0
Wednesday 11 Mar 2020 14:58

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی وصیت، آئیڈیالوجی، ویژن اور حکمت عملی کے تناظر میں (3)

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی وصیت، آئیڈیالوجی، ویژن اور حکمت عملی کے تناظر میں (3)
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

گذشتہ سے پیوستہ
زیرنظر تحریر ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی شخصیت پر ڈاکٹر راشد عباس نقوی کی کتاب ’’ڈاکٹر محمد نقوی شہید آئیڈیالوجی، ویژن اور حکمت عملی کے تناظر میں‘‘، کا ایک باب ہے، جسے قارئین کے استفادہ کیلئے سلسلہ وار پیش کیا جا رہا ہے۔

میں شہید کی ذاتی زندگی کا عینی شاہد ہوں کہ شہید نے کبھی ڈرائنگ روم کی سیاست نہیں کی وہ ان لیڈروں اور قائدین میں ہرگز شامل نہ تھے کہ جو خود تو ائیرکنڈیشن کمروں اور آرام دہ ماحول میں رہیں اور کارکنوں کو مشکلات کی بھینٹ چڑھاتے رہیں۔ وہ اسطرح کی شخصیت نہ تھے کہ ذاتی مفاد ات کو اجتماعی مفادات پر ترجیح دیتے۔ وہ اسطرح کے نہ تھے کہ خود اپنی ذات اور اپنے بچوں کو سہولیات اور  پرتعیش زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کریں اور کارکنان اور ساتھیوں کو معاشرے کی سختیوں اور مشکلات کے سپرد کر دیں۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کارکنوں کی طرح زندگی گزارتے، انکے ساتھ  اٹھتے بیٹھتے ان کی خوشی و غم میں شریک رہتے اور ان کو دوسرے درجے کی مخلوق نہیں سمجھتے تھے۔ ان کی نگاہ میں کارکن کو عزت و مقام حاصل تھا اور کارکنان کی کاوشوں کو  کبھی اپنے کریڈٹ میں نہیں ڈالتے  تھے۔ وہ تنظیمی کامیابیوں کو کارکنان کی مرہون منت قرار دیتے تھے اور اسکا برملا اظہار بھی کرتے۔ وہ ان قائدین سے شکوہ کرتے ہوئے دیکھے گئے جو کارکنان اور قائدین کے درمیان طبقاتی درجہ بندی کے قائل تھے۔

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی ایسی شخصیت نہ تھے جو دوسروں کو تو امر کریں لیکن اپنے نفس کو بھول جائیں۔ انہوں نے جو دوسروں سے کہا پہلے اس پر عمل کیا۔ ریاکاری اور شعبدہ بازی ان سے کوسوں دور تھی۔ وہ خدا کے لیے کام کرتے تھے اور خدا سے ہی اس کام کے اجر کے طلبگار رہتے تھے۔ انتہائی اہم اور بڑی سطح کے اجلاسوں میں بھی کارکنوں کا دفاع اور انکی بھرپور حمایت کرتے تھے۔ میری موجودگی میں ایک مرکزی سطح کا اجلاس جاری تھا اور ایک مرکزی عہدیدار نے جو تنظیم کے وسائل سے ہمیشہ بائی ائیر سفر کے عادی تھے کارکنوں پر اعتراض کیا کہ انہوں نے فلاں جلسے کی تیاری میں دیوار نویسی، وال چاکنگ اور پوسٹر لگانے میں سستی کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ کارکنان پر بری طرح برس رہے تھے کہ ڈاکٹر شہید نے اپنے مخصوص انداز میں انہیں مخاطب کر کے کہا: برادر! آپ ہزاروں فٹ کی بلندی پر جہاز سے سفر کرتے ہیں آپکو کیا خبر کارکنوں نے کتنی محنت اور زحمت سے وال چاکنگ اور مختلف جگہوں پر پوسٹر اور اشتہارات چسپاں کیے ہیں۔ شہید کا کھانا پینا اوڑھنا بچھونا سب کارکنان کیطرح  ہوتا تھا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے انہیں آئی ایس او کے دفتر کے فرش پر اینٹ سر کے نیچے رکھ کر پرسکون سوتے دیکھا جبکہ دوسری طرف آپ سے کم سطح کے قائدین کو مہنگے ہوٹلوں اور آرام دہ بستر پر محو آرام پایا۔

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اپنے وصیت نامہ میں آگے چل کر لکھتے ہیں: ’’ کاش موت سے نہ بھاگے ہوتے ۔ کاش  لشکر خمینی  میں شمولیت اختیار کی ہوتی تو شاید ان پاک و پاکیزہ نوجوانوں کے صدقے ہم بھی بخشش کا کوئی سامان لے جاتے۔‘‘ ڈاکٹر شہید کے ان جملوں کو آئیڈیالوجی، ویژن اور حکمت عملی کے تناظر میں پرکھا جا سکتا ہے۔ موت کی حقیقت ، موت کی ابدیت، ز ندگی کا حقیقی تصور، موت کے بعد کی زندگی یہ سب اسلامی آئیڈیالوجی کا بنیادی حصہ ہے۔ اس کی طرف ہم پہلے بھی اشارہ کر چکے ہیں۔قرآن و حدیث میں موت کا مسئلہ واضح کر دیا گیا ہے۔ اسلامی افکار و نظریات میں موت جسمانی سطح پر انسان کا ایک اتمام و بظاہر اختتام  ضرور ہے لیکن ایک نئی دنیا اور ایک نئی تعمیر کی نوید بھی ہے۔ ایک مومن اس نئی تعمیر کا منتظر اور عاشق ہوتا ہے بلکہ اسے رفعت انسانی کا ایک جلوہ قرار دیتا ہے۔ علامہ اقبال کے بقول ؎
زندگی کی آگ کا انجام خاکستر نہیں
ٹوٹنا جس کا مقدر ہو یہ وہ گوہ نہیں
        آہ غافل ! موت کا راز  یہاں کچھ اور ہے
        نقش کی پائیداری سے عیاں کچھ اور ہے
موت کے ہاتھوں سے مٹ سکتا اگر نقش حیات
عام یوں اسکو نہ کر دیتا نظام کائنات
        جو ہر انسان عدم سے آشنا ہوتا نہیں
        آنکھ سے غائب تو ہوتا ہے فنا ہوتا نہیں
یہ نکتہ میں نے سیکھا ابوالحسن سے
کہ جان مرتی نہیں مرگ بدن سے
        موت تجدید مذاق زندگی کا نام ہے
        خواب کے پردے میں بیداری کا نام ہے
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتام زندگی
ہے یہ شام زندگی، صبح دوام زندگی

بہرحال قرآنی آئیڈیالوجی میں دائمی زندگی کا تصور ہے اور موت ایک ایسا نقطہ ہے، جہاں شیشہ ساعت کی رفتار رک جاتی ہے اور ریگ روان کے سارے ذرے پنہاں خانہ عدم میں گم ہو جاتے ہیں۔ موت زندگی کے حال اور مستقبل کے سنگم پر ایک ایسا خوف ہے جو ہر وقت انسان کے ذہن پر مسلط رہتا ہے اور اسے ہمیشہ کرب، ماتم اور نوحہ گری کے کرب میں مبتلا رکھتا ہے تاہم باور کرنا ضروری ہے کہ زندگی موت کی اہم تریین ثنویت ہے اور موت کے بغیر زندگی کا تصور بھی ممکن نہیں بہرحال موت ایسا بادہ  تلخ ہے، جس کا ذائقہ شاہ و گدا امیر و غریب اور پیر و جوان ہر شخص کو ایک نہ ایک دن چکھنا ہے۔

جاری ہے۔۔۔
خبر کا کوڈ : 849691
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش