0
Tuesday 10 Mar 2020 12:42

یہ افغانستان میں کیا ہو رہا ہے؟

یہ افغانستان میں کیا ہو رہا ہے؟
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

کابل جو کہانیوں کا شہر تھا جس کی خوبصورتی کی مثالیں ہندوستان بھر میں دی جاتی تھیں۔جہاں کے لوگ دلیر و حریت پسند تھے،جہاں برطانوی استعمار اپنی تمام طاقت اور وسائل استعمال کرنے کے باوجود قبضہ نہیں کر سکا تھا۔اس خوبصورت شہر کے ایوان صدر میں  افغان صدر کی تقریب حلف برداری جاری ہے اتنے میں دھماکوں کی آوازیں آنے لگتی ہیں اور بھگدڑ مچ جاتی ہے۔ کچھ لمحوں کے لیے افغان صدر اشرف غنی اپنا خطاب  روکتے ہیں اور پھر  بڑے پرجوش انداز میں  اپنی واسکٹ اورہٹا کر دکھاتے ہیں کہ میں نے کوئی بم پروف چیز نہیں پہنی ہوئی  میں اپنی جان افغان ملت پر قربان کرنے کے لیے تیار ہوں۔صدارتی محل سے کچھ فاصلے پر  افغانستان کے سابق چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبد اللہ کی تقریب حلف برداری جاری ہے جہاں  وہ افغانستان کے صدر کا حلف لے رہے ہیں اور اپنے خطاب میں افغانستان کی خدمت کا عزم کر رہے ہیں۔افغانستان کے الیکشن کمیشن نے اشرف غنی صاحب کو کامیاب قرار دیا مگر عبداللہ عبداللہ نے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنے کامیاب ہونے کا اعلان کر دیا اور اس کے ساتھ ہی کچھ صوبوں میں گورنر بھی تعینات کر دیے اور بعض پہلے سے موجود گورنروں نے عبداللہ عبداللہ کے احکامات پر عمل کرنے کا اعلان کر دیا۔

لگ یوں رہا ہے جیسے روس کے جانے کے بعد افغان مجاہدین باہم دست گریبان ہو گئے اور کہا جاتا ہے کعبہ میں ہوئے سمجھوتوں پر بھی  قائم نہ رہے، اب بھی کچھ ویسی ہی صورتحال سامنے آ رہی ہے۔ افغان طالبان نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں کسی بھی سطح پر افغان حکومت کو ایک فریق کے طور پر قبول نہیں کیا، بلکہ امریکہ کی ایک نمائندہ انتظامیہ قرار دیا ہے۔ اب جب امریکہ جا رہا ہے تو اس انتظامیہ کے بھی دو حصے ہو کر باہم دست و گربیان ہو چکے ہیں اور ایک ہی ملک میں دو انتظامیہ کی صورتحال پیدا ہو چکی ہے، جس کا نتیجہ کسی  بھی وقت خانہ جنگی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ افغانستان میں ویسے تو کئی گروہ موجود ہیں مگر افغان طالبان کے امریکہ سے معاہدے اور دیگر کئی وجوہات کی بنیاد پر کچھ  انتہائی متشدد عناصر داعش کی طرف جا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عبدالعلی مزاری کی برسی اور افغان صدر کی تقریب حلف برداری پر حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔ یوں سیاسی قیادت بھی متحارب ہو چکی ہے اور لڑنے والے گروپ بھی دو شدید نظریاتی گروہوں میں تقسیم ہو چکےہیں۔ یہ تقسیم در تقسیم کی وہی صورتحال ہے، جس میں ملکوں میں خانہ جنگی ہو جاتی ہے۔

افغانستان کو پر امن بنانے کے لیے مذکرات جاری تھے اور قطر پچھلے کئی سال سے افغان طالبان اور امریکی مذاکرات کا مرکز بنا ہوا ہے، افغان طالبان کو امریکی منظوری سے قطر میں دفتر قائم کرنے کی اجازت دی گئی تاکہ امریکہ براہ راست  افغان طالبان سے مذاکرات کر سکے۔ چند ماہ پہلے امریکہ اور طالبان کے درمیان  معاہدہ ہونے ہی والا تھا کہ امریکہ صدر نے  معمولی سے واقعہ کو بہانہ بنا کر معاہدہ نہ کرنے کا اعلان کر دیا۔ اب امریکی صدر کو الیکشن کا معرکہ درپیش ہے اس لیے  ضروری ہے کہ وہ الیکشن کے دوران امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کے کیے گئے وعدے کو پورا کرے اور افغان طالبان سے معاہدہ کر لے۔ جس واقعہ کو بنیاد بنا کر  معاہدہ ملتوی کیا گیا تھا اب اس سے بڑے واقعات کے ہونے کے باوجود معاہدہ پر بڑی دھوم سے دستخط کر دیے گئے ہیں۔ یہ تقریب بھی قطر میں ہی منعقد ہوئی، جس میں امریکہ کی طرف سے افغانستان کے بارے میں خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے دستخط کیے۔

جس کے مطابق امریکہ نے معاہدے کے تحت، 135 دن کے اندر افغانستان میں اپنی فوج کو 12 ہزار سے کم کرکے 8600 کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ افغان طالبان نے یہ بات مانی تھی کہ ہم غیر ملکی افواج پر حملے نہیں کریں گے تاکہ امریکہ فوج  آسانی انخلا مکمل کر سکے۔ امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں نے عسکریت پسندوں کی جانب سے معاہدے کو برقرار رکھنے کی صورت میں 14 ماہ کے اندر تمام فوج واپس بلانے پر اتفاق کیا ہے۔اس معاہدے میں افغان طالبان کی قید میں موجود تمام افراد کو رہا کیا جائے گا اور افغان حکومت کی قید میں موجود تمام طالبان قیدی بھی رہا کیے جائیں گے۔ پاکستان کو امریکی سرپرستی میں قائم حکومت سے کئی مسائل درپیش رہے  ان میں سے اہم سرحد پار پاکستانی طالبان کے  لیے محفوظ پناہگاہوں کا موجود ہونا تھا جہاں سے یہ دہشتگرد عناصر براہ راست پاکستان پر حملے کرتے ہیں۔اسی طرح پختون قوم پرستی کی تحریک کو ہوا دینا اور مسلسل  پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کو جاری رکھنا۔

افغانستان میں انڈیا کی ضرورت سے زیادہ فعالیت اور وہاں سے پاکستان دشمن قوتوں کی سپورٹ بھی پاکستان کے لیے مسائل پیدا کر رہی ہے۔ انڈیا نے اپنی فلم انڈسٹری  کے ذریعے افغان عوام میں نفوذ کیا ہے اور اسی طرح انفراسٹکچر میں بھاری انویسٹمنٹ کر کے بھی اپنے کردار کو بہت بڑھایا ہے، جس کے ذریعے بڑی  مکاری سے افغان نوجوان نسل کو میڈیا کے ذریعے یہ باور کرانے میں لگے ہیں کہ ہم آپ کے دوست ہیں اور پاکستان آپ کا دشمن ہے۔ ان تمام مسائل کے حل کے لیے کابل میں ایک ایسی حکومت ہی پاکستان کے مفاد میں ہے جس پر انڈین لابی کا اثر نہ ہو اور وہ پاکستان کے لیے خیر سگالی کے جذبات رکھتی ہو۔ افغانستان پچھلے چالیس سال سے خطے میں عدم استحکام کی بنیادی وجہ بن چکا ہے۔ اس عدم استحکام نے افغان عوام کو در بدر کر دیا ہے اور افغانستان کے پڑوسی ممالک افغانستان میں موجود بدامنی سے بہت زیادہ متاثرہوئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے تمام افغان دھڑے مل کر بیٹھیں اور ایک مستحکم افغانستان کی بنیاد رکھیں جو پڑوسی ممالک کے لیے دوستی اور امن کے جذبات رکھتا ہو۔
خبر کا کوڈ : 849497
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش