0
Friday 28 Feb 2020 04:11

در محضر سعدی۔۔۔۔۔۔۔(04)

در محضر سعدی۔۔۔۔۔۔۔(04)
تحریر: ساجد علی گوندل
Sajidaligondal55@gmail.com

علم از بھر ِدین پروردن است، نہ از بھرِ دنیا خوردن[1]۔ انسانی فضائل میں سے علم ہی وہ فضل ہے کہ جس بناء پر انسان مسجود ملائک بنا۔ مخلوقات میں سے شرف و عزت کا تاج اپنے نام کیا۔ ترقی و تکامل کی منازل کو طے کرتا گیا۔۔۔ حتیٰ لوہے کو ہوا میں اڑایا۔۔۔ ہوائی لہروں کی مدد سے سینکڑوں میل دور سے آوازوں کا تبادلہ کیا۔۔۔ سمندوں کا رخ موڑا۔۔۔ حال میں بیٹھ کر مستقبل کا پتہ لگایا۔۔۔ المختصر کہ زمین کے ذروں سے اٹھ کر آسمان کی چھاتی پر قدم رکھا۔ جیسا کہ ارباب علم جانتے ہیں کہ یہ سب آثار و فوائد علم ہیں، حقیقت علم نہیں۔ اگر ہم حقیقت علم تک رسائی چاہتے ہیں کہ جس کی طرف تمام مکاتب میں بالعموم اور مکتبِ اسلام میں بالخصوص توجہ مبذول کروائی گئی ہے اور جس کے جاننے والے کے بارے میں یوں کہا گیا ہے کہ ’’اس کے علم کے قلم کی سیاہی شہداء کے خون پر بھاری  ہے۔‘‘ تو ہمیں یہاں حکیم الامت ﷺکے قول کا سہارا لینا پڑھے گا کہ ’’لیس العلمُ بکثرۃ التعلم و انما ھو نور یقذفہ اللہ تعالیٰ فی قلب من یرید اللہ ان یھدیہ‘‘[2] کہ "حقیقتِ علم معلومات کے ذخیرہ کا نام نہیں، بلکہ ایک ایسا نور ہے کہ اللہ جسے ہدایت کرنا چاہے، اس کے دل میں رکھ دیتا ہے" اور پھر ’’یرنی الاشیاء کماھی‘‘ چیزوں کی حقیقت کھل کر اس کے سامنے آجاتی ہے۔

فرہنگ اسلام میں یہی علم، عالم کے فضل و کرامت کا سبب ہے اور وہ اپنے اسی فضل کی بنا پر حتیٰ انبیاء کی صفوف میں نظر آتا ہے۔ مگر جیسے ہی حقیقتِ علم کو پشت کرتا ہے اور اپنی تکیہ گاہ خالی معلومات کو قرار دیتا ہے تو ایک مرحلے پر وہی اکٹھی کی ہوئی معلومات اس کے لیے وبال جان بن جاتی ہیں اور پھر اسی علم کو جس کی بنا پر امت کی رہبری اس کے ہاتھ میں سونپ دی گئی تھی، پست اور وقتی فوائد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ حتی اس حد تک گر جاتا ہے کہ اپنی آخرت کو کسی دوسرے کی دنیا کے بدلے فروخت کر دیتا ہے، یعنی بقول ہادی امتﷺ ’’یاعلیُ شراً الناس من باع  آخرتہ بدنیاہ و شر من ذلک من باع آخرتہ بدنیا غیرہ‘‘ [3] ’’اے علی شریر ترین ہے وہ شخص، جو اپنی آخرت کو اپنی دنیا کے بدلے بیچ دے اور اس سے بھی ذلیل و رذیل ترین ہے وہ شخص کہ جو اپنی آخرت کو کسی دوسرے کی دنیا کے لیے بیچ دے۔‘‘ جبکہ تاریخ میں ہمیں بہت ساری ایسی مثالیں ملتی ہیں، جہاں علماء نے علم کو دین کی سربلندی کی بجائے  صرف اور صرف اپنے پیٹ اور سلاطین کی خوشنودی کے لیے استعمال کیا۔

مثلاً ایران میں رضا شاہ کے زمانے میں تبریز میں سعید العلمایی نامی ایک عالم رہتا تھا، جس کے ظاہر کو دیکھ کر لوگ اس کا بہت زیادہ احترام کرتے۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ اس کا گزر قزوین سے ہوا اور لوگوں کا ایک ہجوم اس کے استقبال کے لیے جمع ہوگیا۔ رضا شاہ بھی وہاں موجود تھا اور اس نے اس سے حجاب کے بارے میں سوال کیا کہ قرآن میں حجاب کا کیا حکم ہے؟ تو اس نے اس فرصت سے استفادہ کرنے اور رضا شاہ کے نزدیک اپنا مقام بنانے کے لیے یوں کہا  ’’ما سندی بر ضرورت حجاب نداریم‘‘ کہ ہمیں حجاب کے وجود پر کوئی سند نہیں ملتی[4]۔ اور اس جیسے بہت سارے واقعات۔ بقول قرآن یہ وہ لوگ ہیں کہ ’’اشتراو الضلالۃ بالھدیٰ فما ربحت تجارتھم‘‘ [5]انہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی کو خریدا جبکہ ان کی اس تجارت نے ان کو کچھ فائدہ نہ پہنچایا۔

لہذا شیخ سعدی نے جب اپنے زمانے میں معاشرے کے اس درد کو محسوس کیا تو کہا کہ
علم از بھرہ دین پروردن است
نہ از بھر دنیا خوردن

یعنی علم۔۔۔ دین کی پاسداری اور نمو کے لیے ہے، نہ کہ اپنی دنیا سنوارنے کے لیے۔ اور کہا کہ
ھر کہ پرہیز و علم و زھد فروخت
خرمنی گرد کرد و پاک بسوخت

ہر وہ کہ جس نے اپنے تقویٰ اور علم کو مال کے بدلے بیچا، وہ ایسا ہی ہے، گویا اس نے اپنے مال و اسباب کو ایک جگہ اکٹھا کرکے آگ لگا دی۔ یہاں ’’زھد فروختن‘‘ کا ایک معنی خود نمائی اور ریاکاری ہے، یعنی وہ علماء جن کا ظاہر کچھ اور باطن کچھ اور ہو۔
جن کے بارے میں حافظ شیرازی نے یوں کہا ہے کہ
واعظان کاین جلوہ در محراب و منبر می کنند
چون بہ خلوت می روند آن کار دیگر میں کنند

کہ یہ وعظ و نصیحت کرنے والے جب منبروں اور محراب کی زینت ہوتے ہیں تو تمام آداب و سنن کی رعایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، مگر جیسے ہی خلوت میں دوسروں کی آنکھوں سے اوجل ہوتے ہیں تو ان کا حقیقی چہرہ کھل کر سامنے آجاتا ہے اور ہر خلاف ِ شرع کام کو انجام دیتے ہیں۔

حافظ کہتا ہے کہ!
مشکلی دارم زدانشمند مجلس باز پرس
توبہ فرمایان چرا خود توبہ کمتر میں کنند

یہ مسئلہ میری سمجھ سے تو باہر ہے، مگر تُو کسی دانشمند سے پوچھ کہ کیوں! توبہ کی نصیحت کرنے والے خود بہت کم توبہ کرتے ہیں اور کہا۔۔
گوییا باور نمی دارند روز داوری
کاین ھمہ قلب و دغل درکار داور می کنند

کہ ان کی دھوکے بازی اور مکر و چال سے تو یوں لگتا ہے کہ ان کا روز حساب اور قیامت پر اصلاً یقین ہی نہیں ہے اور آخر میں یہ کہ جب کوئی عالم دنیا پرست ہو جائے تو نہ صرف یہ کہ اپنی ہلاکت کا باعث ہے بلکہ وہ معاشرے کی تباہی کا سبب بھی ہوتا ہے۔ جیسا کہ کہا گیا ہے کہ ’’اذا فسد العالم  فسد العالم‘‘ یعنی جب ایک عالم مفسد ہوتا ہے تو اس کی تباہی پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]۔ گلستان سعدی،۔۔۔۔ باب ھشتم۔۔۔۔۔۔ ترجمہ ’’علم دین کی پاسداری اور حفاظت دین کی رُشد و نمو کے لیے ہے، نہ کہ اپنی جیبیں بھرنے کے لیے۔‘‘
[2]۔ منیۃ المرید، ص ۱۴۸ و مصباح الشریعہ، ص۱۶
[3]۔ المواعظ، شیخ صدوق علیہ الرحمہ
[4]۔ روز نامہ، آخرین خبر، (۲۲،۰۴،۹۶)
[5]۔ البقرہ۔ ۱۶
خبر کا کوڈ : 847258
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش