0
Saturday 29 Feb 2020 08:55

میاں کرونا! یہ پاکستان ہے

میاں کرونا! یہ پاکستان ہے
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

کافی سال پہلے جب کالم چاٹنے کا شوق عروج پر تھا، اس وقت عطاءالحق قاسمی صاحب کا ایک کالم پڑھا تھا۔ لکھتے ہیں کہ لاہوری ہر چیز میں مزاح کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور نکال لیتے ہیں۔ ایک بار میرا گجرانوالہ کے قریب ایکسیڈنٹ ہوا، اگرچہ حادثہ شدید تھا، مگر خوش قسمتی سے مجھے بھی کوئی خاص چوٹ نہیں آئی اور گاڑی بھی کافی حد تک محفوظ رہی، مگر اس کی فرنٹ سکرین ٹوٹ گئی۔ میں نے سوچا  اگر گجرانوالہ سے کام کرواتا ہوں تو وقت بھی زیادہ لگے گا اور کام بھی تسلی بخش ہونے کی کوئی گارنٹی نہیں، گاڑی اسٹارٹ کی تو وہ اسٹارٹ ہوگئی اور اس کی ہر چیز ٹھیک کام کر رہی تھی۔ میں نے فیصلہ کیا کہ واپس لاہور چلتا ہوں، آہستہ آہستہ اپنے کاریگر کے پاس پہنچ جاوں گا۔ یہ سوچ کر میں نے گاڑی لاہور کی طرف موڑ دی، اگرچہ کوئی خاص نقصان نہیں ہوا تھا، مگر پھر بھی حادثہ کی اپنی نفسیات ہوتی ہے اور میں اسی میں گم و پریشان تھا۔ انہی سوچوں میں گم میں لاہور ٹول پلازہ پہنچ گیا اور پرچی دیتے ہوئے لاہوریے نے ٹوٹی سکرین کی طرف اشارہ کرکے کہا "مفت میں اے  سی کے مزے؟" اس کا یہ جملہ اتنا برمحل تھا کہ میں بے اختیار زور سے ہنسنے لگا اور وہ ٹراما جس کا میں شکار ہوچکا تھا، اس سے نکل کر زندہ دل لاہور میں داخل ہوگیا۔

ہم پاکستانی سخت ترین مسائل میں بھی مزاح کا کوئی نہ کوئی پہلو نکال ہی لیتے ہیں۔ بہت سے سوشل سائنسز کے ماہرین نے پاکستانی معاشرے کی مغربی پیمانوں پر مانپنے کی کوششوں اور ان کے نتائج کو غلط ثابت کیا ہے اور اس کی وجہ اس معاشرے میں موجود امید کا ہونا اور ہر حال میں شکر گزار ہونا ہے۔ بہت سے مغربی ماہرین پاکستان کے خدانخواستہ ٹوٹنے اور خانہ جنگی تک کی پیش گوئیاں کرتے ہیں، مگر وہ سب غلط ثابت ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ پاکستانی معاشرہ اپنی ساخت میں منفرد ہے، جس کی سوچ اور اس کے نتائج  مغربی ماہرین کو بھی حیران کر دیتے ہیں۔ خیر بات کرونا وائرس کی ہو رہی ہے اور ہر طرف ہو رہی ہے۔ لوگوں نے پہلے اس وائرس کو چین کی نسبت سے ملحد سمجھنا شروع کیا، مگر پھر بڑی تیزی سے کوریا وغیرہ کے مسیحیوں میں پھیلا تو تھوڑا تھوڑا مسیحی ہوگیا اور ایران میں آیا تو ایک طبقہ نے اسے شیعہ قرار دے دیا اور حیران کن طور پر ایسے ایسے انکشافات کیے کہ جنہیں پڑھ کر دماغ دہی ہو جائے۔ میرے بھائیوں یہ وائرس ایک وبائی بیماری ہے، جس کا مذہب، ملک، زبان اور نسل سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔

قدرت کا نظام علت و معلول پر چلتا ہے، اس میں مذہب کو موثر واحد کے طور پر لانا انتہائی پرلے درجے کی حماقت ہے۔ جو وقت پر نرم زمین میں بیج بوئے گا، وہ ملحد ہی کیوں نہ ہو؟ اس کی فصل اچھی ہوگی اور جو سخت زمین میں وقت گذرنے کے بعد بیج بوئے گا، وہ درجہ یک مومن ہی کیوں نہ ہو؟ اس کی فصل اچھی نہیں ہوگی۔ یہ وائرس بھی اسی طرح ہے، جو اس سے تحفظ کرے گا اور تمام احتیاط اور لگنے کے بعد بروقت علاج کرے گا، اللہ تعالی کی سنت کے مطابق وہ محفوظ رہے گا اور جو ایسا نہیں کرے گا، اس کے اس وبا کا شکار بننے کے مکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اگرچہ کرونا کے حوالے سے یہ باتیں کی جا رہی ہیں کہ یہ حیاتیاتی جنگ کا ایک ہتھیار ہوسکتا ہے، جو دشمن کے خلاف اس وقت استعمال کیا جاتا ہے، جب دیگر ذرائع کا استعمال زیادہ  خطرناک یا ممکن نہ  ہو۔ سازشی تھیوریاں کثرت کی وجہ سے اپنی اہمیت کھو دیتی ہیں، مگر پھر بھی ناممکن کے دائرے میں داخل نہیں ہوتیں۔

دیکھیں سائبر جنگ تو باقاعدہ اداروں اور ممالک کے درمیان موجود ہے اور امریکی الیکشن آج تک زیر سوال ہے کہ اس میں روس نے مداخلت کی تھی اور نتائج پر اثر انداز ہوا۔ ایسے میں ابھرتا ہوا چین جو اپنے مدمقابل روایتی  ممالک کو ٹیکنالوجی، دفاع اور معیشت میں  پچھاڑ رہا ہے، اس کے دشمن کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ اس وبا کے شروع ہونے سے لیکر اب تک جتنی ہلاکتیں ہوئیں ہیں، اس سے زیادہ تو شائد اسی عرصے میں لوگ ٹریفک حادثات کا شکار ہو جاتے ہوں، مگر اس کو لے کر چینی معیشت کو تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا گیا ہے۔ ہمارے ایک ماہر معیشت کے مطابق چین کے فقط گارمنٹس میں جو سودے ٹوٹے ہیں، اگر ان کا صرف ایک فیصد پاکستان کو مل جائے تو وہ تین ارب ڈالر بنے گا، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چائینہ کو اس وبا کے ذریعے کتنا نقصان پہنچا ہے۔

جب اس وائرس کی خبریں پاکستان میں عام ہونے لگیں تو لوگ بہت زیادہ پریشان ہوئے، مگر اگلے ایک دو روز میں کرونا وائرس کے حوالے سے دلچسپ تبصرے ہونے لگے۔ ایک ٹوٹکا یہ آیا کہ ایک پیاز کھائیں اور پانچ منٹ پانی نہ پیا جائے، اس کے بعد ٹیسٹ کرائیں، کرونا اپنی موت آپ مرچکا ہوگا۔ اس کے دوسرے روز اپیل نما پیغام چلا کہ پیاز کا کرونا وائرس سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے پیاز کے زیادہ ایس ایم ایس کرکے اس کے ریٹ بڑھانے کا سبب نہ بنیں۔ پھر کسی نے نسخہ نکالا کہ شہد اور کلونجی ملا کر استعمال کریں، اس سے کرونا کو جان کے لالے پڑھ جائیں گے۔ دم درود والے بابوں کے پیغامات کا ایک سیلاب امڈ آیا اور ایک بنگالی بابا کے دعویٰ کے مطابق تو کرونا آپ سے دور رہنے پر مجبور  ہوگا۔ ایک دل جلے نے لکھا پاکستان میں کرونا کو آئے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں اور ڈبلیو ایچ او کے مطابق کرونا کے سب سے زیادہ ماہرین کی تعداد پاکستان میں موجود ہے۔

مزاح اپنی جگہ مگر عالمی ادارہ صحت یعنی ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس گیبریایسس نے کہا کہ اگرچہ اس وائرس کے پھیلاؤ میں عالمی وبا بننے کی اہلیت موجود ہے، تاہم انہوں نے غیر ضروری طور پر گھبرانے سے بھی خبردار کیا۔ ان کا کہنا تھا "اس وقت ہمارا سب سے بڑا دشمن یہ وائرس نہیں بلکہ خوف اور افواہیں ہیں۔ پاکستان میں تیزی سے پھیلتے کرونا وائرس کے لطیفے کچھ اور کر رہے ہوں یا نہ کر رہے ہوں، کروڑوں لوگوں کے دلوں سے اس کا خوف ضرور نکال رہے ہیں اور میرے خیال میں یہ اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کو اس وبا سے نجات دے۔
خبر کا کوڈ : 847429
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش