0
Saturday 7 Mar 2020 23:52

اسلام میں دنیا کا تصور

اسلام میں دنیا کا تصور
تحریر: حجت الاسلام والمسلمین داعی نژاد

دنیا کے بارے میں مذہبی پیشواوں کی سیرت کی درست وضاحت اور بیان خاص طور پر ان کے فرامین پر توجہ کرنے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ وہ مطلق طور پر دنیا کی مخالفت نہیں کرتے تھے۔ اپنے مدعا کو مزید واضح کرنے کیلئے پہلے دنیا کے مفہوم کی وضاحت کریں گے اور اس کے بعد آخرت سے اس کی نسبت کا جائزہ لیں گے۔ شہید مرتضی مطہری رحمہ اللہ علیہ دنیا کے مفہوم کے بارے میں فرماتے ہیں: "دنیا کا لفظ ممکن ہے "دنو" کے مادے سے لیا گیا ہو جسکا معنی قرب اور نزدیک ہونا ہے اور ممکن کے "دنی" کے مادے سے ہو جسکا معنی پست ہونا ہے۔ اگر "دنو" سے ہو تو اس کا مطلب یہ موجودہ زندگی ہو گا جو ہم سے زیادہ نزدیک ہے اور آخرت کا مطلب وہ زندگی ہو گا جو ہم سے زیادہ دور ہے۔ لیکن اگر دنیا کا لفظ "دنی" کے مادے سے ہو تو اس کا مطلب یہ زندگی ہو گی جو دوسری قسم کی زندگی سے زیادہ پست اور گھٹیا ہے جبکہ آخرت کی زندگی اعلی اور برتر زندگی ہو گی۔" وہ مزید فرماتے ہیں:"اسلامی تصور کائنات کی رو سے دنیا اور آخرت، غیب اور شہادت کی مانند دو مطلق مفاہیم ہیں اور اضافی نہیں۔ قرآن کریم کی تعبیر کے مطابق ان میں سے ہر ایک علیحدہ دنیا ہے۔ وہ چیز جو اضافی ہے وہ دنیوی کام اور اخروی کام ہے۔ یعنی اگر ایک کام نفس پرستی کی خاطر انجام دیا جائے تو وہ دنیوی کام ہو گا جبکہ اگر وہی کام خدا اور رضائے الہی کی خاطر انجام پائے تو اخروی کام قرار پائے گا۔" (آشنایی با قرآن، جلد 1 و 2، صفحہ 138)
 
مذہبی پیشواوں کے فرامین میں بھی ملتے جلتے مطالب بیان کئے گئے ہیں۔ مذہبی پیشواوں کی نظر میں دنیا ہر حال میں قابل مذمت نہیں۔ ایک شخص امیرالمومنین علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور دنیا کی مذمت شروع کر دی۔ اس نے سن رکھا تھا کہ امام علی علیہ السلام دنیا کی مذمت کرتے ہیں اور وہ گمان کرتا تھا کہ وہ مادی دنیا کی مذمت کرتے ہیں۔ اسے علم نہ تھا کہ امام علی علیہ السلام تو دنیا پرستی کی مذمت کرتے ہیں جو حق پرستی اور حقیقت پرستی کے مخالف ہے اور تمام انسانی اقدار کی نفی کرنے کے مترادف ہے۔ جب اس شخص نے دنیا کی مذمت کی تو امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
أَيُّهَا الذَّامُّ لِلدُّنْيَا الْمُغْتَرُّ بِغُرُورِهَا- [الْمُنْخَدِعُ‏] الْمَخْدُوعُ بِأَبَاطِيلِهَا أَ [تَفْتَتِنُ‏] تَغْتَرُّ [بِهَا] بِالدُّنْيَا ثُمَّ تَذُمُّهَا أَنْتَ الْمُتَجَرِّمُ عَلَيْهَا أَمْ هِيَ الْمُتَجَرِّمَةُ عَلَيْكَ مَتَى اسْتَهْوَتْكَ أَمْ مَتَى غَرَّتْكَ أَ بِمَصَارِعِ آبَائِكَ مِنَ الْبِلَى أَمْ بِمَضَاجِعِ أُمَّهَاتِكَ تَحْتَ الثَّرَى‏
ترجمہ: "اے دنیا کی مذمت کرنے والے شخص، اے وہ جو دنیا کے فریب میں مبتلا ہو چکا ہے اور اس کے جھوٹے جلووں سے دل باندھ چکا ہے، کیا تو دنیا کا عاشق بھی ہے اور اس کی مذمت بھی کرتا ہے؟ کیا تو نے دنیا پر ظلم کیا ہے یا دنیا نے تجھ پر ظلم کیا ہے؟ کب دنیا نے تمہاری کھوپڑی سے عقل کو چرا لیا اور تمہیں فریب دے دیا؟ کیا وہاں سے تمہیں فریب دیا ہے جہاں تمہارے اجداد سوئے ہوئے ہیں اور ان کا بدن گل سڑ رہا ہے یا وہاں سے جہاں تمہاری مائیں ٹھنڈی مٹی پر سو رہی ہیں؟"
اس کے بعد امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
الدنیا مَسْجِدُ أَحِبَّاءِ اللَّه‏؛  وَ مَتْجَرُ أَوْلِيَاءِ اللَّه‏
ترجمہ: "دنیا اولیاء الہی کی مسجد ہے اور ان کی تجارت کی جگہ ہے۔"
لہذا جو چیز قابل مذمت ہے وہ دنیا کے فریب میں اور اس کا عاشق ہو جانا ہے، اور دنیا کو خدا کی عبادت اور خدا سے تجارت کی جگہ قرار دینا قابل مذمت نہیں۔
وَ لَنِعْمَ دَارُ مَنْ لَمْ يَرْضَ بِهَا دَارا
ترجمہ: "دنیا اچھا گھر ہے لیکن اس کیلئے جو اسے اپنا ہمیشگی گھر نہ سمجھے۔"
الدُّنْيَا دَارُ مَجَازٍ وَ الْآخِرَةُ دَارُ قَرَارٍ فَخُذُوا مِنْ مَمَرِّكُمْ لِمَقَرِّكُم‏
ترجمہ: "دنیا عارضی ٹھہراو کی جگہ ہے جبکہ آخرت اصلی گھر ہے، پس عارضی ٹھہراو کی جگہ سے اپنے ہمیشگی گھر کیلئے زاد راہ مہیا کرو۔

مذموم دنیا سے کیا مراد ہے؟
دنیا سے جذباتی لگاو مذموم نہیں کیونکہ انسان عالم خلقت کے کلی نظام میں جذبات، قلبی لگاو اور رجحانات کے ایک سلسلے کے ہمراہ خلق ہوا ہے اور وہ جو انسان کی تقدیر کا حصہ ہیں، اضافی اور فالتو نہیں۔ انسان میں پائے جانے والے تمام فطری احساسات اور رجحانات اس کے حکیمانہ اہداف اور غایات کی روشنی میں ہیں۔ قرآن کریم ان جذبات کو الہی آیات قرار دیتا ہے:
وَ مِنْ ءَايَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكمُ مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُواْ إِلَيْهَا وَ جَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَ رَحْمَةً  إِنَّ فىِ ذَالِكَ لاََيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُون‏ (سورہ روم، آیت 21)
ترجمہ: "اور اس کی نشانیوں (آیات) میں سے ہے کہ اُس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس کی عورتیں پیدا کیں تاکہ اُن کی طرف (مائل ہوکر) آرام حاصل کرو اور تم میں محبت اور مہربانی پیدا کر دی جو لوگ غور کرتے ہیں اُن کے لئے ان باتوں میں (بہت سی) نشانیاں ہیں۔"
یہ جذبات انسان اور کائنات کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہیں اور ان کے بغیر انسان اپنے کمال کا راستہ طے نہیں کر سکتا۔ اسلام کی منطق بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ دنیا یا یہ جذبات مذموم قرار پائیں اور انبیاء اور اولیاء الہی میں بھی یہ جذبات اعلی حد تک موجود تھے۔ لہذا دنیا سے لگاو سے مراد قدرتی اور فطری رجحانات نہیں بلکہ اس سے مراد مادی اور دنیوی امور سے چپک جانا اور ان کی غلامی اختیار کر لینا ہے اور اسی کو دنیا پرستی کہا جاتا ہے جس کے خلاف اسلام میں شدید موقف اپنایا گیا ہے۔
 
زہد اور رہبانیت میں فرق
جیسا کہ بیان ہوا، اگر دنیوی امور آخرت کیلئے انجام دیئے جائیں تو وہ دنیا پرستی کے زمرے میں نہیں آتے بلکہ دنیا کی خاطر دنیوی امور انجام دینا حب دنیا شمار ہوتی ہے اور اسی کے بارے میں امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا:
حبّ الدنیا راس کل خطیئہ۔ ترجمہ: "حب دنیا تمام خطاوں کی جڑ ہے۔"
اسلام میں زہد کی جانب ترغیب دلائی گئی ہے جبکہ رہبانیت کی مذمت کی گئی ہے۔ زاہد اور راہب دونوں دنیوی نعمتوں اور لذت حاصل کرنے سے گریز کرتے ہیں، لیکن راہب معاشرے سے دوری اختیار کرتے ہوئے اپنی اجتماعی ذمہ داریوں سے بھی دور بھاگتا ہے اور انہیں دنیا کے پست اور مادی امور تصور کرتا ہے اور پہاڑوں اور عبادتگاہوں میں پناہ حاصل کر لیتا ہے۔ لیکن زاہد معاشرے، اس کے معیاروں، نظریات، ذمہ داریوں اور مسئولیتوں پر توجہ دیتا ہے۔ زاہد اور راہب دونوں آخرت پر توجہ دیتے ہیں، لیکن زاہد آخرت کے ساتھ ساتھ معاشرے پر بھی توجہ دیتا ہے جبکہ راہب آخرت پر توجہ دیتا ہے لیکن معاشرے سے گریز کرتا ہے۔ لذت سے دوری اختیار کرنے میں بھی دونوں ایک حد تک نہیں ہیں۔ راہب، صحت، صفائی، طاقت اور شادی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے لیکن زاہد حفظان صحت، صفائی کا خیال رکھنے اور شادی کرنے اور بچے پالنے کو اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے۔ زاہد اور راہب دونوں تارک دنیا ہیں لیکن وہ دنیا جسے زاہد ترک کرتا ہے دنیوی نعمتوں، خوبصورتیوں اور لذتوں میں غرق ہونا اور ان امور کو مطلوبہ کمال تصور کرنا ہے جبکہ راہب جس چیز کو ترک کرتا ہے وہ اجتماعی مسئولیت، ذمہ داری اور فعالیت ہے۔

یہی وجہ ہے کہ زاہد، راہب کے برعکس، زندگی اور اجتماعی تعلقات میں موجود رہتا ہے۔ زہد نہ صرف اجتماعی مسئولیت اور ذمہ داری اور معاشرے میں رہنے سے تنافی نہیں رکھتا بلکہ فرائض اور ذمہ داریوں کو ادا کرنے کیلئے مناسب ذریعہ بھی ہے۔  زاہد اور راہب کے اسلوب میں اختلاف کا منشا ان دونوں کے تصور کائنات میں فرق میں پوشیدہ ہے۔ راہب کی نگاہ میں دنیا اور آخرت مکمل طور پر ایکدوسرے سے جدا ہیں اور دنیوی سعادت کا اخروی سعادت سے کوئی تعلق نہیں اور یہ دونوں ایکدوسرے سے متضاد ہیں۔ دنیوی سعادت کے ذرائع اخروی سعادت کے ذرائع سے مختلف ہیں اور ممکن نہیں ایک ذریعہ یا ایک کام دنیوی سعادت کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ اخروی سعادت کا بھی باعث بن جائے۔ لیکن زاہد کے تصور کائنات کی رو سے دنیا اور آخرت ایکدوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ زاہد کی نگاہ میں دنیوی زندگی میں اخروی معیاروں کا داخل ہونا دنیا کی ترقی، رونق، سیکورٹی، اطمینان اور بہتری کا باعث بنتا ہے۔ اور اخروی سعادت حاصل کرنے کیلئے اس دنیا میں مسئولیتیں اور ذمہ داریاں اچھی طرح انجام دینا ضروری ہے اور اسی طرح دنیوی زندگی کا ایمان، پاکیزگی، طہارت اور تقوا کے ہمراہ ہونا بھی ضروری ہے۔
 
مذہبی پیشوا اور دنیا
قابل مذمت دنیا کا تصور اور رہبانیت اور زہد کے درمیان فرق واضح ہو جانے کے بعد اب مذہبی پیشواوں کی سیرت اور فرامین کے ایسے چند نمونے پیش کرتے ہیں جس دنیا کے بارے میں ان کا نقطہ نظر ظاہر ہو جائے گا۔ ہمارا مقصد اس حقیقت کو ثابت کرنا ہے کہ دنیا سے دل لگانا اور اسے اپنا مقصد بنانا مذموم فعل ہے نہ یہ کہ دنیا سے استفادہ کیا جائے اور دنیوی و اخروی سعادت اور فلاح و بہبود کیلئے دنیوی امور انجام دیئے جائیں۔  ابو عمرو شیبانی کہتے ہیں: "میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو ایسی حالت میں دیکھا کہ انہوں نے انتہائی کھردرے کپڑے کا لباس پہن رکھا تھا اور بیلچہ سے کھیت میں کام کرنے میں مصروف تھے اور ان کا بدن پسینے سے شرابور تھا۔ میں عرض کی: میں آپ کے صدقے جاوں، بیلچہ مجھے دے دیجئے اور اجازت دیں میں آپ کی جگہ کام کروں۔ انہوں نے جواب دیا: میں زندگی کے اخراجات پورا کرنے کیلئے تپتی دھوپ میں گرمی برداشت کرنا پسند کرتا ہوں۔" (اصول کافی، جلد 5، صفحہ 74) اسی طرح عبدالاعلی (امام جعفر صادق علیہ السلام کا ایک صحابی) کہتا ہے: "میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو ایسی حالت میں دیکھا کہ وہ گرمیوں کے ایک تپتے دن میں مدینہ کی گلیوں سے باہر جا رہے تھے تاکہ کوئی محنت مزدوری کر سکیں۔ میں نے عرض کی: میں آپ کے صدقے جاوں، آپ خدا کے حضور عظیم رتبہ ہونے کے باوجود اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے خونی رشتہ ہونے کے باوجود اس شدید گرمی میں خود کو مشقت میں ڈال رہے ہیں؟ امام جعفر صادق علیہ السلام نے جواب دیا: میں پیسے کمانے باہر آیا ہوں تاکہ تم جیسے لوگوں سے بے نیاز ہو سکوں۔" (اصول کافی، جلد 5، صفحہ 75)
 
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک بار سفر کے دوران اپنے ساتھیوں کو حکم دیتے ہیں کہ وہ بھیڑ ذبح کریں۔ اصحاب میں سے ایک نے عرض کیا: اسے ذبح کرنا میرے ذمے۔ ایک اور صحابی نے کہا: اس کی کھال اتارنا میرے ذمے۔ تیسرے نے کہا: میں اسے پکاوں گا۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: "آگ جلانے کیلئے لکڑیاں اکٹھا کرنا میرے ذمے۔ اصحاب بول پڑے: یا رسول اللہ (ص)، ہم خدمت کیلئے حاضر ہیں، ہم لکڑیاں اکٹھی کر لیں گے، آپ تکلیف نہ کریں۔ آپ (ص) نے فرمایا: مجھے معلوم ہے، لیکن میں نہیں چاہتا خود کو آپ پر برتر جانوں۔" (منتھی الآمال، جلد 1، صفحہ 18) امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: "عبادت کے ستر (۷۰) حصے ہیں، جن میں سب سے زیادہ افضل حصہ حلال رزق کمانا ہے۔ " وسائل الشیعہ، جلد 17، صفحہ 21) امام محمد باقر علیہ السلام ایک اور جگہ فرماتے ہیں: "جو کوئی بھی لوگوں سے بے نیاز ہونے اور اپنے گھر والوں کی ضروریات پورا کرنے کیلئے اور ہمسائے سے نیکی کرنے کی غرض سے دنیا حاصل کرنے کی کوشش کرے گا قیامت کے دن خدا سے ایسی حالت میں ملاقات کرے گا کہ اس کا چہرہ چودہویں کی رات کے چاند جیسا چمک رہا ہو گا۔ (وسائل الشیعہ، جلد 17، صفحہ 21) اسی طرح امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: "ایک شخص نے حضرت علی علیہ السلام کو ایسی حالت میں دیکھا کہ وہ گدھے پر سوار تھے اور کھجور کی گھٹلیوں کی بڑی بوری بھی اس پر لاد رکھی تھی اور صحرا کی جانب جا رہے تھے۔ اس شخص نے پوچھا: اس بوری میں کیا ہے؟ امام علی علیہ السلام نے جواب دیا: اگر خدا چاہے تو ایک لاکھ کھجور کے درخت ہیں۔ آپ علیہ السلام صحرا گئے اور بڑی مشقت سے ان گھٹلیوں کو زمین میں بویا اور ان کی دیکھ بھال کی اور آہستہ آہستہ وہ پودے میں تبدیل ہو گئیں اور اس طرح ایک لاکھ کھجور کے درختوں پر مشتمل ایک بڑا باغ معرض وجود میں آ گیا۔
 
مذکورہ بالا مطالب میں دنیا سے انسان کے شخصی اور فردی رابطے پر توجہ دی گئی ہے لیکن اجتماعی پہلو سے دیکھا جائے تو دنیوی امور کی انجام دہی میں کوشش اور محنت کی اہمیت کئی گنا زیادہ ہے۔ اسلامی حکومت کی طاقت برقرار رکھنے کی ضرورت اس بات کی تقاضامند ہے کہ اسلامی معاشرہ اقتصاد کے میدان میں بھی اس قدر طاقتور ہو کہ اولاً غیروں پر اس کا انحصار بالکل نہ ہو، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے:
وَ لاٰ تَرْكَنُوا إِلَى اَلَّذِينَ ظَلَمُوا (سورہ ہود، آیت 113)
ترجمہ: "اور جو لوگ ظالم ہیں، ان کی طرف مائل نہ ہونا۔"
لَنْ يَجْعَلَ اَللّٰهُ لِلْكٰافِرِينَ عَلَى اَلْمُؤْمِنِينَ سَبِيلاً (سورہ نساء، آیت 141)
ترجمہ: " خدا کافروں کو مومنوں پر ہرگز غلبہ نہیں دے گا۔"
يٰا أَيُّهَا اَلَّذِينَ آمَنُوا لاٰ تَتَّخِذُوا اَلْكٰافِرِينَ أَوْلِيٰاءَ مِنْ دُونِ اَلْمُؤْمِنِينَ (سورہ نساء، آیت 144)
ترجمہ: "اے اہل ایمان! مومنوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بناؤ۔"
اور ثانیاً اسلام دشمن قوتیں اقتصادی محاصرہ اور مشابہہ ہتھکنڈوں کے ذریعے اسلامی معاشروں کو آزار و اذیت اور نقصان نہ پہنچا سکیں، نیز وہ ہمیشہ اسلامی حکومت کی طاقت سے خوف و ہراس کی حالت میں رہیں۔

ارشاد خداوندی ہوتا ہے:
وَ أَعِدُّوا لَهُمْ مَا اِسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَ مِنْ رِبٰاطِ اَلْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اَللّٰهِ وَ عَدُوَّكُمْ (سورہ انفال، آیت 60)
ترجمہ: "اور جہاں تک ہوسکے (فوج کی جمعیت کے) زور سے اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے ان کے (مقابلے کے) لیے مستعد رہو کہ اس سے خدا کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں اور ان کے سوا اور لوگوں پر جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ہیبت بیٹھی رہے گی۔"
اور ثالثاً محروم قوموں کی مدد کر کے انہیں بھی کس مپرسی اور بیچارگی سے نجات دلائی جا سکے اور ان کے قلوب کو اسلام سے بھی آشنا کروایا جا سکے:
إِنَّمَا اَلصَّدَقٰاتُ لِلْفُقَرٰاءِ وَ اَلْمَسٰاكِينِ وَ اَلْعٰامِلِينَ عَلَيْهٰا وَ اَلْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ (سورہ توبہ، آیت 60)
ترجمہ: "صدقات (یعنی زکوٰة وخیرات) تو مفلسوں اور محتاجوں اور کارکنان صدقات کا حق ہے اور ان لوگوں کا (غیر مسلم) جنکے دلوں کو اپنی طرف مائل کرنا مقصود ہے۔"
اسی بنیاد پر ائمہ معصومین علیہم السلام خود بھی دنیوی امور انجام دیتے تھے اور عوام کو بھی دنیوی ضروریات پوری کرنے کی ترغیب دلاتے تھے۔
خبر کا کوڈ : 849052
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش