QR CodeQR Code

ادلب اور اردگان کا مستقبل

23 Feb 2020 20:52

اسلام ٹائمز: ترکی کے اندرونی اور عالمی سطح پر موجود بعض سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ رجب طیب اردگان کی جانب سے شام کے صوبہ ادلب میں ترک آرمی کو خطرے میں ڈالنے پر مبنی اقدام ان کیلئے اور ان کی سیاسی پارٹی کیلئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے اور عین ممکن ہے کہ اس اقدام کے نتیجے میں ان کی اور ان کی پارٹی کی سیاسی موت واقع ہو جائے۔


تحریر: فاطمہ محمدی

شام کا صوبہ ادلب گذشتہ چند ہفتوں سے شام آرمی، ترکی کی مسلح افواج اور تکفیری دہشت گرد گروہ النصرہ فرنٹ کی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ایک طرف شام آرمی نے اس صوبے کو دہشت گرد عناصر سے آزاد کروانے کیلئے بھرپور فوجی آپریشن شروع کر رکھا ہے تو دوسری طرف ترکی النصرہ فرنٹ سے وابستہ تکفیری دہشت گرد عناصر کو بچانے کیلئے سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہے۔ اسی دوران کئی بار ترکی اور شام کی مسلح افواج کے درمیان ٹکراو بھی پیدا ہوا ہے۔ ترک حکام نے روسی حکام کے ساتھ اس مسئلے پر بات چیت کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان ایک طرف روس کے ساتھ معاہدہ طے کرنا چاہتے ہیں جبکہ دوسری طرف شام کو بھی دھمکیاں دے رہے ہیں اور شام آرمی کی پیشقدمی روکنے کے درپے ہیں۔ حال ہی میں ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے شام اور لیبیا میں ترک فوجیوں کی ہلاکت سے متعلق ایک بیان دیا ہے جس پر ترکی کے اندر ہی میڈیا پر مختلف قسم کا ردعمل سامنے آیا ہے۔ طیب اردگان نے اپنی تقریر کے دوران کہا تھا "لیبیا میں چند عدد شہید ہو گئے ہیں۔" میڈیا پر ان کی جانب سے "چند عدد" کا لفظ استعمال کرنے پر تنقید کی جا رہی ہے۔

ترک صدر کے اس بیان کے بعد سوشل میڈیا اور قومی اخبارات میں ان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ادلب کی دلدل سے باہر نکل آئیں۔ ترکی کی مسلح افواج شام کے مختلف علاقوں میں سرگرم عمل ہیں۔ دریائے فرات کے مشرقی حصے میں ترکی کی آرمی نے "چشمہ امن آپریشن" شروع کر رکھا ہے۔ اسی طرح دریائے فرات کے مغرب، عفرین اور دیگر علاقوں میں "زیتون کی شاخ آپریشن" میں مصروف ہیں۔ شام کے صوبہ ادلب میں بھی ترکی کی مسلح افواج موجود ہیں اور النصرہ فرنٹ کی سرپرستی کر رہی ہیں۔ شام کے شمالی علاقوں میں کرد تنظیم پی کے کے کے خلاف بھی ترکی کی مسلح افواج نے آپریشن شروع کر رکھا ہے۔ مزید برآں، ترکی نے افریقی ملک لیبیا میں بھی اپنے فوجی بھیج رکھے ہیں تاکہ مرکزی حکومت کی فوجی مدد کر سکیں۔ ترکی کی جانب سے اتنے بڑے پیمانے پر فوجی سرگرمیوں کا نتیجہ وسیع پیمانے پر اقتصادی اور سیاسی اخراجات کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ اس کے باوجود ترکی کا حکمفرما سیاسی اتحاد یعنی انصاف و ترقی پارٹی اور قومی موومنٹ پارٹی اپنے اس موقف پر مصر دکھائی دیتا ہے کہ مذکورہ بالا تمام علاقوں میں ترکی کی مسلح افواج کو پوری طاقت سے سرگرم رہنا چاہئے اور بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے۔

ترکی کے اندرونی اور عالمی سطح پر موجود بعض سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ رجب طیب اردگان کی جانب سے شام کے صوبہ ادلب میں ترک آرمی کو خطرے میں ڈالنے پر مبنی اقدام ان کیلئے اور ان کی سیاسی پارٹی کیلئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے اور عین ممکن ہے کہ اس اقدام کے نتیجے میں ان کی اور ان کی پارٹی کی سیاسی موت واقع ہو جائے۔ لیکن دوسری طرف قوم پرست اور کنزرویٹو قوتیں نہ صرف رجب طیب اردگان کی حمایت کر رہی ہیں بلکہ ان سے اس مداخلت کو جاری رکھنے کا بھی مطالبہ کر رہی ہیں۔ عرب دنیا کے معروف تجزیہ کار اور رای الیوم نیوز ویب سائٹ کے چیف ایڈیٹر عبدالباری عطوان اس بارے میں کہتے ہیں کہ شام کے صوبہ ادلب میں ترکی کی فوجی مداخلت سے نہ صرف صدر بشار اسد کے سیاسی مخالفین کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ اس کے انتہائی منفی اور نقصان دہ نتائج برآمد ہوں گے۔ خود ترکی کے اندر بڑی تعداد میں صحافی اور تجزیہ کار ایسے ہیں جو ادلب کو ترکی کی مسلح افواج کیلئے ایک پھندہ اور دلدل تصور کرتے ہیں اور ترک حکام پر زور دے رہے ہیں کہ وہ خود کو اس دلدل سے جلد از جلد نجات دلوائے۔

ان صحافیوں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ پھندہ ترکی اور روس کے درمیان تعلقات کیلئے انتہائی سنگین خطرہ بن کر ظاہر ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں ممکن ہے ترکی دوبارہ امریکہ پر انحصار کرنا شروع کر دے۔ اسی طرح بعض دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ شام کے صوبے ادلب میں ترکی کی فوجی مداخلت کا تسلسل ترک فوجیوں کے جانی نقصان کا باعث بن سکتا ہے جو ایک بیہودہ جنگ میں فوجیوں کا جانی ضیاع تصور کیا جائے گا۔ دوسری طرف ترکی کی بڑی اور اہم سیاسی جماعتوں کے سربراہوں نے بھی اس بارے میں اظہار خیال کیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے حکمران پارٹی پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے اپنے حامی میڈیا ذرائع کے ذریعے ادلب میں ترکی کی فوجی مداخلت کو قومی سلامتی اور ترکی کی بقا سے جوڑنے کی کوشش کی ہے جو سراسر غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترک حکومت اس پراپیگنڈے کے ذریعے اپنی عوام کو ڈرانا چاہتی ہے۔ یاد رہے اس سے پہلے حکمران جماعت نے استنبول کے بلدیاتی الیکشن میں اپنی شکست کو ترکی کی بقا کیلئے خطرناک قرار دیا تھا لیکن اکرم امام اوگلو کی کامیابی کے بعد واضح ہوا کہ یہ حکومتی پراپیگنڈہ سراسر غلط تھا اور اس میں کوئی حقیقت نہیں تھی۔ ادلب میں ترک آرمی کی مداخلت کو ترکی کی بقا سے جوڑنا بھی اسی طرز کا پراپیگنڈہ ہے۔


خبر کا کوڈ: 846297

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/846297/ادلب-اور-اردگان-کا-مستقبل

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org