0
Monday 2 Mar 2020 20:03

ترکی افغان جہاد کے بعد سی صورتحال سے دوچار

ترکی افغان جہاد کے بعد سی صورتحال سے دوچار
تحریر: سید اسد عباس

خلیفۃ المسلمین ترکیہ جناب طیب اردوگان نہ جانے کیا سوچ کر شام کی جنگ کا حصہ بنے تھے، نہیں معلوم ان کے ذہن میں کیا تھا، جب انہوں نے 2011ء میں شام میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہرین کی مدد کی۔ اس کے بعد فری سیرین آرمی کے بھگوڑے افسران اور سپاہیوں کو منظم کیا۔ شام میں حکومت مخالف سیاستداوں کے ذریعے شام کی عبوری حکومت بنانے کے عمل کو بڑھاوا دیتے رہے۔ شدت پسند گروہوں کو شام میں منظم کرنا، انہیں ہتھیار فراہم کرنا بھی ترکی کے بغیر ممکن نہ تھا۔ اس تمام عرصے میں ترکی نے شامی حکومت کے خلاف ہر وہ کام کیا، جو ایک دشمن ملک کسی دشمن کے خلاف کر سکتا ہے۔ ترکی اور شام کے مابین اختلافات کی کوئی ایسی سنگین تاریخ ہمارے علم میں نہیں ہے۔ ہاں شاید ترکی کو یاد آگیا ہو کہ یہ شام اور اس سے متصل علاقے تو پہلے ترکی کے زیر نگیں تھے، کیوں نہ ان کو دوبارہ حاصل کیا جائے۔ بس اس خیال سے ترکی نے شام کی مستحکم حکومت کے خلاف دامے، درہمے اور سخنے اقدامات کا آغاز کر دیا۔

پہلے پہل تو ترک خلیفہ کے ساتھ نیٹو بھی تھا اور عرب اتحادی بھی، تاہم 9 برس کی اس جنگ میں ترکی تن تنہا شامی افواج اور اس کے اتحادیوں کے سامنے کھڑا رہ گیا۔ اب ترکی کے پاس شام کے 3.6 ملین پناہ گزین ہیں اور اس کے علاوہ وہ شدت پسند جو ترکی نے دنیا بھر سے اکٹھے کیے تھے۔ ادلب ان شدت پسندوں کا مرکز ہے۔ ترکی نے شام اور روس کے ساتھ معاہدہ کیا کہ شامی حکومت ادلب پر چڑھائی نہیں کرے گی، جس کے بدلے میں شامی حکومت کا کہنا تھا کہ ادلب کی سرزمین کو شامی افواج پر حملے کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ اب دونوں گروہوں کا کہنا ہے کہ کسی نے بھی اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔ ترکی کہتا ہے کہ شامی افواج اپنے ہی شہر ادلب کا کنٹرول حاصل نہ کریں اور سوشی میں ہونے والے معاہدے کا احترام کریں، جبکہ شامی حکومت اور اس کے اتحادیوں کا کہنا ہے کہ ادلب کی سرزمین کو شامی افواج پر حملوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور ترکی سوشی معاہدے پر عمل درامد سے قاصر رہا ہے۔

لفظی گولہ باری سے معاملہ بارودی دھماکوں اور کشت و خون تک پہنچ چکا ہے، شامی افواج ادلب کی جانب پیشقدمی کر رہی ہیں اور ترکی اس پیشقدمی کو روک رہا ہے۔ اس وقت شامی اور ترک افواج ایک دوسرے کے سامنے ہیں۔ گذشتہ دنوں روس کی جانب سے ترکی کو ایک پیشکش کی گئی تھی کہ وہ ادلب کا ساٹھ فیصد علاقہ شامی افواج کو دے دے اور بقیہ حصے پر اپنا بفر زون قائم رکھے، تاہم ترکی نے اس پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس وقت ترک خلیفہ رجب طیب اردوگان شدید دباؤ کا شکار ہیں، ایک جانب شامی پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے، جو ترکی کی معیشت پر ایک مسلسل بوجھ ہے تو دوسری جانب ادلب میں جاں بحق ہونے والے ترک فوجی۔ وہ جنگ جو ترکی شامی سرحدوں میں پراکسیز کے ذریعے لڑنا چاہتا تھا، وہ اس کی سرحدوں کے قریب آچکی ہے اور اس کے شعلوں نے ترک افواج اور معیشت کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا ہے۔

ترکی نے یورپی یونین کے ممبران سے گزارش کی ہے کہ وہ اپنے معاہدے کی پاسداری کریں۔ یاد رہے کہ طیب اردوگان کی اس معاہدے سے مراد 2016ء برسلز میں ترکی اور یورپی یونین کے مابین ہونے والا معاہدہ ہے۔ شام میں جنگ کے سبب جب پناہ گزینوں کا ایک سمندر ترکی اور پھر یورپ کی جانب گامزن ہوا تو یورپی یونین کے ممبران نے ترکی سے معاہدہ کیا کہ وہ ان پناہ گزینوں کو ترکی میں ہی رکھنے کے عوض ترکی کو مالی امداد دیں گے۔ کچھ عرصہ تو امداد کا یہ سلسلہ جاری رہا، تاہم اب شاید یہ تھم چکا ہے، جس کی جانب رجب طیب اردوگان اشارہ کر رہے ہیں کہ یورپی یونین اپنے وعدے پورے کرے، ورنہ ہم شامی پناہ گزینوں کو یورپ میں داخلے کی اجازت دے دیں گے۔ حالیہ جھڑپوں کے نتیجے میں تقریباً نو لاکھ مزید پناہ گزین ترکی کی سرحد پر پہنچ چکے ہیں۔ اسی طرح تقریباً 23 ہزار پناہ گزین یورپی سرحدوں پر پہنچ چکے ہیں۔

ترکی ان حالات میں نیٹو سے توقع رکھتا تھا کہ وہ اس جنگ میں اس کی پشت پر کھڑا ہو۔ جس کی ترکی کو زیادہ امید نہیں رہ گئی۔ امریکا بھی شام کے کرد علاقوں کو لاوراث چھوڑ کر چلتا بنا ہے۔ ترکی کو ایک جانب ان کرد علاقوں سے خطرہ ہے تو دوسری جانب پناہ گزینوں کی مشکل۔ شامی کرد شامی حکومت کے قریب ہوچکے ہیں۔ مختصر یہ ہے کہ وہ تمام ممالک جنہوں نے شام کے خلاف اس جنگ کا آغاز کیا تھا، اس جنگ کے شعلوں اور اثرات سے نمٹنے کے لیے ترکی کو تنہا چھوڑ گئے ہیں۔ ابھی تو جنگ شام کی سرزمین پر لڑی جا رہی ہے کہ اگر شامی اور ترک افواج نیز اتحادی مزید کچھ عرصہ دست و گریبان رہیں تو یہ جنگ ترک سرحدوں کے اندر بھی جاسکتی ہے۔ ایسے میں خلیفۃ المسلمین الترکیہ جناب رجب طیب اردوگان کی سیاست کو بھلا کون دانشمندی کہے گا۔

ترکی کی حالت اس وقت وہی ہے، جو پاکستان کی افغان جہاد کے بعد تھی۔ افغانستان میں تو سوویت یونین جارح تھا، ہمارا اس جنگ کا حصہ بننا کسی لحاظ سے درست بھی تھا، تاہم قضیہ شام میں ترکی مستحکم حکومت الٹنے کے منصوبے کا حصہ بنا۔ وہی اتحادی، وہی مہرے اور ویسا ہی منظر نامہ، جس سے پاکستان کو چند دہائیاں قبل گزرنا پڑا۔ قارئین کے علم میں ہے کہ اس جنگ کے نتیجے میں پاکستان نے لاکھوں کی تعداد میں پناہ گزینوں کی میزبانی کی۔ جب سوویت یونین کا خاتمہ ہوگیا یا ہمارے اتحادیوں کے مفادات پورے ہوگئے تو پاکستان کو اس جنگ کے مسائل کے نمٹنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا گیا۔ ان مسائل کی سنگینی اور ملک پر پڑنے والے اثرات کو پاکستانیوں سے بہتر بھلا کون سمجھ سکتا ہے۔ اتنی قربانیاں ہم نے بھارت کے ساتھ لڑی جانے والی تین جنگوں میں نہیں دیں، جس قدر اس ایک مسئلہ سے نمٹنے کے لیے ہم دے چکے ہیں۔ ملک کو پہنچنے والا معاشی نقصان اس پر مستزاد ہے۔

ترکی نے بھی وہی غلطی دہرائی ہے اور پاکستان کی مانند اس وقت تنہائی کا شکار ہے۔ ترقی کی جانب بڑھتی ہوئی ترک معیشت کے لیے یہ فیصلہ آئندہ برسوں میں کیا اثرات لے کر آتا ہے، یہ تو وقت ہی بتائے گا، فی الحال تو اسے لاکھوں کی تعداد میں پناہ گزینوں کی میزبانی کرنی ہے، جو شام میں امن کی مکمل بحالی تک ترک معیشت پر بوجھ بنے رہیں گے۔ رجب طیب اردوگان کو امید ہے کہ ان کے اگلے دورہ ماسکو کے دوران کوئی امن معاہدہ طے پا جائے گا، ہم بھی امید رکھتے ہیں کہ کوئی ایسا قابل عمل حل نکل آئے کہ ترکی کی مشکلات کم سے کم ہو جائیں، کیونکہ بہرحال ترکی امت مسلمہ کا ایک اہم ملک ہے، جو بیگانوں کے ہاتھ میں کھیل کر اس حالت کو جا پہنچا ہے۔
خبر کا کوڈ : 847969
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش