0
Wednesday 26 Feb 2020 10:25

بلبلاتے بھارتی مسلمان اور ٹرمپ کی چشم پوشی

بلبلاتے بھارتی مسلمان اور ٹرمپ کی چشم پوشی
تحریر: تصور حسین شہزاد
 
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دورہ انڈیا بے چارے بھارتی مسلمانوں کیلئے  ’’بد شُگن‘‘ ثابت ہوا ہے۔ دو روز میں دلی میں 20 سے 25 افراد جاں بحق جبکہ 300 کے قریب زخمی ہو چکے ہیں۔ مختلف ہسپتالوں میں زیرِ علاج 50 کے قریب زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔ دلی سمیت انڈیا کے دیگر شہر اس وقت بھرپور مظاہروں کی لپیٹ میں ہیں۔ متنازع شہریت بل نے انڈیا کے امن کو داؤ پر لگا رکھا ہے، دوسرے لفظوں میں اگر کہا جائے کہ مودی سرکار نے بھارت کا امن غارت کرنے کی ٹھان رکھی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ مودی نے دوسری بار اقتدار میں آتے ہیں اپنی مسلم دشمن پالیسیوں پر عمل شروع کر دیا۔ جس سے سب سے پہلے کشمیر کی متنازع حیثیت کا ختم کرکے اس کا انضمام ہے۔ کشمیری 4 اگست 2019ء سے اب تک محاصرے میں ہیں، ہنوز انٹرنیٹ سروس معطل ہے، اگر تھوڑی بہت سروس بحال بھی ہوتی ہے تو اس کی بھی سخت مانیٹرنگ کی جا رہی ہے، کوئی کشمیری اگر اندر کے حالات کسی کو بتانے کی کوشش کرتا ہے تو انٹرنیٹ فلٹر کی مدد سے اسے ٹریس کرکے اُٹھا لیا جاتا ہے اور پھر جیل کی کال کوٹھری اس کا مقدر بن جاتی ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ کے دورے کے موقع پر بھارتی عوام نے سمجھا کہ شائد اُس کے سامنے احتجاج کرنے سے اُن کا مسئلہ حل ہو جائے اور ٹرمپ مودی کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے روک دے، مگر ایسا نہ ہوا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے میڈیا سے گفتگو میں اِن پُرتشدد مظاہروں کا بس سرسری سا حوالہ ہی دیا۔ ٹرمپ نے بڑی بے اعتنائی کیساتھ کہا ’’ہاں میں نے دلی میں ہونیوالے مظاہروں کے حوالے سے سنا ہے، لیکن مودی سے اس ایشو پر بات نہیں ہوئی‘‘۔ یہ ہے ٹرمپ کی انسانی ہمدردی، کہ اس نے مساجد پر ہونیوالے حملوں، جلتے ہوئے گھروں اور شہید ہوتے مسلمانوں کے حوالے سے سنا بھی ہے اور مودی سے بات تک کرنا گورا نہیں کیا۔ جبکہ مودی کے ان غیر انسانی اقدامات کی تعریف کرتے ہوئے ٹرمپ نے  کہا کہ ’’انڈین وزیراعظم نریندر مودی مذہبی آزادی کے حق میں ہیں، انڈیا مذہبی آزادی کے حوالے سے بہت سنجیدہ ہے اور اس بارے میں کام کر رہا ہے۔‘‘

یہاں ڈونلڈ ٹرمپ سے یہ سوال کرنا بنتا ہے کہ اپنے ہی شہریوں کی شہریت منسوخ کرکے انہیں دربدر کرنا، انہیں مذہب تبدیل کرنے کیلئے مجبور کرنا، انہیں تشدد کا نشانہ بنانا، مساجد اور مسلمانوں کے گھروں کو جلانا، کون سی مذہبی آزادی ہے؟۔ ہمارے حکمران اس بات سے پُھولے نہیں سما رہے کہ ٹرمپ نے انڈیا میں بیٹھ کر پاکستان کی تعریف کی ہے اور کہا ہے کہ میرے عمران خان کیساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ حیرت ہے، ہمارے حکمرانوں کی عقل اور سوچ پر، جو ہر بار امریکہ کے ڈنگ سے ڈسے جاتے ہیں اور ہر بار اس پر اعتبار کر لیتے ہیں۔ کل افغانستان میں گھسنے کیلئے امریکہ نے ہمیں استعمال کیا تھا، آج افغانستان سے نکلنے کیلئے پھر ہمیں استعمال کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ انڈیا میں بیٹھ کر محتاط گفتگو کر رہا ہے۔ آج پاکستان امریکہ کی ضرورت نہ ہوتا تو ٹرمپ نے اسے دہشت گرد ریاست ڈکلیئر کرکے انڈینز کی خوشیاں دوبالا کر دینی تھیں۔

امریکہ نے افغانستان میں گھسنے سے لے کر اب تک لاکھوں بے گناہ شہریوں کو موت کے گھاٹ اُتارا ہے، مگر افسوس کہ اپنی روایتی ہٹ دھرمی سے باز نہیں آیا، اب بھی ٹرمپ دلی میں کھڑے ہو کر کہتا ہے کہ ’’ہم اگر افغانستان میں فتح حاصل کرنا چاہیں تو فوری فتح حاصل کر سکتے ہیں، لیکن ہم افغانستان میں بڑے پیمانے پر قتل و غارت نہیں چاہتے‘‘۔ تو کیا اس سے پہلے امریکی فوجی افغانستان میں تورا بورا اور دیگر علاقوں میں تو پھول برساتے رہے تھے۔ وہاں تو امریکیوں نے پہلے دودھ اور شہد کی نہریں نکالی ہیں؟؟ افغانستان سمیت پورے مشرق وسطیٰ میں امریکہ عبرتناک شکست کھا چکا ہے۔ اب افغانستان سے نکلنے کیلئے پاکستان کی مدد مانگ رہا ہے اور یہاں سے انخلا چاہتا ہے۔ ٹرمپ اپنے الیکشن سے پہلے پہلے افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان کے حوالے سے محتاط گفتگو کر رہا ہے اور ہم پھر اس کے جال میں پھنستے جا رہے ہیں۔

جہاں تک کشمیر کا معاملہ ہے تو اس حوالے سے امریکہ سے خیر کی توقع لگانا ہیجڑے سے بیٹا پیدا ہونے کے امید لگانے کے مترادف ہے۔ امریکیوں کے نزدیک مسئلہ کشمیر کا کچھ اور ہی حل ہے، جو نہ بھارت کو قبول ہے اور نہ پاکستان کے عوام اسے تسلیم کریں گے اور نہ ہی کشمیری اسے مانیں گے جبکہ انڈیا نے ہمیشہ کشمیر کے مسئلے پر کسی بھی تیسری قوت کی ثالثی کو کبھی بھی پسند نہیں کیا۔ بلکہ وہ ہمیشہ اس تیسری قوت سے ناراض ہی ہوا ہے کہ وہ کون ہوتے ہیں کشمیر کے معاملے میں ٹانگ اڑانے والے۔ اب ٹرمپ نے دلی میں مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیش کش کیا کر دی، ہمارے حکمران سمجھنے لگے کہ کشمیر بہت جلد ہماری گود میں آن گرے گا۔ تو ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔

امریکہ کی نظر میں کشمیر کے مسئلے کا واحد حل ’’تیسری ریاست‘‘ ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر، لداخ، گارگل، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو ملا کر تیسرا ملک بنا دیا جائے اور اس کا کنٹرول عارضی طور پر امریکہ اپنے پاس رکھے۔ جب نومولود ریاست اپنے پاوں پر کھڑی ہو جائے تو امریکہ نکل جائے گا۔ کیا ہمارے آئین سٹائین حکمرانوں کو یہ ’’امریکی حل‘‘ قبول ہے؟؟ امریکہ زخم ٹھیک کرنے کی بجائے وہ عضو ہی کاٹ دینا چاہتا ہے جس پر زخم ہے۔ یہ مسیحائی ہمیں کسی صورت بھی وارا نہیں کھاتی۔ امریکہ کا ٹائی ٹے نِک ڈوب رہا ہے۔ عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ ڈوبتے جہاز کیساتھ ڈوبنا نہیں چاہیئے بلکہ اپنی ’’لائف جیکٹ‘‘ لے کر تیاری باندھ لینی چاہیے۔ پاکستان کی لائف جیکٹ چین، ایران، ترکی، ملایشیاء، روس بن سکتے ہیں، امریکہ کبھی بھی پاکستان کے مفاد میں نہیں رہا۔

وہ ٹرمپ جس نے دلی سمیت دیگر بھارتی شہروں میں شدت پسند ہندووں کے بلووں اور بپھری ہوئی پولیس کے ستم سے مرتے مسلمانوں کا ذکر تک گوارا نہیں کیا، جس نے کشمیر کے نہتے، مظلوم اور مقید عوام کی حالت تک نہیں پوچھی، کیا ہم اس ٹرمپ سے توقع کر سکتے ہیں کہ وہ ہمارے درد کا سامان کرے گا؟؟ جو قومیں ماضی کے تجربات اور تاریخ سے نہیں سیکھتیں انہیں آزادی سے جینے کا حق کوئی نہیں دیتا، وہ ہمیشہ غلامی کے طوق گلے میں ڈالے زندگی گزار دیا کرتی ہیں، کم از کم ہم اپنی آنیوالی نسلوں کو تو آزادی کا تحفہ دے سکتے ہیں، ہمیں امریکی غلامی کا طوق گلے سے اُتارنا ہوگا، تاکہ ہماری نسل آزاد فضاوں میں سانس لے سکے۔
خبر کا کوڈ : 846825
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش