1
Wednesday 4 Mar 2020 11:20

طالبان امریکہ معاہدے کا مستقبل

طالبان امریکہ معاہدے کا مستقبل
اداریہ
طالبان امریکہ معاہدے پر مختلف تبصرے آرہے ہیں، لیکن عجیب بات ہے کہ دوحہ میں درجنوں ممالک کی موجودگی میں ہونے والے اس معاہدے پر کسی کو یقین نہیں آرہا۔ امریکہ سمیت اس معاہدے سے بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلق رکھنے والے فریقوں نے اسے ایک پیچیدہ اور ناممکن معاہدہ قرار دیا ہے۔ امریکی صدر اور ان کی ٹیم کے افراد کی طرف سے گاجر اور چھڑی کی سیاست اپنائی جا رہی ہے، جبکہ دوسری طرف افغان صدر اشرف غنی طالبان قیدیوں کی رہائی کے مسئلے میں جس طرح ڈٹ گئے ہیں، اس کی کسی کو امید نہ تھی۔ سب یہ تبصرہ کر رہے تھے کہ اشرف غنی اور ان کی حکومت امریکہ اور یورپ کے ڈالروں اور یوروز پر چل رہی ہے، لہٰذا وہ امریکہ کے حکم پر سرتسلیم خم کر دیں گے، لیکن ابھی تک صورت حال واضح نہیں۔

دوسری طرف معاہدے میں امریکہ کے ساتھ ’’امارات اسلامی افغانستان‘‘ کو فریق بنا کر افغانستان کی موجودہ حکومت کو جس طرح نظرانداز کر دیا گیا، اُس کے منفی نتائج کا سامنے آنا ایک فطری امر تھا۔ امریکی صدر اور طالبان رہنماء کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ بھی ہوچکا ہے، لیکن افغانستان کے زمینی حقائق کو سمجھنے کے لیے گذشتہ 24 گھنٹے کی طالبان کارروائیوں پر غور کرنا کافی ہوگا۔ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان بین الافغان مذاکرات دس مارچ کو طے پائے ہیں، لیکن گذشتہ 24 گھنٹوں میں طالبان اور افغانستان کے چونتیس صوبوں میں سولہ صوبوں میں طالبان نے تنتیس سے زائد حملے کیے ہیں، جن میں ہلاکتوں کی تعداد چودہ سے زیادہ ہے۔

قندھار صوبے میں دو افغان فوجی اور لوگر صوبے میں سکیورٹی فورسز کے پانچ اہلکار مارے جا چکے ہیں۔ سیاسی ماحول بھی دس مارچ کے مذاکرات کے لیے تیار نہیں۔ دوسری طرف امریکہ میں ٹرامپ مخالف حلقوں کی طرف سے بھی اس معاہدے کے خلاف تیز و تند آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ امریکہ نے طالبان سے معاہدہ کرکے افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی کو جواز فراہم کرنیکی کوشش کی ہے، لیکن خطے کے حالات پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ اس معاہدے میں صرف اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتا ہے اور اس سے افغانستان میں مستقبل بعید میں امن کی بجائے عدم استحکام اور جنگ و جدل میں اضافہ ہی ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 848399
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش