2
Monday 2 Mar 2020 18:39

شام میں رجب طیب اردگان کی خودکشی

شام میں رجب طیب اردگان کی خودکشی
تحریر: بابی غوش (کالم نگار بلوم برگ)

ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے گذشتہ دو سال کے دوران خود کو روسی بلاک سے قریب کرنے کی کوشش کی اور چونکہ روس نیٹو کا سب سے بڑا دشمن جانا جاتا ہے لہذا نیٹو اتحاد میں شامل ممالک کی ناراضگی مول لے لی۔ ان کی اس پالیسی کے نتائج بہت واضح تھے۔ آج شام اور لیبیا میں انقرہ اور ماسکو کے درمیان مفادات کا تضاد پیدا ہو گیا ہے جس کے باعث دونوں ایکدوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہیں جبکہ نیٹو میں ترکی کے اتحادی ممالک میں سے کوئی بھی اس کا ساتھ دینے کو تیار نہیں۔ لہذا یوں دکھائی دیتا ہے کہ ان دو بحرانوں کے باعث ترکی مکمل طور پر گوشہ گیری کا شکار ہو گیا ہے۔ حال ہی شام کے صوبہ ادلب میں ترکی کو بھاری فوجی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ ترکی نے شام آرمی پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے جان بوجھ کر ترک فوجیوں کو نشانہ بنایا ہے لیکن شام حکومت کا دعوی ہے کہ ترکی کے ہلاک ہونے والے فوجی النصرہ فرنٹ سے وابستہ تکفیری دہشت گرد عناصر کی صفوں میں شامل تھے اور انہیں ترک فوجیوں کی موجودگی کا علم نہیں تھا۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے اپنے مغربی اتحادیوں کو "بد عہد" اور "وعدہ خلاف" قرار دیتے ہوئے اپنی مدد نہ کرنے پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اسی طرح رجب طیب اردگان نے مغربی ممالک کو دھمکی دی ہے کہ وہ یورپ کی جانب جانے والے کروڑوں مہاجرین کی روک ٹوک ختم کرتے ہوئے انہیں آگے جانے کی اجازت دے دے گا۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے اپنی اس دھمکی پر عمل پیرا نہ ہونے کے بدلے مغربی ممالک سے دو مطالبے کئے ہیں۔ ایک یہ کہ یورپی ممالک ترکی کو ان مہاجرین کی دیکھ بھال کیلئے امدادی فنڈز فراہم کرے۔ رجب طیب اردگان کے بقول ان مہاجرین کی تعداد چالیس لاکھ کے قریب ہے۔ ان کا دوسرا مطالبہ شام میں نیٹو کی جانب سے ترکی کی حمایت اور مدد پر مبنی تھا۔ ترک صدر کا پہلا مطالبہ کافی حد تک قابل قبول ہے۔ ترکی اس وقت تقریباً 37 لاکھ مہاجرین کو اپنے پاس پناہ دیے ہوئے ہے جبکہ شام میں خانہ جنگی کے نتیجے میں مہاجرین کی تعداد میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ موجود ہے۔ اگرچہ یورپی ممالک اب تک ترکی کو ان مہاجرین کی دیکھ بھال کیلئے مالی امداد فراہم کرتے آئے ہیں لیکن اس میں اضافہ کرنے کی ضرورت پائی جاتی ہے۔

لیکن رجب طیب اردگان یورپی ممالک کو مہاجرین کا راستہ کھول دینے کی دھمکی دے کر انہیں شام میں اپنی غلط پالیسیوں اور اقدامات کا ساتھ دینے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے پہلے رجب طیب اردگان نے یہ دھمکی شام کے شمال مشرق میں امریکہ کے حمایت یافتہ کرد باشندوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کرتے وقت بھی لگائی تھی۔ تب بھی یورپی ممالک کے حکام شام میں مزید جنگ اور شدت پسندی کے مخالف تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ایسی صورت میں یورپی ممالک کی جانب مہاجرین کا رش مزید زیادہ ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف وہ اس خوف میں بھی مبتلا تھے کہ شام میں ترکی کی فوجی مداخلت داعش کے خلاف جاری جنگ کو متاثر کر سکتی ہے۔ لیکن ترکی کے صدر نے یورپی حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا: "اگر آپ ترکی کے فوجی آپریشن کو جارحیت قرار دیں گے تو ہمارا کام آسان ہو جائے گا کیونکہ ایسی صورت میں ہم اپنی سرحدیں کھول دیں گے اور 36 لاکھ مہاجر یورپ کی جانب چل پڑیں گے۔" مغربی ممالک سے ترکی کا دوسرا مطالبہ یعنی شام میں اس کی فوجی مدد اور حمایت پورا ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ رجب طیب اردگان نے شام میں فوجی آپریشن کرنے سے پہلے اپنے مغربی اتحادیوں کے تمام تر تحفظات اور وارننگز کو یکسر نظرانداز کر دیا تھا۔ اور اب جب مشکل کا شکار ہو چکے ہیں تو امریکہ اور یورپ سے مدد مانگ رہے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام میں پیش آنے والے حالیہ واقعات پر محتاطانہ ردعمل ظاہر کیا ہے۔ رجب طیب اردگان کو معلوم ہونا چاہئے تھا کہ پیٹریاٹ میزائل سسٹم نہیں مل سکے گا۔ نیٹو نے بھی ترکی کی درخواست پر ہنگامی اجلاس منعقد کیا لیکن اس میں کوئی اہم فیصلہ نہیں کیا گیا۔ نیٹو کے منشور کے مطابق یہ اتحاد ایسی صورت میں اپنے رکن ملک کی فوجی مدد کا پابند ہے جب اس ملک کی قومی سلامتی یا خودارادیت اور سیاسی خودمختاری خطرے میں ہو۔ لیکن ترکی اپنے ہمسایہ ملک شام میں فوجی مداخلت میں مصروف ہے اور شام کے صوبہ ادلب میں اس نے اپنے فوجیوں کو خطرے میں ڈال رکھا ہے۔ صوبہ ادلب میں ترک فوجیوں کی جان کو خطرہ نہ تو ترکی کی قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہا ہے اور نہ ہی اس کی سیاسی خودمختاری خطرے کا شکار ہے۔ لہذا نیٹو اس کی فوجی مدد کی پابند نہیں ہے۔ گذشتہ چند سالوں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ مغربی ممالک شام میں روس کی سرگرمیوں میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے اور ان کیلئے شام میں روس کا مقابلہ کرنا زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ لہذا رجب طیب اردگان نے شام میں فوجی مداخلت کر کے اپنی سیاسی موت کا راستہ ہموار کیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 847946
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش