کسی قوم کی ثقافت، تاریخ، فن اور ادب اس کی مادری زبان کے مرہون منت ہے۔ مادری زبان کسی بھی شخص کی وہ زبان ہوتی ہے، جو اسے اپنے گھر اور خاندان سے ورثے میں ملتی ہے۔ تاہم اگر یہ کہا جائے کہ ایک زبان کے فنا ہونے سے ایک قوم کی پہنچان، ثقافت، ادب ہمیشہ کیلئے ختم ہو جاتا ہے، تاہم دنیا میں بولی جانے والی تمام زبانوں کی حفاظت اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے کہ انہیں متروک ہونے سے بچائے۔

بات اگر ہمارے صوبے کی کریں تو یہاں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں اور ہر وہ بچہ جس کی مادری زبان کوئی اور ہے، نصاب کی زبان کچھ اور، اسے تعلیم کے ابتدائی مراحل میں ہی ایک بحرانی کیفیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اس کا جیتا جاگتا ثبوت گورنمنٹ پرائمری سکول (سالوآرمبی) کا نو سالہ طالب علم شوکت ہے، جسے اجنبی زبانوں سے شناسائی حاصل نہیں اور اس کی وجہ سے اس کی تعلیمی کیفیت خراب ہوتی جا رہی ہے۔ شوکت کا کہنا ہے کہ  انہیں سکول میں پڑھائے جانے والے مضامین سمجھ نہیں آتے، تاہم جب استاد انہیں ان کی مادری زبان (پشتو) میں شامل سبق سمجھاتے ہیں، تب وہ اس سبق پر عبور حاصل کر پاتا ہے، جبکہ گھر میں اس کا بڑا بھائی اسے سبق یاد کرانے میں مدد کرتا ہے۔ جو زبان اس نے کبھی سنی نہ ہو، اس کو سمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ البتہ ماں سے یا گھر میں سنے ہوئے الفاظ (سبق کی شکل میں) اگر ان کے سامنے ایک بار ہی دہرائے جائیں تو وہ بہت آسانی سے نہ صرف سمجھ سکتا ہے، بلکہ یاد بھی کیا جا سکتا ہے۔

رکن بلوچستان اسمبلی نصراللہ زیرے نے مادری زبانوں کو ہائی سکولز میں بطور لازمی مضمون پڑھانے کا مطالبہ کیا ہے اور کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کی طرف سے 21 فروری کو ہر سال مادری زبانوں کی مناسبت سے عالمی دن منایا جاتا ہے۔ بنگالی طالب علموں نے اپنی زبان کیلئے احتجاج کیا تھا، جس کے دوران فائرنگ سے بہت سے طالب علم شہید ہوئے، جس کے بعد 21 فروری مادری زبانوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جانے لگا۔ وہ کہتے ہیں کہ جن اقوام نے ترقی کی ہے، وہ اپنی مادری زبانوں کے بدولت ترقی کی سیڑھیاں چڑھ گئے۔ جاپان کی مثال ہمارے سامنے ہے، جس نے کمپیوٹر ایجاد کیا، کیونکہ ان سمیت یورپ، روس، جرمنی نے اپنی مادری زبانوں میں تعلیم حاصل کی ہے۔ پشتو کی معلوم تاریخ چار ہزار سال سے بھی قدیم ہے، لیکن نصراللہ زیرئے کے بقول پشتو کے خلاف اب سازشیں کی جا رہی ہیں۔ پشتو زبان نہ تو دفتری، عدالتی اور نہ ہی سرکاری زبان ہے، سابقہ حکومت جس میں پشتونخوامیپ، مسلم لیگ (ن) اور نیشنل پارٹی کی اتحادی حکومت تھی، جس نے ایک قانون پاس کیا، جس میں مادری زبانوں کو پرائمری سطح پر لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جائے گا، بلکہ آج بھی ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ مادری زبانوں کو پرائمری کی بجائے میٹرک کی سطح تک لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جائے۔

جن خدشات کا اظہار نصراللہ زیرئے نے کیا، انہی خدشات کا اظہار بلوچی، براہوئی، ہزارگی اور فارسی سمیت بلوچستان میں بولی جانے والی دیگر زبانوں کے حوالے سے بھی ہوتا آیا ہے، کیونکہ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، ابھی اکیسویں صدی کے دوران بھی دنیا سے متعدد زبانیں معدوم ہوئی ہیں اور بھی سینکڑوں زبانوں کے معدوم ہونے کے خدشات ہیں۔ اس حوالے سے جامعہ بلوچستان کے شعبہ پشتو کے پروفیسر ڈاکٹر برکت شاہ کاکڑ کہتے ہیں کہ زبان کے ختم ہونے سے صرف ایک زبان ختم نہیں ہوتی بلکہ اس کے ساتھ ایک قوم کی ثقافت، ادب اور پہچان بھی ہمیشہ کیلئے فنا ہو جاتی ہے۔ بلوچستان میں پچھلے دور حکومت میں مادری زبانوں کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھانے کا قانون پاس ہوگیا، لیکن موجودہ حکومت میں اس پر کام کو روک دیا گیا ہے۔ قانون موجود ہے، لیکن اس پر عمل کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مادری زبانوں کو ایک مسئلے کے طور پر اٹھائیں۔ یہ ہر بچے کا بنیادی انسانی حق ہے کہ اس کو اس کی مادری زبان میں تعلیم دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہر قوم اور ہر گروہ اپنی ہی زبان میں تہذیب اور اعلیٰ انسانی اقدار کی جانب مراحل طے کرتا ہے۔ قومی زبان کے ساتھ ساتھ ملک کی تاریخی اور قدیم زبانوں اور ثقافتوں کو اپنانے سے نہ صرف شناخت کے بحران کو کم کیا جا سکتا ہے، بلکہ ہم آہنگی اور رواداری کے روئیوں اور اقدار کو بھی بخوبی پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔
بلوچستان میں اس وقت جو زبانیں بولی جاتی ہیں، ان میں تخلیقات بھی ہو رہی ہیں اور ادب کے تمام اصناف میں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کام بھی کر رہے ہیں۔ پشتو  زبان کے ادیب و شاعر سید خیر محمد عارف کہتے ہیں کہ مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنا ہر بچے کا بنیادی حق ہے، دنیا میں پائی جانے والی زبانیں ایک خوبصورت گلدستہ کی مانند ہیں۔ جس میں تہذیب، ثقافت اور تاریخ ہوتی ہے، بلکہ یہ بات واضح ہے کہ دنیا کی ترقی یافتہ قوموں نے مادری زبانوں میں تعلیم کے ذریعے ترقی کی ہے۔

پچھلے دور حکومت میں مادری زبانوں کو بطور لازمی مضمون پرائمری تک پڑھانے کا قانون بن گیا، بلکہ ماہرین تعلیم بھی کہتے ہیں کہ ایک بچہ جب ماں سے مادری زبان میں بات کرتا ہے تو اس کیلئے اس کی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنا انتہائی آسان ہوتا ہے۔ حکومت مادری زبانوں کو تعلیمی اداروں میں رائج کرے، اساتذہ کو مادری زبانوں کو سکولوں میں پڑھانے کیلئے ٹریننگ دی جائے اور کتابوں کو مذکورہ علاقوں تک پہنچایا جائے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ پشتو کو قومی زبان قرار دیا جائے، تاکہ اس مسئلے کو مستقل طور پر حل کیا جائے۔ اس سلسلے میں حکومت بلوچستان کے ترجمان لیاقت شاہوانی سے جب مادری زبانوں کے حوالے سے حکومتی اقدامات سے متعلق پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ حکومت بلوچستان نصاب کی بہتری کی کوشش کر رہی ہے۔ مادری زبانوں سے متعلق آئین میں موجود ہے بلکہ بلوچی، پشتو، برائیوی، سرائیکی و دیگر کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں 7 ہزار زبانیں ہیں اور دنیا کہتی ہے کہ مادری زبانوں میں تعلیم کی فراہمی سے مثبت نتائج برآمد ہونگے۔
خبر کا کوڈ : 846179
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش