1
Tuesday 10 Mar 2020 01:10

عورت مارچ یا سیڈومیسوکزم۔ پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو خطرہ (2)

عورت مارچ یا سیڈومیسوکزم۔ پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو خطرہ (2)
تحریر و تحقیق: مجتبیٰ ہمدانی

گذشتہ سے پیوستہ
یہ موضوع اگرچہ ہمارے مسلم معاشرے کے حوالے سے نامناسب ہے اس لیے میں اس کی بہت زیادہ تفصیلات میں نہیں جانا چاہوں گا ۔ مغرب کی بے حیاء، بد لحاظ اور ناشائستہ تہذیب میں ادبی طرز literary style پر اس سیکس فلاسفی پر ڈیبیٹ کھلے عام کی جاتی ہے جس میں تمام گھٹیا جنسی رویے آسانی کے ساتھ زیر بحث لائے جاتے ہیں اور انکا مقصد دراصل سیکس کے نام پر ہر سیاہ، حیوانی اور غیر فطری کالے کرتوتوں کو قانونی شکل فراہم کرنا ہے جبکہ اصل میں سیکسں کو لذت کی فلسفی تعبیر دے کر ہر قانون سے آزاد کرنا ہے۔ یہی چیز سیڈومیسوکزم کہلاتی ہے۔ خود مغرب کے سماجی فلاسفرز سیڈومیسوکزم کو ایسے قانونی فعل سے تعبیر کرتے ہیں جس پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا اور اگر اس حیوانی شہوت (بقول مغرب لذت) پر قانون لاگو کر دیا گیا تو یہ حقوق نسواں کے ساتھ ساتھ حقوق بچگان، حقوق مردان المختصر تمام حقوق بشر کے بھی خلاف ہے

خوش قسمتی ہمارا معاشرہ ان ابحاث کا متحمل نہیں ہے اور ہونا بھی نہیں چاہیے۔ یہ بحثیں اس اسلامی و علاقائی اقدار سے مزین و مہذب معاشرے میں ممنوع ہونی چاہیں۔ اسلیے میں بھی باریکیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے اس آرٹیکل پر ممکنہ نقد کا جواب دیتے ہوئے گزارشات تمام کروں گا اور وہ یہ کہ رابن سٹیونسن جیسی رائٹرز جس نے مائی باڈی مائی چوائس کا نعرہ دیا ایک  مغربی فلسفہ پرداز ہے وہ تو feminism کی علمبردار ہیں، اسلیے اس عورت مارچ کو سیڈومیسوکزم سے ملانا غلط ہے۔ جواباً عرض ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ اصل ہدف سیکس کو ہر طرح کے سماجی، سیاسی اور اخلاقی اصول و قانون سے آزاد کرنا ہے اور یہ ہی فکر اپنی حقیقت، اصلیت و ماہیت میں فلاسفی آف سیڈومیسوکزم کہلاتی ہے۔

انہی مغربی حلقوں میں یہ گرما گرم بحث رہی ہے اور جس پر ہزاروں آرٹیکلز اور کتابیں لکھ ڈالی گئی ہیں کہ خواتین کے حقوق کا مغربی فلسفہ جسکو فیمنیزم سے تعبیر کیا جاتا ہے وہ سیڈومیسوکزم سے پھوٹا ہے یا ان کے درمیان مطابقت ہے کہ نہیں اور دونوں طرف سے بھرپور دلائل دیئے گئے نتیجے میں فیمنیزم کی مختلف کٹیگریز لبرل، کنزرویٹو وغیرہ وغیرہ بنا لی گئیں مگر حقیقت میں ہر پست فکر جس نتیجہ سفلی و حیوانی پر پہنچی اسکا خلاصہ قید سے آزاد سیکس اور اپنی مرضی کے مطابق اپنی شہوت کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ ہمیں غور کرنا چاہیے کہ دراصل یہ تمام اصطلاحات، سلوگنز، نعرے اور نظریات مغرب کی بے باک اور بد لحاظ سوسائٹی سے جڑے ہیں جو لا محالہ فری سیکس کی آئیڈیالوجی کی کوکھ سے پروان چڑھتے چلے آ رہے ہیں اور ان سب کا پدر یا گاڈ فادر یہی مارکیس ڈیسادے ہے۔

جس کو آج بھی مغربی فلاسفہ سیریل rapist لکھتے ہیں اور جسکی اپنی فیملی بشمول اس کی زوجہ کے اس کے سیاہ ترین حیوانی کاموں میں اس کی معاون کار تھیں ایسا شخص جو مرنے کے وقت 74 سال کی عمر میں چودہ سالہ لڑکی کے ساتھ مراسم رکھے ہوئے تھا۔  ہم جنس پرستی، وحشیانہ پن، حیوانی سیکس اور ہر تصور سے باہر جنسی رویے کو ڈیسادے نہ صرف انجام دیا بلکہ اسکو قانونی بھی گردانا۔ اسکے لیے تحریک شروع کی، کتابیں لکھیں۔ آج مغربی تہذیب ایک ایسے گھٹیا ترین اور بد فطرت شخص کو ایک فلسفی کی نگاہ سے نہ صرف دیکھتی ہے بلکہ اس کی تعلیمات کو نشر کیا جاتا ہے اور اسے سماجی رویوں کے فلسفے کے ایک بڑے استاد کے طور پر پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے۔ مغرب کے تمام نظریہ پرداز اور سماجی فلاسفہ ڈیسادے کے آزاد سیکس کے فلسفے سے متاثر ہیں۔ یہ مختلف نعروں، تعبیروں، ناموں اور شکلوں کے ساتھ منظر عام پر آتے رہتے ہیں مگر انکی فکر ڈیسادے کے آزاد سیکس کے فلسفے سے مغلوب ہے اور مائی باڈی مائی چوائس کا پروچوائس نظریے کا گاڈفادر بھی اسرائیلی و مغربی محقیقین اور تجزیہ نگاروں کے نزدیک یہی ڈیسادے ہے (دیکھیے اس مقالے کی قسط اول)۔

اس لیے ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ عورت مارچ کی اس موومنٹ کے تانے بانے امریکہ و اسرائیل اور اسلام دشمن قوتوں کے ساتھ ملتے ہیں اور حقوق نسواں کے ضمن میں اس کو برداشت نہیں کیا جا سکتا بلکہ اسکے لیے پاکستانی اسلامک فورمز ہونے چاہیں۔ آخری بات کہ پاکستان ایک تھیوکریٹیکل سٹیٹ ہے جسکی ماہیت و نظریہ خود دین اسلام ہے۔ ایک ایسی ریاست کسی بھی ایسی تحریک کو پنپنے دے سکتی ہے اور نہ ہی برداشت کر سکتی ہے جس کے نتیجے میں ضرب اسلام پر آئے اور اسلامی اقدار کو روندا جائے۔ اگر آج کوئی اس بات پر احتجاج کرے کہ اسے نعوذباللہ توہین رسالت کی اجازت چاہیے اور توہین کو آزادی رائے میں قانونی کیا جائے تو کیا پاکستانی ریاست ایسی کسی موومنٹ کو سٹرکوں پر آنے کی اجازت دے گی؟ تو ایسے مارچز جو اسلام دشمن قوتوں کے تائید شدہ ہیں اور اسلامک فلسفے کے برخلاف مغربی سفلی سماجی رویوں کو پروان چڑھانے کی تحریک ہیں انکو کس قانون کے تحت اجازت دی گئی ہے؟۔

میرا جسم میری مرضی جیسا نعرہ جسکا مغرب میں صاف صاف مطلب پہلے مرحلے میں اسقاط حمل کا قانونی ہونا ہے (حوالہ: روبن سٹیونسن کی کتاب مائی باڈی مائی چوائس) اور آگے چل کر شہوت رانی میں ہر حد کو پار کر جانا ہے، کیوں ایسے پلید نعرے کو پاک سرزمین پر بلند ہونے کی اجازت بھی دی گئی ہے؟۔ ہم ریاست سے گزارش کریں گے کہ سماجی سائینسز پر مشتمل تھنک ٹینکس اور تحقیقاتی ادارے بنائے جائیں جو ملک کی اسلامی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی خاطر ہر اس عمل پر نگاہ کریں جو اسلام کے مفاد میں نہیں اور اس پر علمی دلائل قائم کرے تاکہ ہماری عدالتوں کو بھی فیصلہ سازی میں آسانی ہو۔
ختم شد۔۔۔
خبر کا کوڈ : 849175
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش