0
Sunday 1 Mar 2020 15:51

معرکہ ادلب یعنی مشرق وسطیٰ کے مستقبل کا تعین

معرکہ ادلب یعنی مشرق وسطیٰ کے مستقبل کا تعین
تحریر: ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی

گذشتہ دو دہائیوں سے مغربی ایشیاء ایک بھیانک جنگ کی لپیٹ میں ہے، ایک ایسی جنگ جس کے اثرات پوری دنیا کی سیاست بالخصوص ایشیائی و افریقی ممالک پر مرتب ہو رہے ہیں۔ ادلب میں اس وقت امریکی و مغربی بلاک اور مشرقی و مقاومتی بلاک کا فیصلہ کن معرکہ جاری ہے۔ آگے چل کر یہی ادلب کا معرکہ مشرق و مغرب کے مستقبل کا تعین کرے گا۔ ان بلاکوں کے درمیان ٹکراو یہ ہے کہ امریکی و مغربی بلاک خطے کے ممالک کو تقسیم کرکے ہر جگہ اپنی مرضی کی حکومتیں قائم کرنا چاہتا ہے، جبکہ مشرقی و مقاومتی بلاک خطے کے ممالک اور استحکام کیلئے کوشاں ہے۔ شام اسی جنگ کی فرنٹ لائن کا نام ہے۔ امریکہ و مغرب کے سامنے شام کے  سرنگوں ہونے سے پورے خطے میں اتنا بڑا بحران آئے گا کہ جس کے مقابلے میں سابقہ بحران کچھ بھی نہیں۔ ملک شام میں ہونے والی جنگ سارے خطے کی بقاء و سلامتی کی جنگ ہے۔ اس وقت امریکہ و مغربی بلاک اگر خدانخواستہ اپنی کوشش میں کامیاب ہوگیا تو خطے کا نقشہ تبدیل ہونے سے جو کچھ ہوگا، اس کو اس کالم میں دو نکات میں سمو دیا گیا ہے۔ 1۔ جنگ کا عمومی نقشہ،  2۔ معرکہ ادلب

1۔ جنگ کا عمومی نقشہ
جنگ کی منصوبہ بندی: شام کے سابق صدر حافظ الاسد کی رحلت کے فوراً بعد 2001ء میں شام کے نظام کو بدلنے کا پروگرام بنایا گیا۔
جنگ کا مقصد: اس کا مقصد اسرائیل کو محفوظ بنانا، ناجائز صہیونی اسٹیٹ کو قبول کروانا اور گریٹر اسرائیل منصوبے کی تکمیل کرنا ہے۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ قطعاً اس جنگ کا مقصد جمہوریت لانا اور عوام کو آزادی دلانا وغیرہ نہیں ہے۔
شام حکومت کا قصور: اسرائیلی بالادستی سے انکار، فلسطینی مہاجرین کی پشت پناہی اور فلسطینی و لبنانی مقاومت کی ہر ممکنہ مدد۔ ایران سے قربت اور دوستی۔ شام کے اتحادی: ایران، روس، چین، حزب اللہ لبنان اور خطے کے مقاومتی گروہ۔ 
اسرائیل کے اتحادی:1۔ عالمی طاقتیں کہ جن میں امریکا، فرانس، بریطانیہ وغیرہ سرفہرست ہیں۔
مفادات:1۔ گیس و پٹرول و دیگر ذخائر، جدید اسلحہ و ٹیکنالوجی اور دیگر مصنوعات کی منڈی پر تسلط۔

2۔ خطے کے ممالک کہ جن میں ترکی اور خلیجی ممالک بالخصوص سعودیہ، امارات اور قطر وغیرہ۔
مفادات: ترکی کو شام کی حکومت گرانے کے عوض بلاد شام (سوریہ، فلسطین جدید، اُردن) پر بالا دستی، خلافت و تسلط کا خواب دکھایا گیا ہے۔ اس کے بعد خلیجی ممالک سے ان کی بادشاہتوں کی بقاء کی قیمت وصول کی جائے گی۔
3۔ میدان میں لڑنے والے اور جنگ کا ایندھن مسلح تکفیری گروہ ہیں۔
مفادات: ڈالرز و پاونڈز و یوورو و ریال و درہم ودینار، امیر و والی، وزیر و قاضی کے عہدوں کا لالچ اور بلی کو خواب میں چھیچھڑے دکھا کر ان کی لالچ اور جہالت سے استفادہ کر رہے ہیں۔ جنگ کا ایندھن ترکی نواز عام سادہ لوح لوگ، اخوان المسلمین، جیش الحر، تنظیم القاعدہ، جبھۃ النصرۃ وغیرہ وغیرہ ہیں، اس کے علاوہ مغرب، اسرائیل اور سعودی ساختہ تنظیم داعش، جیش الاسلام، احرار الشام و دیگر متعدد مسلح گروپس ہیں اور کچھ ترکی ساختہ ٹولے بھی ہیں۔ ان میں سے بعض کے بنیادی بڑے مفادات ترکی سے وابستہ نہیں ہیں، لیکن وہ لاجسٹک سپورٹ کے لئے ترکی کے محتاج ہیں۔  یاد رہے کہ شام سے متصل ترکی بارڈر اور علاقے پر ترکی کا کنٹرول اس جنگ میں ترکی کو کمانڈ کا اختیار دیتا ہے۔

معرکہ ادلب کی ماہیت:
2011ء سے شام کی جنگ میں ایک طرف ملک شام کی فوج اور انکے اتحادی تھے،  جو عوام کی منتخب اور حمایت یافتہ آئینی حکومت کی طلب و رضایت اور دوطرفہ تعاون کے معاہدے کے تحت آئے، جبکہ مدمقابل عالمی طاقتوں، خطے کے ممالک کی پراکیسز کے جنگجو۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 80 سے زیادہ ممالک شام میں وارد کئے گئے اور شامی عوام کی عددی اقلیت کو بھی ساتھ ملایا گیا۔ ملک شام کے اتحادی ایران و روس اور خطے کے مقاومتی گروہ خود میدان جنگ میں تھے اور چین اور بعض دیگر بین الاقوامی اجلاسوں میں حمایت کر رہے تھے، جبکہ مدمقابل امریکہ و مغرب و اسرائیل و ترکی و خلیجی ممالک خود اپنے فزیکل وجود کے ساتھ جنگ میں وارد نہیں ہوئے تھے بلکہ اپنی پراکسیز کو ہر ممکنہ مدد فراہم کر رہے تھے۔ لیکن جب شامی فوج اور انکے اتحادیوں کی فتوحات کا سلسلہ فتح قصیر و حمص سے شروع ہوا اور آہستہ آہستہ یکے بعد دیگرے علاقے آزاد ہوتے گئے اور حملہ آوروں کی پراکسیز شامی عوام سے ظالمانہ سلوک اور مقاومتی بلاک کی کامیاب عسکری کارروائیوں کے نتیجے میں حلب کے اطراف اور ادلب تک محدود ہوگئیں۔

جب یہ جنگ ترکی کے بارڈر کے قریب پہنچ گئی اور ترکی نے اپنے جنوبی بارڈر پر شام سے بھاگتے ہوئے جنگجوؤں کو دیکھا تو ادلب و اطراف حلب کے علاقے میں جنگ کے بجائے سیاسی حل نکالنے کے منصوبے پر شام کے اتحادی ممالک روس و ایران سے آستانہ و سوچی شہر میں مذاکرات کئے اور طے ہوا کہ ان جنگجوؤں کو شام کے اندر ترکی کے بارڈر سے متصل علاقوں میں ایک معینہ مدت کے لئے رکھا جائے، تاکہ جو لوگ دنیا بھر سے آئے تھے، انہیں آہستہ آہستہ ان کے اپنے ممالک یا لیبیا و افغانستان وغیرہ کی طرف دھکیلا جائے اور شامی جنگجوؤں کو نہتا کرکے شامی حکومت سے مذاکرات کے ذریعے ان کی سیٹلمنٹ کروائی جائے۔ شام حکومت اور اس کے اتحادیوں نے معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے کافی عرصہ ادلب و اطراف حلب کے ان علاقوں میں کارروائیاں روک دیں۔ لیکن ترکی حکومت سیاسی حل نکالنے، دمشق و حلب روڈ اور بارڈر سے دور علاقوں کو دہشتگردوں سے خالی کروانے اور انہیں غیر مسلح کرنے وغیرہ میں ناکام رہی۔

ترکی کی طرف سے وعدوں پر عمل نہ ہونے کے بعد گذشتہ تقریباً تین ماہ سے شامی فوج اور اس کے اتحادیوں نے فیصلہ کن عسکری کارروائیوں کا آغاز کیا، جن کے نتیجے میں حلب شہر اور اطراف کے سب علاقے مکمل طور پر آزاد ہوگئے۔ خان طومان، سراقب، معرۃ النعمان، جرجناز جیسے بڑے بڑے شہر اور دسیوں گاوں سمیت ایک وسیع علاقہ آزاد ہوا۔ دمشق حلب سپر ہائی وے 8 سال بعد کھل گیا اور حلب ائرپورٹ سے اندرونی و بیرون ملک پروازیں شروع کر دی گئیں۔ موجودہ صورت حال کے تناظر میں شامی فوج اور اس کے اتحادیوں کی اس تیزی سے پیش قدمی کے سامنے رجب طیب اردوان، اسرائیل و امریکہ کی پراکسیز مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہیں۔ جنگجوؤں کے حوصلے ٹوٹ چکے ہیں۔ شامی و روسی فضائیہ نے اوپر سے اور باقی فورسز نے زمینی تابڑ توڑ حملوں سے دہشتگردوں کا بڑی تعداد میں صفایا کر دیا ہے اور باقی بچ جانے والے ترکی کے بارڈر کی طرف دبک کر بیٹھ گئے ہیں۔

اس وقت ترکی نے بین الاقوامی قوانین اور روس سے کئے گئے معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی فوجیں بھی شام میں ان تکفیری دہشتگردوں کے شانہ بشانہ لڑنے کے لئے بھیج دیں ہیں۔ جن میں سے اخباری رپورٹس کے مطابق 100 سے زیادہ ترک فوجی شام کی سرزمین پر ہلاک ہوئے ہیں۔ ترکی نیٹو عسکری اتحاد کا ممبر ہے، وہ انہیں مدد کے لئے پکار رہا ہے، لیکن وہ کہتے ہیں کہ اگر حملہ ترکی پر ہوتا تو ہم تمہارے دفاع کے لئے معاہدے کے تحت مدد کرتے، ترکی کے خلافت کے دعووں کے باعث خطے کے خلیجی اتحادی پہلے ہی ترکی سے دور ہوچکے ہیں بلکہ امارات نے عرب ملک شام کی سرزمین میں ترک افواج کے جانے کی مذمت کی ہے اور خلیجی ممالک کو امریکہ بھی ناراض نہیں کرنا چاہتا۔ اندرونی طور پر اردوان حکومت پر ترک اپوزیشن کا پریشر بھی بڑھا ہے اور ترک فوجیوں کے شام کی سرزمین پر ہلاک ہونے سے اردوان کی اپنے عوام میں مقبولیت کم ہوئی ہے۔

دوسری طرف اردوان نے لاکھوں شامی مہاجرین کو یورپ کی طرف راستہ کھولنے کی یورپی ممالک کو دھمکی دی اور شام اور روس کو بھی سخت نتائج اور جنگ بڑھانے کی دھمکیاں دیں، لیکن انکا کوئی اثر نہیں ہوا، بلکہ شامی فوج اور اس کے اتحادیوں کی کارروائیوں میں شدت آئی ہے۔ مسٹر اردوان گذشتہ چند ہفتوں سے روس کے صدر پوٹن سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں اور پوٹن ملنے کا وقت نہیں دے رہا۔ شام کی سرزمین پر ترک فوجیوں کی ہلاکت پر روس نے بیان میں کہا ہے کہ دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کے نتیجے میں ترک فوجیوں کا ہلاک ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ہمسایہ ملک کی سرزمین پر دہشتگروں کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں۔ ترکی کو معاہدوں کی پاسداری کرتے ہوئے ان علاقوں سے نکل جانا چاہیئے۔ دوسری جانب رپورٹس کے مطابق روسی طیارے گرانے کے لئے اپنی فوج اور دہشتگردوں کو ترکی نے امریکی ساخت اسٹنگر میزائل بھی دیئے ہیں۔

مجموعی طور پر اردوان کے پاس اب دو راستے ہیں:
1۔ ترکی اب کھل کر شامی فوج اور اسکے اتحادیوں بالخصوص روس کے ساتھ جنگ کرے۔ اور اگر ترکی نے یہ قدم اٹھایا تو اس کا حشر وہی ہوگا، جو صدام حسین کا ہوا تھا۔ چونکہ امریکہ کی ایماء پر کویت پر اس نے ناجائز قبضہ تو کر لیا تھا لیکن پھر کویت کو ہضم نہ کر پایا۔
2۔ دوسرا راستہ عقلی اور منطقی ہے اور وہ یہ ہے کہ ترکی مقاومتی بلاک کے ساتھ اپنے کئے گئے معاہدوں کی پاسداری کرے اور خطے میں امریکی و مغربی بلاک کیلئے راستہ ہموار نہ کرے۔ ترکی کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ اگر مشرقی و مقاومتی بلاک سے ٹکرائے گا تو خود سیدھا امریکہ و مغرب کیلئے لقمہ تر بن جائے گا، چونکہ اس طرح ترکی مشرقی و مقاومتی بلاک کو بھی اپنا دشمن بنا لے گا اور خلیجی عرب ریاستیں پہلے سے ہی ترکی پر کاری ضرب لگانے کی فکر میں ہیں۔
خبر کا کوڈ : 847729
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش