0
Monday 2 Mar 2020 19:49

کرونا وائرس اور ایران کی حکمت عملی

کرونا وائرس اور ایران کی حکمت عملی
تحریر: شبیر احمد شگری

چین سے شروع ہونیوالے کرونا وائرس کی اطلاع اور اس کیساتھ دوسرے ممالک اور خود پاکستان میں اس کی موجودگی کی نشاندہی پر پوری قوم افواہوں کی زد میں ہے۔ میڈیا، سوشل میڈیا، اخبارات محافل غرض جہاں دیکھو کرونا وائرس موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ جس کیلئے ہر طرح کے حفاظتی اقدامات کو سوچا جا رہا ہے۔ کوئی ماسک کے مارکیٹ سے غائب ہو جانے پر اسے گھر میں ہی تیار کرنے پر لگا ہے، کوئی دعاوں، کوئی ٹوٹکوں پر عمل کر رہا ہے۔ کبھی کچے پیاز کو حتٰی کہ اب نسوار کو بھی اس کا علاج قرار دیا جا رہا ہے۔ یعنی جتنے منہ اتنی باتیں اور خوفزدگی کا یہ عالم ہے کہ لوگ عام پبلک مقامات پر بھی جانے سے گریز کر رہے ہیں۔ اس کا بڑا ذمہ دار ہمارا میڈیا بھی ہے، جو کسی بھی خبر کو ملک میں ایسی سنسنی کیساتھ پھلاتا ہے کہ ہر کوئی پریشان ہو جاتا ہے، کیونکہ عوام کہ صحیح راہنمائی ہی نہیں ہو رہی ہوتی ہے۔ کوئی اصول اور صحیح طریقہ کار نہ اپنانے کی وجہ سے نہ تو عوام کو یہ آگاہی حاصل ہوسکی کہ کرونا نامی وائرس ہے کیا بلا اور نہ ہی یہ معلوم ہوسکا یے کہ اس کی احتیاطی تدابیر کیا ہیں۔ حالانکہ اس مرض کا اصل مرکز چین اس کے بعد جنوبی کوریا اور دوسرے ممالک ہیں۔ لیکن ایران سے آنیوالے زائرین کو خاص ہدف بنایا گیا۔

دو دن پہلے تو یہ بھی کہا گیا کہ ایران سے واپس آنیوالا ایک زائر اس مرض میں مبتلا ہے۔ پھر کہا گیا کہ اس شخص کی رپورٹس منفی آئی ہیں اور ایران سے واپس آنے والے باقی افراد کے چیک اپ کے بعد انہیں کلیئر قرار دیا گیا۔ اس پروپیگنڈے کے کیا مقاصد ہوسکتے ہیں، حالانکہ اس سے بہت زیادہ متاثرہ ملک چین، جنوبی کوریا اور پھر نہ جانے کون کون سے ممالک ہیں، لیکن نہیں معلوم ایران کو ہی زیادہ کیوں موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ بے شک ایران میں زائرین جاتے ہیں، لیکن اس سے ایک بہت بڑی تعداد تو چین کا رخ کرتی ہے، جبکہ کئی ممالک تو اسے ظاہر بھی نہیں کر رہے۔ اصل بات تو یہ تھی کہ عوام کو خوفزدہ کرنے کی بجائے ایک درست اور منظم لائحہ عمل تیار کیا جاتا، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ بحیثیت مسلمان ہمارے اندر خدا خوفی ختم ہوچکی ہے۔ ورنہ دو تین سو روپے والے ماسک کی قیمت دو تین ہزار پر نہ پہنچتی بلکہ پھر بھی اسے مارکیٹ سے غائب کیا گیا ہے کہ شاید خدانخواستہ قیمت میں اضافے کے مزید بہتر مواقع دستیاب ہو جائیں۔ اب معلوم ہو رہا ہے کہ اس وائرس سے بچاو کا ماسک ہی الگ ہے۔ یعنی ایک عجیب اور سمت نامعلوم کی دوڑ لگی یے۔ نتیجتاََ ہم افواہوں کی زد میں گھرے ہوئے ہیں۔

ہمیں ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے معتبر، مستند اور سرکاری ذرائع سے خصوصی طور پر متعلقہ خبروں اور معلومات کو آگے بڑھانا چاہیئے نیز افواہوں اور من گھڑت خبروں کو پھیلانے سے باز رہنا چاہیئے۔ کاش تعصب کی عینک اتار کر ہم یہ بھی دیکھتے کہ ایران میں کرونا وائرس کیلئے کیا طریقہ کار اپنایا گیا ہے۔ ایران میں اس آفت سے نمٹنے کے لئے بہترین لائحہ عمل شروع سے ہی تیار کر لیا گیا تھا اور بہترین اقدامات کئے گئے۔ لوگوں میں مفت ماسک، دستانے اور دوائیاں تقسیم کی جا رہی ہیں۔ موبائل ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں، حکومت اور اداروں کی جانب سے شہریوں کو بہترین طریقے سے آگاہی دی جا رہی ہے اور فری طبی امداد کی پیشکش کی جا رہی ہے۔ الحمد للہ یہ خبریں بھی آئیں کہ اس پر قابو بھی پا لیا گیا ہے اور مریض صحتیاب بھی ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں موجود ایرانی سفارتخانے کی جانب سے پریس ریلیز آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں کہ جس طرح ہمارے نبی پاک اور آئمہ طاہرین کے فرمودات اور طریقہ کار ہے، اسی طرح انقلاب اسلامی ایران کے بعد ایران میں صحیح معنوں میں اسلامی حکومت موجود ہے، جو عوام کی فلاح و بہبود کیلئے موثر اقدامات کر رہی ہے۔ ان کی نظر میں ماسک کی نہیں انسانیت کی قدر ہے، فرق صرف سوچ کا ہے۔

چالیس سال سے پوری دنیا کی دشمنی کے باوجود یہ قوم ثابت قدمی سے کھڑی ہے۔ جو بھی سازش ایران کیخلاف کی جاتی ہے، اسلام کے حقیقی پیروکار اسے ناکام بنا دیتے ہیں۔ کرونا وائرس پر ایران کے دانشمندانہ اور قابل تحسین اقدامات میں ہمیں یہ دکھائی دیتے ہیں کہ نہ صرف ایران نے اندرون ملک عوام کیلئے بھرپور اقدامات کئے بلکہ صحت کے بین الاقوامی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے ہمسایہ اور دوسرے ممالک کا بھی خیال رکھا ہے اور اس پر کسی کو سیاست کرنے کا کوئی موقع بھی نہیں چھوڑا۔ چین میں نئے کورونا وائرس کے پھیلنے کے بعد سے ایران نے اس وبا اور اس کے پھیلاؤ کی شدت کو دیکھتے ہوئے پہلے ہی اس سے نمٹنے کا منصوبہ بنا لیا تھا اور ضروری تیاری کر لی گئی تھی۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ کچھ متاثرہ ممالک سے اس وائرس کا جلد اعلان کیا جائے، لیکن ایسا نہیں ہوا جبکہ ایرانی حکومت نے اس وائرس کے پہلے کیس کی نشاندہی ہوتے ہی میڈیا اور عام لوگوں کو آگاہ کر دیا، یہ قابل تحسین اقدام عوامی صحت اور بین الاقوامی صحت کے ضوابط کی تعمیل بھی ہے۔ حالانکہ اس دوران ایران کے پارلیمانی انتخابات کا بھی انعقاد ہو رہا تھا اور ایران نے ایسی پالیسی اپنا کر نہ صرف دوسرے ممالک کو بروقت مطلع کیا بلکہ اس مسئلے کا غلط سیاسی استعمال ہونے سے بھی بچایا۔

چین میں کرونا کی نشاندہی کے بعد ایران میں وزیر صحت کے کہنے پر وزارت صحت میں کورونا کنٹرول سنٹر قائم کیا گیا، جس میں 12 ذیلی کمیٹیاں بنائی گئیں۔ جو بین المیعاد سرگرمیوں کی نگرانی کر رہی ہیں۔ اسی بنا پر ایرانی وزارت صحت میں روزانہ باقاعدگی سے اجلاس ہوتے ہیں اور اس مسئلے کی تازہ ترین صورتحال پر دن کے ایک خاص وقت میں سرعام اطلاع دی جاتی ہے۔ اگرچہ عالمی اعداد و شمار کے مقابلے ایران میں کورونا وائرس کے معاملات کم اور محدود ہیں، لیکن شناخت، علاج اور عوام میں شعور اجاگر کرنے کا عمل تیز اور درست طریقے سے انجام دیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ایران نے بین الاقوامی قواعد و ضوابط کے تحت ذمہ داری کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کیا ہے اور دوسرے ممالک، خاص طور پر ہمسایہ ممالک سے، اپنی ذمہ داریوں اور بین الاقوامی کاروبار پر اس کے ناجائز اثر سے باز رکھنے کی کوشش کی ہے۔ ایران نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مینیجرز اور ماہرین کو دعوت دی کہ وہ ایران کی صحت، طبی اور علاج معالجے کا نظام دیکھنے کیلئے ایران کا دورہ کریں اور اس وائرس کیخلاف جنگ میں دوسرے ممالک کو اضافی مشورے اور تجربہ فراہم کریں۔

اس طرح ایران نے عالمی ادارہ صحت کے معیار پر مکمل عملدرآمد کو یقینی بنایا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ایران نے تمام ممالک کی وزارت صحت کے منتظمین اور ماہرین کو بھی دعوت دی ہے کہ وہ ایران کی طبی، صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات اور صلاحیتوں کا دورہ کرکے جائزہ لیں۔ تاکہ دنیا کو اس کا یقین دلایا جا سکے اور ایران نے اس سلسلے میں کسی بھی بین الاقوامی تعاون کیلئے اپنی پوری آمادگی کا اظہار کیا۔  قابل تحسین بات یہ ہے کہ عالمی ادارہ صحت نے بھی اس مسئلے کو سنبھالنے کیلئے ایران کی "بنیادی صلاحیت" کی توثیق کی ہے۔ کرونا وائرس پر ایران کی کوششیں اور اقدامات نہ صرف ایرانی عوام کی صحت کے تحفظ کیلئے فائدہ مند ثابت ہو رہی ہیں، بلکہ ایران نے پورے خطے کیلئے صحت کی حفاظت کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ تاکہ خطے کے دوسرے ممالک کی صحت کو بھی کوئی خطرہ نہ ہو. یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایران ہمیشہ اس بات پر زور دیتا رہا ہے کہ امریکی یکطرفہ اور غیر قانونی پابندیاں بین الاقوامی صحت کی حفاظت کیلئے خطرہ ہیں اور یہ پابندیاں ایرانی عوام کو صحت کی مناسب سہولیات، ادویات اور مناسب طبی امداد تک رسائی سے محروم کرکے صحت کی حفاظت کو مزید خطرے میں ڈال سکتی ہیں۔ جسے علاقائی تعاون کے تسلسل سے روکا جا سکتا ہے۔

ایران کے کرونا وائرس کی نشاندہی کے بعد قابل رشک اقدامات پر بڑی خوشی اور اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ برادر اسلامی ملک میں قبل از وقت اس سے تحفظ کیلئے اقدامات کئے گئے، لوگوں میں افواہوں کا موقع دینے کی بجائے نہ صرف اس بیماری کے بارے میں شعور پیدا کیا گیا بلکہ اس سے نمٹنے کیلئے ان کی بھرپور مدد کی گئی اور مفت ماسک و دوائیاں فراہم کی گئیں۔ مختلف سینٹرز اور موبائل ٹیمیں تشکیل دی گئیں اور یہ انتظامات اتنے قابل اطمینان بخش ہیں کہ ایران باقاعدہ نہ صرف عالمی ادارہ صحت بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک کو بھی دعوت دے رہا ہے کہ ہمارے ملک میں آئیں اور صحت کے حوالے سے ہمارے اقدامات کو دیکھیں۔ یہ باتیں میں اس ملک کے بارے میں اس زندہ قوم کے بارے میں کر رہا ہوں، جو چالیس سال سے انقلاب اسلامی کے بعد بین الاقوامی طور پر بہت زیادہ دشمنی، دباو اور پابندیوں کی زد میں ہے، لیکن اس کے باوجود اپنے ملک کے اندر وہ کتنی مستحکم ہے۔

بےشک اسلامی جمہوریہ ایران نے دنیا میں ایک عظیم اسلامی قوم کی حیثیت سے اپنا لوہا منوایا ہے۔ ساتھ ہی ان لوگوں سے بھی کہنا چاہوں گا، جو بے جا افواہیں پھیلا رہے ہیں، خدارا تعصب میں اس قدر آگے نہ بڑھ جائیں کہ خدا کی ناراضگی کا سبب بن جائے، یہ بیماری یا مصیبت تو کبھی بھی کسی پر بھی آسکتی ہے۔ اگر آپ اس سے بچے ہوئے ہیں تو خدا کا شکر ادا کریں اور بیماری پر بھی سیاست نہ کریں اور خاص طور پر ایران کے زائرین کو ہی بلاوجہ الزامات کا نشانہ نہ بنائیں۔ اس کی بجائے استغفار کریں کہ اللہ پاک ہمیں اور عزیز ملک پاکستان کو مہلک بیماری اور وبا سے محفوظ رکھے اور جو ممالک، خصوصاً برادر اسلامی ملک ایران کے افراد، جو اس بیماری سے متاثر ہوئے، ان کو بھی صحت کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے اور یہ بیماری مزید نہ پھیلے۔ آمین یا رب العالمین۔
خبر کا کوڈ : 847957
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش