0
Monday 24 Feb 2020 22:07

یہ معاہدہ ٹوٹ جائیگا

یہ معاہدہ ٹوٹ جائیگا
تحریر: طاہر یاسین طاہر

معاہدہ کرنا انسانی تاریخ کے قدیم تجربات میں سے ایک ہے۔ امن کے لیے معاہدہ، عمومی طور پر اسی مقصد کے لیے فریقین آپس میں معاہدہ کرتے ہیں۔ جوں جوں انسانی نسل نے ترقی کے مدارج طے کیے، معاہدہ کرنے کی شقوں میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ مثلاً دو ممالک کے درمیان تجارتی معاہدہ، ثقافتی معاہدہ، دفاع کے معاملات کا معاہدہ علاقائی تعاون و تجارت کا معاہدہ جو دو سے زائد ممالک کے درمیان بھی ہوسکتا ہے، بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کا معاہدہ جو اقوام متحدہ کے زیر اثر کیا جاتا ہے اور اسی طرح کے کئی ایک معاہدے۔ ان سب معاہدوں میں جو قدر مشترک ہوتی ہے، وہ ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھنا، اس کا حل تلاش کرنا اور باہمی تجارت سے ایک دوسرے کی معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ دشمن کے مقابلے میں مل کر دفاع کرنا شامل ہے۔ انسان امن پسند ہے اور یہی انسان قتل و غارت گری کا بھی ہنر جانتا ہے۔ انسان کی معلوم تاریخ میں ہونے والی جنگوں کی بنیاد مذہب اور رنگ و نسل ہی ہے۔ اس موضوع کو وسیع تناظر میں دیکھا جائے یا تحقیقی انداز میں اس پر لکھا جائے تو دوسرے قبائل، دوسری ریاستوں، ممالک اور خطوں پر طاقتور، وسائل پر قبضہ کرنے کی غرض سے چڑھائی کرتے ہیں اور اس کے لیے جواز بے شمار ہوتے ہیں۔

دہشت گردی کے خلاف جاری حالیہ جنگ جو نائن الیون کے واقعہ کے بعد "عالمگیر سطح" پر شروع ہوئی، ابھی تک جاری ہے۔ اس جنگ کا مرکزی میدان افغانستان ہی ہے، لیکن اس جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی ہونے کے ناتے اور افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقے ہونے کے باعث پاکستان بھی اس جنگ میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے، بلکہ افغانستان کے بعد پاکستان اس جنگ میں دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ پاکستانی فوج، پاکستانی عوام اور سیاسی جماعتوں نے یکجا و یکجان ہو کر دہشت گردی کا مقابلہ کیا اور دہشت گردوں و دہشت گردی کو شکست دی۔ دہشت گردی کے خلاف جاری اس جنگ میں الجھا ہوا پاکستان ابھی تک پوری طرح سنبھل نہیں سکا ہے۔ پاکستان کے پڑوس، یعنی افغانستان میں کوئی چار عشروں سے یہ جنگ افغانوں کے نزدیک جہاد کے نام پر لڑی جا رہی ہے۔ پہلے روس کے خلاف اور پھر امریکہ و نیٹو کے خلاف۔ افغان طالبان کو یہ "عسکری مغالطہ" ہے کہ انۃوں نے امریکہ کو ناکوں چنے چبوا دیئے ہیں۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ امریکہ نے اگر ان کی شرائط پر معاہدہ نہ کیا تو افغان طالبان امریکہ کو بری شکست سے دوچار کریں گے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ جنگوں میں دو طرفہ نقصان ہوتے ہیں۔ اس امر میں کلام نہیں کہ افغانستان میں سینکڑوں امریکی و نیٹو فوجی ہلاک ہوئے۔ لیکن ان سینکڑوں کے مقابلے میں لاکھوں افغان جنگ کا رزق ہوئے اور لاکھوں ہی بے وطن ہوئے ہیں۔

کتنے امریکی آج کسی دوسرے ملک میں "مہاجرین کیمپوں" میں ہیں؟ ایک بھی نہیں، جبکہ لاکھوں افغان، پاکستان سمیت دنیا بھر کے مہاجرین کیمپوں میں تکلیف دہ اور قابل رحم زندگی گزار رہے ہیں۔ دو سطری تجزیہ کار کیا جانیں کہ جنگوں میں سود و زیاں کا حساب جانی و مالی نقصان سے لگایا جاتا ہے۔ جانی نقصان کس کا زیادہ ہوا؟ افغانیوں کا یا امریکیوں کا؟ مالی نقصان کس کا زیادہ ہوا؟ یہ کہنا کہ امریکہ اس جنگ میں اربوں ڈالر خرچ کرکے خسارے میں چلا گیا اور اب معاہدہ کرکے آبرومندانہ رخصتی چاہتا ہے۔ سوائے خود فریبی کے کچھ بھی نہیں۔ افغان جنگ میں اربوں ڈالر خرچ کرنے والا امریکہ اب بھی افغان حکومت کی مدد کر رہا ہے۔ امریکہ نے آج تک کسی ایک بھی مسلمان ملک سے قرض نہیں لیا، اس جنگ کے دوران میں، ہاں البتہ بعض مسلم ممالک کی حفاظت کے لیے امریکہ نے جو دو چار ہزار فوجی دستے بھیجے ہیں، اس کے عوض امریکہ نے ان ممالک سے رقم وصول کی ہے او ریہ ایک قسم کی "عسکری تجارت" ہے۔

میرا موقف شروع سے یہی رہا کہ امریکہ افغانستان کو مکمل فتح کرنے نہیں آیا تھا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اگر امریکہ چاہتا تو دو چار ہفتوں میں ہی افغانستان کو راکھ کا ڈھیر بنا دیتا، امریکہ نہ چاہتا تو ملا عمر سمیت کوئی بھی افغان طالبان رہنما کئی برسوں تک "غائب" نہیں رہ سکتا تھا۔ کیونکہ امریکہ کے پاس جو ٹیکنالوجی ہے، وہ تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ امریکہ کے دنیا بھر کی طرح اس خطے میں بھی مفادات ہیں۔ یہ ہم سب جانتے ہیں اور امریکہ اپنے مفادات کا تحفظ کیسے کرتا ہے؟ یہ اسے خوب آتا ہے۔ اب اگر امریکہ و افغان طالبان کے درمیان کوئی امن معاہدہ ہونے جا رہا ہے تو یہ معاہدہ پہلے تو ہوگا ہی نہیں کہ عین وقت پر کوئی حادثہ رونما ہوسکتا ہے اور اگر فرض کریں یہ معاہدہ ہو بھی گیا تو اس پر دونوں فریقین عمل درآمد نہیں کرسکیں گے اور معاہدہ ٹوٹ جائے گا۔ وجہ بڑی سادہ ہے۔

 امن معاہدہ ہونے کی صورت میں افغان طالبان اور ان کے حمایتی اسے افغان طالبان کی فتح تصور کریں گے۔ جب یہ تصور در آئے گا کہ ہم فاتح ہیں اور دنیا کی سپر پاور کو معاہدہ کرنے پر مجبور کیا تو "فاتحین" اپنے خاص فہم اسلام اور قبائلی عادات کے ہاتھوں مجبور ہو کر کوئی ایسا قدم ضرور اٹھائیں گے، جس سے عدم اعتماد پیدا ہوگا اور افغان معاشرہ ایک بار پھر خانہ جنگی کا شکار ہو جائے گا۔ فرض کرتے ہیں کہ امریکہ اپنی فوجیں نکال بھی لیتا ہے، تب بھی افغان معاشرے کو سیاسی استحکام کے لیے ابھی کم سے کم دو عشرے لازمی درکار ہوں گے۔ کیونکہ ہر گروہ، ہر جتھہ، کابل پر اپنی اجارہ داری کو لازمی سمجھتا ہے۔ یہی قبضہ گیری کی عادت افغان سماج کو بری طرح برباد کر دے گی، یعنی پہلے سے برباد سماج کو مزید لاغر و کمزورکر دیا جائے گا۔

اشرف غنی کے اس بیاں کو ہم کس تناظر میں دیکھیں گے؟ "اگر طالبان نے امن منصوبے کی پاسداری نہیں کی تو جوابی کارروائی کا حق رکھتے ہیں۔" یعنی بداعتمادی پہلے سے موجود ہے۔ اسی طرح قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ "امریکہ سے معاہدے کے نتیجے میں اعتماد سازی کے لیے اقدامات کے علاوہ واشنگٹن، افغانستان سے اپنی افواج نکالے گا اور طالبان یہ یقین دہانی کرائیں گے کہ ان کی سرزمین امریکہ سمیت کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔" کیا ایسا ممکن ہے کہ افغان سرزمین امریکہ سمیت کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہو؟ تاریخی طور پر تو یہ ثابت شدہ ہے کہ برسوں سے افغان سرزمین پاکستان سمیت امریکہ و نیٹو کے خلاف استعمال ہوتی رہی۔ یکایک اس سرزمین کے باسیوں میں تبدیلی کیسے آجائے گی؟ ممکن نہیں۔ یہ معاہدہ ممکن ہے کہ ہونے سے پہلے ہی ٹوٹ جائے اور اگر ہو بھی گیا تو پائیدار اور مثبت نتائج نہیں دے پائے گا۔ ہمیں زمینی حقیقتوں سے صرفِ نظر نہیں کرنا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 846539
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش