0
Friday 28 Feb 2020 00:02

کرونا یا ڈراونا؟

کرونا یا ڈراونا؟
تحریر: ایس ایم موسوی

 زندگی کی اصل حقیقت دماغی کھیل کے سوا کچھ بھی نہیں، ایک مثال کے سہارے گفتگو کا آغاز کرتا ہوں۔ روزمرہ زندگی میں ہم دیکھتے ہیں جب ہم بیمار ہوکر ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں تو ڈاکٹر مرض کی دقیق تشخیص کے بعد دوا تجویز کرے اور یہ کہے کہ یہی دوا استعمال کرنے کے بعد آپ ٹھیک ہو جائیں گے۔ اگر ہم نے اس ڈاکٹر کی بات ذہن میں بٹھا لی اور پھر تجویز شدہ دوا استعمال کر لی تو یقیناً مرض میں افاقہ محسوس ہوتا ہے لیکن فرض کریں وہی ڈاکٹر مرض کی صحیح تشخیص کرے اور  درست دوا بھی تجویز کرے لیکن پھر یہ کہے کہ ''بھئی یہ دوا آپ استعمال کریں لیکن آپ کے ٹھیک ہونے کی کوئی امید نہیں، تو یقین جانیں ہم واقعی میں ٹھیک نہیں ہوں گے۔ آج دنیا جس کرونا وائرس کی لپیٹ میں ہے جس نے ہر جگہ خوف و ہراس پھیلا رکھا ہے، اس کی ابتداء چین کے شہر ووہان سے ہوئی ہے جو مختلف ممالک سے ہوتا ہوا اب پاکستان میں بھی داخل ہو چکا ہے۔ (خدا مملکت پاکستان کے ہر فرد کو اپنی حفظ و امان میں رکھے)۔

ایک ہفتہ قبل چین میں پڑھنے والے ہمارے ایک دوست نے پیغام دیا تھاکہ  چین سے یہ وائرس ہر جگہ منتقل ہورہا ہے لہٰذا احتیاط کریں مگر جب وہ خود چین سے سفر کرکے اسلام آباد ائیرپورٹ پر پہنچے تو وہاں کسی قسم کی احتیاطی تدابیر دیکھنے کو نہیں ملی، اس پر انہوں نے سوشل میڈیا کے تھرو حکومت پاکستان سے اس معاملہ کو سنجیدہ لینے کی اپیل بھی کی تھی، لیکن  نہ جانے کتنے ہی ایسے لوگ چین سے واپس آئے ہوں گے مگر کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی۔ تاہم  میڈیا پر ان لوگوں کو دکھایا جارہا ہے جنہوں نے ایک ماہ قبل ایران کا دورہ کیا تھا جبکہ ایران میں اس وائرس کا پہلا کیس پچھلی جمعرات کو سامنے آیا ہے۔ تعجب اس بات پر ہے کہ ایک ماہ قبل ایران کا دورہ کرنے والے کو واپسی کے کئی دنوں بعد یاد آتا ہے اور خود چل کر ہسپتال پہنچتا ہے تو ان میں کرونا نکل آتا ہے، جبکہ میڈیا پر چلنے والی خبروں کے مطابق یہ وائرس پاکستان میں کئی دنوں پہلے آچکا تھا مگر اس کو خاص وقت پر ایک دوسرے ملک سے منصوب کرکے اٹھایا جانے میں ایک الگ بحث ہے جوکہ میرا موضوع نہیں، میرا مقصد اس وائرس کے متعلق آگاہی دینا ہے۔

کہا جاتا ہے وائرس کے لاکھوں اقسام ہمارے اردگرد موجود ہوتے ہیں، انسانی معلومات کے مطابق اس کائنات میں تقریباً تین لاکھ بیس ہزار وائرس (320,000Virus) ہر وقت موجود رہتے ہیں مگر محققین (Researcher) ابھی تک ان میں سے صرف دو سو انیس (219) کو پہچان سکے ہیں۔ ان میں سے ایک یہی کرونا وائرس ہے جو حال ہی میں سامنے آیا ہے مگر اس کو جس انداز میں خوفناک بناکر میڈیا پہ اٹھایا جا رہا ہے حقیقت میں اتنی خوفناک نہیں ہے۔ چونکہ اس وائرس کا شکار ہونے والوں میں سے 98 فیصد لوگ صحتیاب ہوچکے ہیں، باقی صرف 2فیصد کی اموات واقع ہوئی ہیں۔ روس نے اس کا الزام امریکہ پر لگاتے ہوئے کہا کہ اس وائرلیس کو ایجاد کرکے پھیلانے میں امریکہ کا ہاتھ ہے۔ جس کا مقصد اپنے حریفوں کو  اقتصادی لحاظ سے کمزور کرنا ہے۔ ایک ناول نگار نے بھی چالیس سال قبل اس وائرلیس کا ذکر کیا تھا۔ بہرحال اس حوالے سے حقیقت کیا ہے خدا ہی بہتر جانتا ہے مگر اس وائرس کی وجہ سے چین سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔

دوسری طرف اللہ والوں کا کہنا ہے کہ کائنات میں موجود تین لاکھ بیس ہزار وائرس سے بچاؤ کے لئے انسان کے پاس رب العالمین کی عطا کردہ ایک ایسی نعمت، ڈھال موجود ہے جسے "قوت مدافعت'' یعنی''امیون سسٹم'' کہتے ہیں۔ یہ قوت مدافعت انسان کو پہلے روز سے آخری دن تک ہر قسم کے وائرس سے محفوظ رکھتی ہے لیکن کمزور قوت مدافعت والے افراد ان وائرسز کا شکار ہو جاتے ہیں جن کی تعداد بہت کم ہے۔ اس کرونا میں وائرس، کم نفسیاتی حملہ زیادہ ہے چونکہ یہ ایک کاروبار بن چکا ہے، میڈیا سمیت ایک بڑا مافیا اسے خوفناک جناتی، بھوت پریت کی شکل میں دکھا کر دنیا کے اربوں کھربوں انسانوں کو بیوقوف بنا کر اربوں ڈالر کماتے ہیں، جس کی واضح مثال ماسک کے 70 والے پیکٹ کو 470 میں فروخت کرنے کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ مجھے کسی معتبر شخص نے بتایا کہ اس کے ایک دوست نے کرونا سنتے ہی اپنی گاڑی بیچ دی اور جتنی رقم ہاتھ لگی اس سے ماسک خرید کر تین گناہ اضافی قیمت پر فروخت کرنے لگا۔ آپ ذرا یاد کیجئے کہ کس طرح ایک دم کوئی ایک وائرس سارے میڈیا پر نمودار ہوتا ہے۔ پھر اس کا خوف پھیلایا جاتا ہے اور پھر دھندہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے ملک میں دیسی ٹوٹکے والے بھی اپنا ٹوٹکا آزما کر موقع سے خوب فائدہ اٹھانے میں مصروف ہوگئے ہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ ہر قسم کے وائرس سے محفوظ رہنے کا  اصل علاج تو قوت مدافعت کو مضبوط کرنا ہے۔ کہنے کا مطلب زندگی کی پوری بھاگ دوڑ دانسان کی سوچ سے منسلک ہے۔ جب ہم اپنے دماغ میں کوئی بات بٹھا لیتے ہیں تو ہماری زندگی بھی اسی رخ پر ہی چلنے لگتی ہے۔ جس کی کئی مثالیں موجود ہیں لیکن میں یہاں ایک مثال کے ذریعے اپنی بات کو ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ امریکہ میں کسی قیدی کو سزائے موت سنائی تو ایک میڈیکل ٹیم نے مطالبہ کیا کہ اس قیدی نے ویسے بھی مرنا ہی ہے لہٰذا پھانسی کے بجائے ہم اپنے ایک میڈیکل ٹیسٹ کے ذریعے اسے مار دینا چاہتے ہیں، جیل حکام بھی راضی ہو گئے۔ میڈیکل ٹیسٹ کچھ اس طرح سے تھا کہ سانپوں کی ایک قسم 'بلیک کوبرا' کے ڈسنے کے بعد کتنے سیکنڈز میں انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ قیدی یہ بات سن کر بہت گھبرا گیا، بہت اصرار کیا کہ اسے سانپ کے ڈسنے کے بجائے پھانسی ہی دی جائے لیکن اس کی ایک نہ چلی۔ اس کے سامنے اس خطرناک بلیک کوبرا سانپ کو رکھا گیا کہ جس کے ڈسنے سے اس کی موت واقع ہو جانی تھی، بلیک کوبرا کی خطرناک آواز نے اس پر دہشت طاری کی۔

اس قیدی کی آنکھوں پر پٹی باندھی گئی اور سزائے موت کے مقررہ وقت پر بلیک کوبرا سانپ کو اس کے نزدیک لایا گیا۔ میڈیکل ٹیم کے ایک اہلکار نے اس کے بازو پر صرف ایک سوئی ہلکی سی چبو دی، جس پر  اس نے ایک چیخ ماری اور پھر مر گیا۔ یہ دیکھ کر سارے ڈاکٹرز حیران ہو گئے۔ جب اس مردہ قیدی کا میڈیکل ٹیسٹ کیا گیا تو اس کے پورے جسم میں بلیک کوبرا سانپ کا زہر موجود تھا حالانکہ درحقیقت سانپ نے اسے ڈسا ہی نہیں تھا۔ پھر یہ سب کیسے ہوا؟ کیونکہ اس نے اپنے ذہن میں یہ بات بٹھا لی تھی کہ اسے بلیک کوبرا سانپ نے ڈسنا ہے اور اس کی موت واقع ہونی ہے تو جیسے ہی اس کے بازو پر سوئی چبو دیا گیا اسے لگا کہ سانپ نے ہی ڈسا ہے اور اس کے ذہن نے ہی سانپ کا جان لیوا زہر خارج کر دیا جو اس کے پورے جسم میں پھیل گیا اور پھر اس کی موت ہوگئی۔ پس زندگی کا پورا نچوڑ ہی ہماری سوچ پر مشتمل ہے جب تک ہم اسے مکمّل قابو نہیں کر پاتے، اس کی مکمّل شناخت نہیں کر پاتے اورجب تک ہم خود کو نہ پہچان لیں خدا کو بھی نہیں پہچان سکتے۔ جیسے امام علی علیہ السلام کا فرمان بھی ہے کہ جس نے خود کو پہچان لیا گویا اس نے رب کو پہچان لیا۔

ہم اپنی اصل حقیقت کو پہچاننے کی کوشش کریں۔ منفی سوچوں اور خیالات کا خاتمہ کریں، مثبت سوچیں تو یقیناً مثبت نتائج سامنے آئیں گے اور کامیاب ہو جائیں گے۔ زندگی میں موجود اطرافیوں کی گفتگو کا بہت بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ کہنے والے کچھ بھی کہہ دیتے ہیں، کہنے میں ان کا کیا جاتا ہے لیکن لوگوں کی باتوں پر توجہ دیں یا نہ دیں ہماری زندگی ضرور متاثر ہوتی ہے۔ لوگوں کی منفی باتوں سے منفی خیالات جنم لیتے ہیں اور پھر منفی نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم اپنے کان بند تو نہیں کر سکتے لیکن منفی لوگوں سے اپنا راستہ الگ کر سکتے ہیں۔ قدرت نے ہر چیز میں ایک حسن رکھا ہے اپنی منفی سوچ کو مثبت سوچ میں تبدیل کرکے دیکھیں تو پھر اس کا حسن دیکھ کر زندگی کا لطف ملتا ہے۔ زندگی بہت خوبصورت ہے اگر ہماری سوچ مثبت ہو تو ورنہ منفی سوچ کے ساتھ زندگی بہت بڑی  عذاب لگتی ہے۔ بیماری اور آفات ہر وقت انسان کے ساتھ رہتی ہیں جن سے احتیاط لازم ہے مگر بلاوجہ اپنے آپ کو خوفزہ کرنا عقلمندی نہیں۔ لہٰذا اپنی سوچ بدلیں اور اپنی قوت مدافعت کو بڑھا کر اس خوف کو دل سے نکالیں اور ایسی بیماریوں کو بھرپور شکست دیں۔
خبر کا کوڈ : 847255
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش