1
Friday 6 Mar 2020 23:54

عراق اور شام، تیزی سے بدلتے حالات

عراق اور شام، تیزی سے بدلتے حالات
تحریر: ڈاکٹر سعداللہ زارعی

گذشتہ چند دنوں کے دوران عراق اور شام میں دو بڑی سیاسی اور فوجی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ عراق میں نئی حکومت کی تشکیل مشکلات کا شکار ہو چکی ہے اور محمد توفیق علاوی کئی ہفتے مختلف سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کے بعد نئی کابینہ تشکیل دینے سے دستبردار ہو گئے ہیں جس کے نتیجے میں عراق کی سیاسی صورتحال مزید پیچیدہ ہو چکی ہے۔ دوسری طرف شام میں اس ملک کی مسلح افواج نے صوبہ حلب کے مغربی علاقوں اور صوبہ ادلب میں پیشقدمی کرتے ہوئے کئی شہروں اور دسیوں قصبوں کو تکفیری دہشت گرد عناصر کے قبضے سے آزاد کروا لیا ہے۔ اسی طرح شام کے صوبہ ادلب میں ترکی کی مسلح افواج بھرپور انداز میں سرگرم عمل ہو چکی ہیں اور اب تک شام آرمی، حزب اللہ لبنان اور ایران کے کئی فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنا چکی ہیں۔ ترکی نے مغربی ممالک کی حمایت حاصل کرنے کی بھی کوشش کی ہے تاکہ ان کی مدد سے صوبہ ادلب میں تکفیری دہشت گرد عناصر کے زیر قبضہ علاقے آزاد ہونے کا سلسلہ روک سکے لیکن اس بارے میں اسے کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ اس بارے میں دو اہم نکات قابل توجہ ہیں:

1)۔ عراق میں نئی حکومت کی تشکیل میں تعطل کی وجہ محمد توفیق علاوی کی یکہ تازی تھی۔ وہ پارلیمنٹ ور پارلیمانی پارٹیوں کو پس پشت ڈال کر نئی کابینہ تشکیل دینے کے درپے تھے۔ عراقی پارلیمنٹ نے نئے وزراء کے انتخاب کیلئے سو افراد پر مشتمل ایک فہرست توفیق علاوی کو دی تھی تاکہ وہ ان میں سے 22 افراد کا انتخاب کر لیں لیکن انہوں نے قبول نہیں کیا کیونکہ وہ اپنے تمام وزیر اپنی مرضی سے چننا چاہتے تھے۔ محمد توفیق علاوی پارلیمنٹ سے چاہتے تھے کہ ان کے انتخاب کردہ افراد کی بھرپور حمایت بھی کرے لہذا فطری طور پر پارلیمنٹ کی مخالفت سے روبرو ہوئے۔ دوسری طرف توفیق علاوی امریکی حکام سے قریبی رابطے میں تھے اور موصولہ رپورٹس سے ظاہر ہوتا تھا کہ امریکی حکام انہیں کٹھ پتلی کے طور پر استعمال کرنا چاہتے تھے۔ نئی کابینہ کی تشکیل میں محمد توفیق علاوی کی ناکامی سے ظاہر ہوتا ہے کہ عراق میں امریکی سفیر سے گٹھ جوڑ کر کے اس ملک میں حکومت تشکیل نہیں دی جا سکتی۔ محمد توفیق علاوی کے اقدامات عراق کے سیاسی دھڑوں کے درمیان بڑی دراڑ پیدا ہونے کا باعث بنے ہیں۔ عراق کی پارلیمنٹ میں کرد جماعتوں کی 55 سیٹیں ہیں۔ اسی طرح یہ بھی طے شدہ ہے کہ کابینہ میں شامل 22 وزراء میں سے تین وزیر کردوں کے ہوں گے۔ اس بار کردوں نے کابینہ میں اپنے وزیروں کی تعداد بھی بڑھانے کی کوشش کی اور نئی کابینہ تشکیل نہ پانے میں ان کے اس مطالبے کا بھی اہم کردار ہے۔

عراق میں صدر کا عہدہ تین وزارتوں کے برابر ہے۔ چونکہ قانون کے مطابق عراق کا صدر کرد ہوتا ہے لہذا کردوں کو حکومت میں بھی تین وزیر رکھنے کا حق فراہم کیا گیا ہے۔ لیکن محمد توفیق علاوی کی جانب سے کردوں کو چھ وزارت خانوں کا وعدہ دیے جانے کے باوجود وہ اس پر راضی نہ ہوئے اور کرکوک سے عراقی سکیورٹی فورسز کے انخلا اور اس شہر کو کرد حکام کے سپرد کرنے کا مطالبہ کرنے لگے۔ دوسری طرف شیعہ اور سنی سیاسی دھڑے کردوں کو تین سے زیادہ وزارت خانے دینے اور کرکوک شہر بھی کرد حکام کے سپرد کرنے کے مخالف تھے۔ لہذا توفیق علاوی سب کو راضی کرنے میں ناکام رہے۔ کردوں کی جانب سے ان مطالبات کے ساتھ ساتھ سنی سیاسی دھڑوں نے بھی نئے مطالبات پیش کرنا شروع کر دیے تھے۔ اس وقت طے شدہ معاہدے کے تحت سنی پارلیمانی پارٹی کے پاس چھ وزارت خانے ہیں۔ انہوں نے بھی توفیق علاوی سے آٹھ وزارت خانوں کا مطالبہ شروع کر دیا تھا۔ سنی اراکین پارلیمنٹ دو حصوں میں تقسیم ہو چکے تھے۔ بعض صالح مطلک کی سربراہی میں توفیق علاوی کے حامی جبکہ دیگر محمد حلبوسی کی سربراہی میں ان کے مخالف تھے۔ یوں محمد توفیق علاوی نصف سنی اراکین پارلیمنٹ سے زیادہ کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام ہو گئے تھے۔ مزید برآں شیعہ اراکین پارلیمنٹ بھی دو گروہوں میں بٹ گئے تھے۔ ایک گروہ ان کا حامی جبکہ دوسرا ان کا مخالف تھا۔

عراق کے پارلیمانی اتحاد البناء کے سربراہ ابو حسن عامری محمد
توفیق علاوی کے حامیوں کے سربراہ تھے۔ البتہ وہ بھی بعض اوقات توفیق علاوی کی جانب سے بغیر مشورے کے فیصلوں پر معترض دکھائی دیتے تھے۔ البتہ یہ گروہ حکومت کی تشکیل میں تاخیر روکنے کے سبب توفیق علاوی کی حمایت کے قائل تھے۔ اسی طرح یہ گروہ محمد توفیق علاوی سے اپنی حمایت کو سنی اور کرد دھڑوں کی حمایت سے مشروط کر رہا تھا کیونکہ صرف ایسی صورت میں ہی نئی کابینہ کی منظوری ممکن تھی۔ محمد توفیق علاوی کے مخالف شیعہ اراکین پارلیمنٹ کی سربراہی نوری مالکی کر رہے تھے۔ ان کی نظر میں محمد توفیق علاوی کی سیاسی پوزیشن کمزور تھی کیونکہ انہیں صرف ایک پارلیمانی پارٹی یعنی سائرون کی جانب سے چنا گیا تھا۔ اسی طرح ان کا خیال تھا کہ محمد توفیق علاوی کی حکومت عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کو یقینی نہیں بنا سکتی جبکہ عراقی پارلیمنٹ حال ہی میں اس بارے میں فیصلہ کن بل پاس کر چکی تھی۔ مزید برآں، ان کی نظر میں یہ حکومت کامیابی سے مڈٹرم الیکشن کروانے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتی تھی۔ مزید برآں، توفیق علاوی آیت اللہ العظمی سید علی السیستانی کا اعتماد حاصل کرنے میں بھی ناکام رہے تھے۔ توفیق علاوی نے آیت اللہ العظمی سید علی السیستانی کو خط لکھا تھا جس میں اپنے آئندہ منصوبوں اور پالیسیوں کی وضاحت کی تھی لیکن انہوں نے یہ خط پڑھے بغیر واپس بھیج دیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ توفیق علاوی کو وزارت عظمی کے عہدے کیلئے مناسب نہیں سمجھتے تھے۔

آیت اللہ العظمی سیستانی سمجھتے ہیں کہ چونکہ توفیق علاوی اسی نظام اور سیٹ اپ کی پیداوار ہیں جس نے گذشتہ وزرائے اعظم پیش کئے تھے لہذا وہ اس نظام میں موجود خرابیوں کو دور کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ لہذا عراق کی نئی حکومت اور کابینہ کی تشکیل میں درپیش رکاوٹوں اور چیلنجز کی دوری اقتدار میں شریک تمام قوتوں کے درمیان جامع اتفاق رائے کی شدید محتاج ہے۔ محمد توفیق علاوی کے تجربے سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہ تو امریکہ پر بھروسہ اور نہ ہی وزراء کا کسی پارٹی سے وابستہ نہ ہونے کی شرط نئ عراقی حکومت اور کابینہ کی تشکیل میں مددگار ثابت نہیں ہو سکتا۔ اگر عراق میں اقتدار کے مختلف حلقے ایک متفقہ راہ حل پر جمع نہ ہوں تو ان کے اور ملک کے مفادات شدید خطروں کا شکار ہو جائیں گے۔ اگر کرد سیاسی جماعتوں کا بغداد سے دور ہونے کا عمل روکا نہ گیا تو نئے تنازعات جنم لیں گے جس کے نتیجے میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور امریکہ عراق کے مغربی حصوں میں بھی مداخلت شروع کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف شیعہ موثر گروہوں کو نظرانداز کرنے کا نتیجہ مرکزی اور جنوبی صوبوں میں بدامنی کا باعث بن سکتا ہے۔ البتہ گذشتہ سولہ برس کے تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ عراق کے سیاسی رہنما آخرکار ایک درمیانے راہ حل تک پہنچ جائیں گے اور شرپسند عناصر اور پس پردہ غدار قوتوں کو اپنے ناپاک عزائم پورا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

2)۔  ترکی کی جانب سے شام آرمی، حزب اللہ لبنان کے ایک فوجی ٹھکانے اور ایران کے ایک فوجی مرکز کو نشانہ بنانے پر مبنی اقدام اور اس کے نتیجے میں بعض مجاہدین کی شہادت ہر چیز سے زیادہ اس کے ترکی کے مفادات کو خطرے میں ڈالنے کا باعث بن سکتا ہے۔ کیونکہ ترکی نہ تو نیٹو اور مغربی ممالک کی مدد پر بھروسہ کر سکتا ہے اور نہ ہی اس کی جانب سے ادلب میں موجود تکفیری دہشت گرد عناصر کی مدد اور حمایت موثر واقع ہو سکتی ہے۔ البتہ رجب طیب اردگان نے اپنی شمالی سرحدیں کھول کر مہاجرین کا سیلاب شروع کرنے کی دھمکی دے کر نیٹو کو شام میں اپنی فوجی مدد کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی ہے لیکن نیٹو کے فوجی سربراہان بخوبی اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ وہ شام میں فوجی نہیں بھیج سکتے۔ اسی طرح نہ صرف شام میں ہوائی حملوں کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ اس کا نتیجہ روس اور ایران کی جانب سے براہ راست ردعمل اور جوابی کاروائی کی صورت میں ظاہر ہو سکتا ہے۔ لہذا نیٹو اور مغربی ممالک نے میڈیا کی حد تک ادلب میں ترکی کی جانب سے جنگ بندی کی حمایت کرنے پر ہی اکتفا کیا ہے۔ دوسری طرف امریکہ کے تقریبا ایک ہزار فوجی
شام کے مشرقی حصوں میں پھنسے ہوئے ہیں جس کے باعث امریکی حکام نے بھی ترکی کی صرف سیاسی حمایت پر ہی اکتفا کیا ہے۔

دوسری طرف شام کے محاذ پر ترکی قانونی اور اخلاقی اعتبار سے بھی انتہائی کمزور پوزیشن کا حامل ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ شام میں ترک فوجیوں کی موجودگی ترکی کا قانونی حق ہے۔ ان کی مراد وہ مذاکرات ہیں جو پہلی عالمی جنگ کے بعد سوئٹزرلینڈ کے شہر لوزان میں انجام پائے تھے اور اس میں جنگ کے فاتحین نے ترکی کی حدود طے کی تھیں البتہ یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ ان مذاکرات میں کوئی معاہدہ طے نہیں پایا تھا۔ رجب طیب اردگان کا دعوی ہے کہ ادلب اور شام کے دیگر شمالی علاقے ترکی کا حصہ ہیں۔ وہ اس حقیقت سے غافل ہیں کہ پہلی عالمی جنگ کے اختتام اور سلطنت عثمانیہ کی وراثت کی تقسیم کو ایک صدی کا عرصہ بیت چکا ہے جبکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد نئے انتظامات بھی معرض وجود میں آئے تھے۔ دوسری طرف اخلاقی اعتبار سے بھی رجب طیب اردگان کا موقف بہت کمزور ہے۔ ترکی اس وقت شام میں تکفیری دہشت گرد عناصر کی صف میں کھڑا ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا نہیں جو ان تکفیری دہشت گرد عناصر کے غیر قانونی ہونے میں ذرہ برابر شک رکھتا ہو۔ حتی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بھی انہیں دہشت گرد قرار دے چکی ہے اور خود رجب طیب اردگان بھی سوچی اور آستانہ مذاکرات میں شام کے صوبہ ادلب میں موجود دہشت گرد عناصر کو کسی قسم کی ڈیل اور مذاکرات کے قابل نہ ہونے کی تصدیق کر چکے ہیں۔

تقریبا ایک سال پہلے آستانہ مذاکرات کے اختتام پر رجب طیب اردگان کے پاس صوبہ ادلب کو دہشت گرد عناصر سے پاک کر کے جنگ کے بغیر پرامن طریقے سے شام حکومت کی تحویل میں دینے کا موقع موجود تھا۔ انہوں نے آستانہ مذاکرات میں روس سے یہی معاہدہ کیا تھا اور اس پر دستخط بھی کئے تھے لیکن اب انہی تکفیری دہشت گرد عناصر سے مل کر شام آرمی کے خلاف فوجی کاروائیاں کر رہے ہیں۔ وہ اس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے تکفیری دہشت گرد گروہوں النصرہ فرنٹ اور تحریر الشام کا دفاع کرنے میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف انہیں شام، روس اور ایران سے یہ بھی توقع ہے کہ ان کے جاہ طلبانہ اہداف کے سامنے سرتسلیم خم ہو جائیں۔ روس نے انتہائی واضح انداز میں صوبہ ادلب اور صوبہ حلب کے مغربی علاقوں میں فوجی آپریشن کے ذریعے اپنے علاقے تکفیری دہشت گرد عناصر سے آزاد کروانے پر مبنی شام کے حق کو تسلیم کیا ہے۔ ایران نے بھی ترکی کی جانب سے نقصان برداشت کرنے کے باوجود شام کے اس حق کی تصدیق کی ہے کہ وہ شمالی علاقوں میں النصرہ فرنٹ سے وابستہ دہشت گرد عناصر کے خلاف فوجی طاقت استعمال کر سکتا ہے۔

ایران ہر گز ترکی سے ٹکراو نہیں چاہتا اور ترکی سے اپنے دوستانہ تعلقات پر آنچ آنا پسند نہیں کرتا۔ لہذا ایران نے شام میں اپنے ٹھکانے پر ترکی کے حالیہ حملے کا جواب بھی نہیں دیا ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران اپنے فوجیوں کا مزید نقصان برداشت نہیں کر سکتا اور ایسی صورت میں اسے نظرانداز نہیں کرے گا۔ لہذا شام میں ایرانی فوجی کمانڈرز نے ایک بیانیہ جاری کر کے اس ملک میں ترک فوجی کمانڈروں کو خبردار کیا ہے۔ ترکی سوچی اور آستانہ مذاکرات میں طے ہونے والے امور سے رویگردانی کر کے شام، ایران اور روس کو نئی صورتحال قبول کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ کیونکہ ایسی صورت میں شام میں دہشت گرد عناصر کو باقی رہنے اور اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی کھلی چھٹی مل جائے گی۔ اسی طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنے اختتامی اور فیصلہ کن مرحلے پر ادھورا چھوڑنے سے پورا خطہ خطرے کی زد میں آ سکتا ہے۔ اس طرح شام، عراق اور لبنان ایک بار پھر تکفیری دہشت گردی کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔ دوسری طرف شام آرمی اب اس قدر طاقتور ہو چکی ہے کہ اسے اپنے باقیماندہ علاقے دہشت گرد عناصر کے قبضے سے چھڑوانے کیلئے اپنے اتحادی ممالک کی مدد کی ضرورت بھی نہیں رہی۔ جیسا حالیہ چند ہفتوں کے دوران شام آرمی نے صوبہ حلب کے مغربی علاقوں اور صوبہ ادلب میں بہت اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 848831
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش