1
Friday 6 Mar 2020 12:33

میرا قلم میری مرضی

میرا قلم میری مرضی
تحریر: اختر شگری

نہایت افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ جس وطن عزیز کی بنیاد اسلام کے نام پر رکھی گئی ہے، کیا اس کا آئین بھی قرآن و حدیث کے عین مطابق نہیں ہونا چاہیئے۔؟ جب اس ملک خدا داد کو 14 اگست 1947ء میں ایک آزاد اور خود مختار "اسلامی جمہوریہ پاکستان" کے نام سے جداگانہ ریاست تشکیل دی گئی تو اسکا اصل مقصد اور ہدف صرف سڑکیں بنانا، بڑی بڑی بلڈنگیں، ہپستال، یونیورسیٹیاں، کارخانے اور دیگر ساز و سامان بنانا تھا تو ہندستان سے الگ ہونے کی کوئی خاص وجہ اور ضرورت بھی ہمیں نظر نہیں آتی ہے۔ ہمارے بزرگوں نے ایک نظریہ کی بنیاد پر دنیا کے نقشے پر اس ریاست کا خاکہ بنایا تھا کہ مملکت خدا داد کا آئین قرآن و حدیث کی رو سے ہو، یعنی  کسی کو اس کا حق دیا جائے تو بھی اسلامی قوانین کے مطابق ہو، اگر کسی سے کچھ لیا جائے تو بھی اسلامی قانون کی رعایت کرتے ہوئے اور اگر کسی کو سزا و جزا دینی ہو، تب بھی قوانین الٰہی کے دائرے میں رہ کر سزا و جزا متعین ہو۔

مگر چند سال سے غیر ملکی فنڈ پر پلنے والی کچھ این جی اوز کی محنت اور فنڈنگ سے مٹھی بھر اسلام دشمن، شرم و حیا سے عاری مفاد پرست عورتوں کو میدان میں اتارا ہے۔ جو "میرا جسم میری مرضی" کے نعرے، گندی تحریروں پر مشتمل پوسٹر، بینرز اور پلے کارڈ ہاتھ میں لیے سڑکوں پر نکل آتیں ہیں۔ کوئی بھی باشعور فرد خواہ وہ جتنا آزاد فکر اور آزاد خیال کیوں نہ ہو، وہ بھی یہ ہرگز نہیں چاہے گا کہ اس کی بیٹی کے ہاتھ میں اس طرح کے کارڈ ہوں اور مسلم معاشرے کو گناہ کی طرف دعوت دیتی پھرے۔ ملک کے قوانین اور شریعت محمدی میں ممانعت کے باوجود بھی اس کام کو عملی جامہ پہنانے میں کس کا ہاتھ ہے اور کون فنڈنگ کر رہا ہے، کیا ہمارے ریاستی اداروں کو اس کی تحقیق نہیں کرنی چاہیئے کہ کس کے ہاتھوں یہ آنٹیاں کھلونہ بنی ہوئیں ہیں۔

شوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور مختلف ٹی وی چینلز پر دیکھتے آرہے ہیں کہ مٹھی بر آنٹیاں "میرا جسم میری مرضی" کی بات ہی کر رہی ہیں۔ ان سے یہ سوال تو بنتا ہے کہ مرد حضرات کونسے آئین اور کونسے قوانین کی خلاف ورزی کر بیٹھے ہیں کہ جس کی وجہ سے یہ سراپا احتجاج کرنے پر مجبور ہیں اور کتنے عرصے سے ان کے حقوق پامال ہو رہے ہیں، جس کے حصول کیلے سڑکوں پر نکل پڑیں ہیں۔ ہمارا معاشرہ اسلامی معاشرہ ہے، میرا دین مجھے حیا ہی سکھاتا ہے۔ اسلام میں عورت کو جو مقام دیا گیا ہے، دنیا کے کسی دین میں نہیں۔ اللہ نے ماں کے "قدموں تلے جنت رکھ دی ہے۔" اسلام بیٹی کو رحمت اور بیٹے کو نعمت قرار دیتا ہے، بچوں کو ماں باپ کی آنکھوں کا نور، بیوی کو شوہر کی شریک حیات اور بہن کو بھائی کی آبرو  قرار دینے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے کی بھی تلقین کرتا ہے۔

ہر دین میں عورت کی ایک خاص پہچان ہوتی ہے اور اسلام میں عورت کی پہچان عفت و حیا ہے، اسلام عورت کو آزادی دیتا ہے، مگر آوراگی کی اجازت ہرگز نہیں دیتا ہے، اپنی مرضی نہیں اللہ کی مرضی کے مطابق چلنے کا حکم دیتا ہے۔ اس تحریک کا ہدف صرف اسلامی معاشرے کو بگاڑنا ہے۔ یہ لوگ مغریبی اور یورپی فرہنگ و ثقافت کو پاکستان میں بھی لانا چاہتے ہیں، ان کی بیک گروانڈ میں برطانیہ، امریکہ اور اسرائیل جیسے ممالک ہیں، جو قرآن و حدیث سے ہٹ کر پاکستان میں ایک نیا قانوں بنانے کے خواہش مند ہیں، جس میں آوارگی، بی حیائی اور فحاشی کی مکمل اجازت ہو۔ پاکیزہ ماں بہنوں کی عزت پامال ہو، ہر ایک کے لئے کھلی چھٹی ہو کہ جو مرضی میں آئے کرے۔ پاکستان میں ٹاک شو، سوشل میڈیا، فلم اور ڈراموں میں یہ دکھایا جا رہا ہے کی عورت کو مرد کے شانہ بشانہ ہونا چاہیئے، آزادی ملنی چاہیئے، عورت کو مظلوم اور محروم بناکر پیش کر دیا جاتا ہے۔

پاکستان میں اگر خواتین کو  آزادی حاصل نہیں ہے تو ایک خاتون دو بار کیسے وزیراعظم بن گئی۔؟ یہ عورتوں کے مردوں کے شانہ بشانہ ہونے کا منہ بولتا ثبوت نہیں ہے تو کیا ہے۔؟ پاکستان میں جس میدان میں مرد نے قدم رکھا ہے، ہر اس میدان میں عورتیں بھی موجود ہیں۔ پاکستان کے تمام اداروں میں خواتین اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ جہاں اسلام نے عورت کو برابری کا درجہ دیا ہے، وہاں اس کے لئے کچھ حدود بھی معین کی ہیں، اس کی پاسداری کرنا عورت پر فرض ہے۔ اسلام کی بیٹیاں یورپ میں حجاب کی جنگ لڑ رہی ہیں، مگر یہاں کچھ لوگ اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے "میرا جسم میری مرضی" جیسے ناپاک وائرس پھیلانے میں مصروف ہیں۔ یہ لوگ آزادی کے نام پہ سیکس فری زون بنانا چاہتے ہیں کہ جس کی وجہ سے یورپ میں پورا خاندانی نظام تباہ اور برباد ہوا ہے۔ امریکہ میں جنسی آزادی کی وجہ سے ہی 13 سے 19 سال کی 10 لاکھ بچیاں ریپ کا شکار ہوتی ہیں اور ان کے باپ کا کچھ پتہ نہیں ہوتا ہے۔

جس طرح میل جانور کی ذمہ داری فقط تولید نسل ہے، باقی تمام تر ذمہ داریاں ماں کی ہوتی ہیں، ایسا ہی سیکس فری ماحول میں ہوتا ہے۔ اسی طرح ان کی کوشش ہے کہ ہمارے ملک میں بھی یہ نحوست پھیلے، جس کی اسلام نے ممانعت کی ہے اور قرآن و حدیث و سیرت آئمہ اس چیز کی کبھی بھی اجارت نہیں دیتے ہیں۔ یورپ میں عورت کی کوئی حیثیت نہیں، اپنی منفعت کے حصول کے لیے اس کی تصویر سے پوسٹر چھپانا، نمائش اور مشہوری کے لئے لوگوں کی توجہ کو جلب کرنے کے لیے ہی استعمال ہوتی ہیں۔ لہذا میری اپیل ہے مسلمان ماں بہنوں سے کہ خدارا اس طرح کی سازش سے دور ہی رہیں اور اللہ رب العزت نے آپ کو جو عزت دی ہے، اس کی پاسداری کریں، تاکہ دنیا و آخرت میں سرخرو ہوں۔آمین
خبر کا کوڈ : 848715
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش