0
Saturday 29 Feb 2020 12:11

نیٹو ترکی بگڑتا سنورتا اتحاد

نیٹو ترکی بگڑتا سنورتا اتحاد
اداریہ
ترکی نے نیٹو میں شامل ہونے کے لیے کیا کیا نہیں کیا، ترکی کی تاریخ اس سے بھری پڑی ہے۔ لیکن نیٹو نے مختلف حیلے بہانوں سے ترکی کو اتحاد میں شامل ہونے سے روکنے کی اتنی کامیاب کوششیں کی ہیں کہ ترکی کے موجودہ صدر اور ان کی پارٹی تو اس نتیجے پر پہنچ گئی تھی کہ ان تلوں میں تیل نہیں۔ لیکن بعض اوقات عالمی اور علاقائی حالات ایسا پلٹا کھاتے ہیں کہ دوست کو دشمن اور دشمن کو دوست کہنا پڑتا ہے۔ رجب طیب اردوغان نے اس وقت جو بظاہر پالیسی اپنا رکھی ہے، اُس سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ امت مسلمہ کا سب سے بڑا حامی اور درد رکھنے والی شخصیت ہیں، لیکن ان کے پس پردہ بعض اقدامات ان کے دعووں کی قلعی کھول دیتے ہیں۔

مثال کے طور پر ترکی، فلسطینیوں کا دکھ درد بیان کرنے میں بڑھ چڑھ کر سامنے آتا ہے، لیکن اُس کے اسرائیل سے بہترین تعلقات ہیں۔ اسرائیلی سفارت خانہ بھی موجود ہے اور تجارتی تعلقات بھی نارمل پوزیشن میں ہیں۔ رجب طیب امریکہ مخالف اور ترکی کی پالیسیوں کے راستے میں اسے رکاوٹ قرار دیتا ہے تو دوسری طرف امریکہ کو فوجی اڈہ بھی دے رکھا ہے۔ ترکی کے صدر بظاہر مذہبی دہشت گردی اور اسلامو فوبیا کی روک تھام کے لیے مہاتیر محمد اور عمران خان کے ساتھ مل کر عملی اقدامات انجام دینے کی بات بھی کرتے ہیں، جبکہ ادلب اور شام کے بعض علاقوں میں النصرہ فرنٹ جیسے مذہبی دہشت گردوں کی بھی بھرپور مدد کرتے ہیں۔

اسی طرح ترکی ایک طرف آستانہ مذاکرات میں بیٹھ کر ایران، روس اور شام کی موجودگی میں شام میں امن و استحکام کے لیے منصوبے بھی بناتا ہے اور دوسری طرف شام کی ارضی سالمیت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ادلب اور شمالی شام میں اپنی فوجی طاقت کا کھلم کھلا اظہار بھی کرتا ہے۔ ترک صدر باغباں بھی خوش رہے اور راضی رہے صیاد بھی، کی پالیسی پر کارفرما ہیں۔ ایسی حکومتیں اور شخصیات عارضی کامیابیاں حاصل کرسکتی ہیں، لیکن اقوام کے دلوں میں اس طرح کی پالیسیاں گھر نہیں کر سکتیں۔ رجب طیب اردوغان کو اسلام دشمن اور اسلام حامی بلاک میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا، ورنہ دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا ثابت ہوتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 847588
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش