0
Friday 13 Mar 2020 09:14

شہید قاسم سلیمانی اور اسلامی مُقاومت کا مُستقبل

شہید قاسم سلیمانی اور اسلامی مُقاومت کا مُستقبل
تحریر: محمد سلیم محمدی، مشہد مقدس

کتاب میزان الحِکمہ،ج5،ص231 میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام شیعوں کے صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ 1۔ شیعہ وہ ہیں کہ جو اپنے دینی بھائیوں کو اپنی ذات سے مُقدم رکھتے ہیں چاہے وہ خود ضُرورت مند کیوں نہ ہوں۔ 2۔ شیعہ وہ ہیں جو ہَر اُس چیز سے دُوری اختیار کر تے ہیں جس سے خدا نے منع فرمایا ہے اور وہ عمل انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں جِس کا خُداوند مُتعال نے حُکم دیا ہے۔ 3۔ جو مومنین کا احترام کرنے میں امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالب علیہماالسلام کی اقتداء کریں۔ تربیتی مراکز و سکول و مدارس اس لئے بنائے جاتے ہیں کہ وہاں تعلیم اور شعور دے کر جہالت و بے شعوری کا مقابلہ کیا جائے اور پھر علم آ جانے پر عمل کی دنیا میں قدم رکھا جائے تاکہ تاریکی، ظُلمت و نادانی ختم کی جا سکے ،اور پھر اِس سلسلہِ علم کو تعلیم کے مراحل سے گُذارتا ہے یعنی اُس کو ترویج دیتا ہے اور یہی فلسفہ تعلیم ہے۔

یہیں پر دو گروہ بَن جاتے ہیں الہٰی فکر و عقیدہ کے پاکیزہ مکتب کے پاکیزہ افراد اور ٹیڑھی اور کج فکری والے فاسد لوگ اس لئے کہ ایک ہی کلاس کے شاگرد ایک ہی فکر کے حامل نہیں ہوتے بلکہ مُختلف فکر رکھنے والے ہوتے ہیں ۔الہٰی فکر والے بعینہ وہی ہوتے ہیں کہ جو کلام معصوم علیہ السلام کے مصداق ہوتے ہیں ؛وہ اپنے آپ کو بھُلا دیتے ہیں مگر اپنے فکر و عقیدہ سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹتے اور اپنا سب کُچھ اِسی پاکیزہ اور ایثار والے مکتب پَر قُربان کر دیتے ہیں اور ساتھ ساتھ اِسی فکر کو پروان دیتے ہیں اور ایک الہٰی لشکر تیار کرتے ہیں جبکہ اِن کے مُقابل نفسِ امارہ کے حامل افراد ہیں کہ جو اپنی ذاتی منفعت پر ایک پورے معاشرے کو جہنم میں جھونک دیتے ہیں اِس لئے کہ جب جہالت اوج پکڑ جائے اور نفس امارہ غالب آ جائے تو انسان شیطان بَن جاتا ہے بلکہ شیطان کو بھی پیچھے چھوڑ دیتا ہے اور وہ کام انجام دیتا ہے کہ انسان کی روح کانپ اُٹھتی ہے اور کلیجہ مُنہ کو آتا ہے مگر جب ہہ مکتبِ ایثار و فداکاری کے شاگردوں کے ہتھے چڑھتے ہیں تو نہ فقط نیست و نابود ہو جاتے ہیں بلکہ مدتوں تک یہ دوسروں کیلیئے عبرت کا نشاں بَن جاتے ہیں۔

زیادہ دُور کی بات نہیں ،دَورِ حاضر تمامتر شیطانی صفات و کردار کا حامل " امریکہ " کہ جو اِس دَور کا واضح نمونہ ہے اور اِس شیطانِ بزرگ امریکہ نے وہ کام کئے کہ اکثر ممالک اور اکثر ملتوں کو مُختلف حیلوں بہانوں اور مکر و فریب کی شیطانی چالوں سے اپنا فکری غُلام بنا دیا ہے اور بنا رہا ہے اور بالخُصوص اسلامی ممالک کہ جو قدرتی ذخائر تیل ،گیس ،معدنیات وغیرہ سے مالا مال ہیں کو مُخلتف بہانوں سے مثلا سیکورٹی کے حوالے سے ،جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے،جدید تعلیم کے حوالے سے اور مُختلف طریقوں اپنا غُلام بنا چُکے ہیں اور سب سے مُہلک اور خطرناک منصوبہ اِس خطے کے مُسلمانوں کی تقسیم اور فرقہ واریت کا تھا اور اِس منصوبے پَر عرصہ دراز سے کام ہو رہا تھا ؛ اِسی فرقہ واریت کے مُہلک ہتھیار منصوبے کے تحت خلافت اسلامیہ کا جِس کا مرکز ترکی تھا کا شیرازہ بکھیر دیا اور اِس کام میں فرقہ ضالہ وہابیت کہ جِس کی بنیاد بھی انھی عیار منصوبہ ساز دُشمن اسلام قوتوں نے رکھی تھی ؛نے اس شیرازہ بندی میں اہم کردار ادا کیا اور اُس کے بعد اُنھوں نے   ' گریٹر اسرائیل اور نیو ورلڈ آرڈر " کا خطرناک ترین منصوبہ بنایا کہ جِس میں سب سے خطرناک منصوبہ " داعش" تھا کہ جِس کو ظاہری" خلافتِ اسلامیہ " کا نام دیا گیا کہ پھر اُسی داعش نے عراق و شام مِلتِ مُسلم پَر ظُلم و جبر کے وہ پہاڑ گرائے ہیں کہ بیان سے باہر ہیں، معیشت سے لیکر ناموس تک کو ظُلم کا نشانہ بنایا اور یہ ایسا کھیل تھا کہ شیطان بھی مات کھا گیا کہ مسلمانوں کا قتلِ عام، یہ بے ناموسی، یہ درندگی اسلام کے نام پَر اور نعرہ تکبیر اللہ اکبر کی گونج میں انجام دی گئی۔
بالکل ویسے کہ بقول شاعر:
عجب تماشہ ہوا اسلام کی تقدیر کے ساتھ
حُسین ع قتل ہوئے نعرہ تکبیر کے ساتھ

اور اس کھیل میں تمام ابلیسی قوتیں جمع ہو گئیں تاکہ نامِ اسلام مٹا دیا جائے اور شمع نورِ اسلام کو بُجھا دیا جائے۔ مگر اُن کی یہ ساری چالیں ناکام و نا مرادی ہوئیں ، ملتِ مظلوم کا ایسا بطل جلیل ،پرچمِ اسلام لیکر،خداوند مُتعال پَر کامل بھروسہ کر کے اُٹھا اور ایسا ڈَٹ کر مقابلہ کیا کہ چالاک و عیار و مکار ترین دُشمن کو چاروں شانے چِت گرا دیا اور اُن کے سارے شیطانی منصوبوں کو اُن کے منصوبہ سمیت خاکِ ذلت میں ملا دیا اور ایسی شکست فاش سے دوچار کیا کہ انھیں سنبھلنے کا موقع نہیں دیا اس لئے کہ وہ مکتب ایثار و فداکاری کا، مکتبِ کربلا کا اور مدافع ولایت کا شجاع و مُخلص شاگرد تھا؛وہ کوئی اور نہیں تھا وہ حاج قاسم سلیمانی تھا کہ جو مکتب عشقِ و فداکاری کا بہادر شاگرد تھا کہ جِس نے مندرجہ بالا مولا امام حسن عسکری علیہ السلام کے اِن تینوں فرامین پَر عمل کر کے دکھایا کہ حقیقی شاگرد ایسے ہوتے ہیں کہ جِس نے امریکہ و اسرائیل اور ہمنواؤں کو ناکوں چنے چبوا دیئے ۔ دُشمن؛ مسلم اُمہ کو تقسیم در تقسیم کے مراحل سے گُذار اُن کو ایک  دوسرے کیلیئے اجنبی بلکہ ایک  دوسرے کا جانی اور خُون کا پیاسا بنا دیا تھا مگر حاج قاسم سلیمانی نے اُنہیں ایک دوسرے پہ فدا ہونے والا بھائی بنا دیا اور داعش کی  شکست اِس کا مُنہ بولتا ثُبوت ہے۔

قاسم سلیمانی تاریخ کا وہ طلسماتی کردار ہے جِس کا نام ہمیشہ ہمیشہ آنے والی تاریخ کا حِصہ رہے گا۔ قاسم سلیمانی ایران کی افواج کی قُدس فورس کے سربراہ تھےاور اپنی باسٹھ یا تریسٹھ سالہ زندگی میں بےشمار اہم ترین معرکوں میں حصہ لیا اور نہ صِرف حصہ لیا بلکہ انتہائی حیرت انگیز معرکے بھی سَر کیے ۔قاسم سلیمانی نے اسرائیل کہ جو خود کو ناقابلِ تسخیر سمجھتا ہے اور نیو ورلڈ آرڈر کے ذریعے پُوری دُنیا پَر حُکومت کرنے کے خواب دیکھ رہا تھا؛کو ہر میدان میں ناکوں چنے چبوا دئیے۔ قاسم سلیمانی کی خاصیت ، سُرعت سے منصوبہ بندی اور اُس کی تکمیل تھی یعنی یہ کہ حالات خواہ کیسے ہی مُشکل کیوں نہ پیش آ جائیں قاسم سلیمانی انتہائی پُرسکون رہتے ہوئے بڑی سُرعت سے اُس کا تدارک کرتے اور انتہائی دلیرانہ قدم اُٹھاتے اور سُرخُرو ہوتے یعنی فتح و کامرانی اُن کے قدم چومتی۔ فتنہ داعش سے نمٹنا کوئی آسان کام نہیں تھا ؛داعش جیسی خُونخوار اور درندہ صفت بین الاقوامی تنظیم سے دلیرانہ مقابلہ فقط اُن کی اور اُن جیسوں کی ہمت تھی کہ جنھوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دے کر شام و عراق کو اِس منحوس ،خبیث اور درندہ صفت تنظیم کا خاتمہ کر کے وہاں کے باشندوں کو اِس لعنت سے آزادی عطا کی۔

قاسم سلیمانی کی جرات کو لاکھوں عقیدت بھرے سلام؛ اُن کی جُرات کی ایک داستان بیان کرتا ہوں کہ داعش کو پسپائی ہوئی اور اُس کے کُچھ دہشتگرد جنرل قاسم سلیمانی کی قید میں آ گئے تو اُن سے پوچھا گیا کہ تُم تو فتح کے بہت قریب تھے،پھر پیش قدمی کیوں روک دی ؟ تو اُنھوں نے جواب دیا " ہم فتح کے بہت قریب تھے لیکن جب ہمیں پتا چلا کہ ایران سے قاسم سلیمانی اپنے دستے سمیت پہنچ رہا ہے تو ہم سب کے حوصلے ٹُوٹ گئے ،حتیٰ کہ ہمارے بہت سارے ساتھی فرار بھی  کر گئے۔ اِس کے ساتھ ہی عراق میں موجود مقاماتِ مُقدسہ کی حفاظت اور داعش سے مکمل لڑائی کیلیئے جنرل قاسم سلیمانی نے " حشد الشعبی" کی بنیاد رکھی کہ جِس نے بالآخر داعش کو شکستِ فاش دے کر امریکہ و اسرائیل اور اُن کے حواریوں کی پچاس ٹریلین ڈالر کی انویسٹمنٹ کو تباہ و بربادکر کے رکھ دیا۔           

ایسے جرنیل بہت ہی کم ہیں کہ جو کنٹرول روم سے باہر بھی حتیٰ اگلے مورچوں تک اپنی فوج کے ساتھ رہے اور جنرل قاسم سلیمانی اُنہی بہت کَم میں سے ایک نادر و نایاب ہیرا تھا؛ہَر سپاہی سے آگے سب سے آگے بڑھ کر اگلے مورچے تک خود جا کر شریک ہوتا رہا، وہ ہَر کمزور کا دفاع کرنا اپنا دینی فریضہ سمجھتا تھا، جہاد سمجھ کر شوقِ شہادت کے ساتھ اُس میں شریک ہوتا تھا، اُس کو صرف اسلام عزیز تھا،اُس کیلیئے سُنی شیعہ میں کوئی فرق نہ تھا؛ اِس بات کی گواہی فلسطین کے سُنی دیتے ہیں کہ جہاں کوئی شیعہ نہیں اور اِس کا منُنہ بولتا ثُبوت اہلیانِ فلسطین اُس کی تصویر گلے سے لگائے پھرتے ہیں۔ قاسم سلیمانی زندگی بھر گریٹر اسرائیل کی راہ میں ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑا رہا اور شہید ہونے کے بعد بھی اسرائیل کے خلاف ایک عالمی جذبہ جہاد کی ایک ایسی بُنیاد رکھ گیا ہے کہ جو انشاءاللہ خطے سے امریکہ کو بھاگنے پر مجبور کر دے گا اور امریکہ کے بھاگتے ہی اسرائیل کا نجس وجود مِٹ جائے گا ان شاءاللہ اور ہر مُسلمان القدس میں جا کر نمازِ شکرانہ ادا کرے گا۔

شہید حاج سردار قاسم سلیمانی زندہ تھا تو دشمن کی آنکھوں میں خار تھا اور شہادت کے بعد اُن کی آنکھوں نیند بھی چھین لی اِس لئے کہ قومِ مُسلم اب خواب غفلت سے بیدار ہو گئی ہے ۔ یمن کا محاذ ہو یا عراق ، شام ہو یا لبنان ، خیلج فارس ہو حتیٰ خود امریکہ و یورپ کے اندر ہر با شعور اور حُریت پسند انسان جاگ کر ظُلم و ظالم کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اِس بات کا ثُبوت جب شہید کی شہادت کی خبر نشر ہوئی عراق ہو، ایران ہو،ہندوستان ہو ،پاکستان ہو،چین ہو،افریقہ ہو خود امریکہ ہو ہَر جگہ پَر غم کے جذبات دیکھنے میں آئے ،ہَر آنکھ اشکبار نظر آئی مگر پُرامید وہ بھی ایک جذبے کے تحت کہ تمام مرد و زن ،چھوٹے بڑے کوچوں سڑکوں چوراہوں پَر یہ کہتے ہوئے حتیٰ کفن پہنے ہوئے نکل آئے کہ شہید تیرا مشن اب آگے ہی بڑھے گا ،امریکہ و اسرائیل اور تمام طاغوتی طاقتیں سرنگوں ہونگی،اسرائیل صفحہ ہستی سے مِٹ جائے گا اور ظالم اپنے تمام نجس و منحوس ارادوں سمیت نیس و نابود ہو جائے گا۔

اور شہید کی زندگی میں جو اُسے جانتے تھے ؛اُس سے مُحبت کرتے تھے مگر شہادت کے بعد وہ ہَر ایک کی آنکھ  کا تارا بَن گیا،جہاں جہاں بھی اُس شہید کا جنازہ گیا ؛ایسا بے مثال استقبال ہوا کہ  چشمِ فلک نے یہ منظر نہ دیکھا ہوگا،ہَر کوئی اُس کیلیئے دیدہ براہ کیے ہوئے تھا ،مگر ساتھ ساتھ جہاں غَم تھا وہاں انتقامِ سخت اور اُمید و جذبہ شہادت کی چَمک بھی تھی، ساری قوم اتحاد و وحدت کی ایک تسبیح کے دانے کی طرح منظر پیش کر رہی تھی ۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ جب قوم کا کوئی بڑا اور اہم راہنما اِس دُنیا سے رُخصت ہوتا ہے تو اِس موقع پَر اُداسی اور مایوسی سی چھا جاتی ہے مگر اِس شہید راہِ اسلام کا کیا کہنے؟! جس طرح کہا جاتا ہے کہ مظلومِ کربلا علیہ السلام کے غم میں رونے اور آنسو بہانے سے ایک نئی زندگی اور نیا ولولہ ملتا ہے؛ وہی نظارے بعینہ اِسی شہید راہ اسلام و مدافع حرم اہل البیت علیہم السلام کے جنازے اور تدفین کے مراسم میں دیکھنے میں آ رہے تھے۔

کربلا معلیٰ، نجف اشرف، کاظمین ،سامرہ، خوزستان، مشہد مقدس، تہران ،قُم المقدسہ ،جمکران المقدسہ اور بالآخر شہر کرمان،گُلزارِ شُہداء کرمان لاکھوں افراد کا جِن مرد عورتیں، جوان بوڑھے، حتیٰ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے بھی اُس شہید راہِ اسلام و مُسلمین کیلیئے اِظہار عشق و عقیدت کر رہے تھے؛اور بات فقط یہیں پہ رہ جاتی یہاں تو منظر ہی اور تھا کرمان میں جنازے میں انتہا رش کی وجہ سے بھگدڑ میں 56 افراد جامِ شہادت نوش کر گئے جِن میں 35 مرد اور 21 خواتین تھیں مگر کوئی خوف نام کی کوئی چیز نہیں تھی بلکہ اُسی دن اعلان کیا گیا کہ سانحہ بھگدڑ کی وجہ سے تدفین کینسل کر دی ہے مگر کیا کہنے کہ کوئی بھی وہاں سے نہ گیا؛ انتہا شدید سردی، رات کا وقت، قبرستان و ویرانہ سب موجود ہیں اور جب دوسرے روز اذانِ صُبح کے بعد شہید قاسم کا ٹُکڑوں میں تقسیم لاشہ دفن کیا گیا تو سب اس کو الوداع کرنے کیلیئے موجود تھے؛یہ اُمید کی کرن ہے اور شہید کا خواب تھا کہ امریکہ کو اُس کے مظالم کا مزا ہَر صُورت میں چکھانا چاہیئے تو اُسی رات ہی رات کے ایک بجکر بیس منٹ پَر کہ جب شہید کو نشانہ بنایا گیا بالکل اُسی وقت ایرانی میزائیلوں نے عراق میں قائم امریکی اڈے عین الاسد اور اربیل پر تباہی مچا دی اور قبر پَر کھڑے اُن کے بہادر ساتھیوں نے شہید کو مخاطب ہو کر یہ اعلان کیا کہ سردار تیرا خواب پورا ہو گیا ہے۔

ہَم دیکھ رہے ہیں کہ شہید قاسم سلیمانی کے پاک خُون نے وُہ کام کیا ہے جو وہ خُود زندگی میں نہیں کر سکے۔ شہید کی شہادت کی خبر نشر ہونے کے ساتھ ہی اُسی دِن سے جو تاثیر دکھائی دی اُس کو بیان کرنا مشکل ہے لیکن کوشش کرتا ہوں کہ کچھ نکات بیان کروں:
1۔ خبر شہادت نشر ہوتے ہی پورے ایران بلکہ عالمِ اسلام میں صفِ ماتم بِچھ گئی اور ساتھ غم و غُصے کی لہر دوڑ گئی اور جگہ جگہ تعزیتی و احتجاجی جُلوس شروع ہو گئے۔
2۔ امریکہ و اسرائیل کے خلاف ہر حُریت پسند کو نفرت تھی جو اِس سانحے کے بعد اپنے اوج پَر پہنچ گئی۔
3۔ بغداد میں عوام کا غم و غُصے میں بپھرا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا جو شہداء راہ اسلام کو سلامِ عقیدت پیش کر رہا تھا۔
4۔ خود امریکی صدر ٹرمپ کہ جِس نے خود اِس قتل کا براہِ راست اقرار کیا اور ٹوئیٹ کیا تو توقع سے زیادہ جب ردعمل دیکھا تو اُس پَر خوف طاری ہو گیا اِس لیے کہ خود امریکی کانگریس اور دوسرے سرکاری و غیر سرکاری عُہدےدار اِس سانحے کی مُذمت کر رہے تھے اور خود کو اِس سے بری الذمہ قرار دے رہے تھے؛جِس سے قاتل اور اُس سانحہ میں شریک افراد میں لرزا طاری ہو گیا تھا۔
5۔عراق میں جتنے بھی امریکی فوجی ہیڈ کوارٹر ہیں اور اُن میں موجود فوج کے خلاف عراقی پارلیمنٹ میں اکثریت سے بل پاس ہوا کہ امریکہ یہاں سے چلا جائے۔

اور یہ ایسے حالات میں ہوا کہ عراق کی تمام پارٹیاں ایک دسرے کے خلاف امریکی ہمدردیاں سمیٹنے کے خیال میں تھے کہ اچانک بازی کا رُخ بدل گیا اور تمام بازی کا پانسہ پلٹ گیا اور یہ فوج عرصہ دراز سے عراق ہی قابض ہو چکے تھے بلکہ یہ کہہ رہے تھے کہ ہم یہاں مُستقل رہنے کیلیئے آئے ہیں خوف کا یہ عالَم تھا کہ سانحے کے بعد سعودی حُکومت یہ کہتی نظر آئی کہ ہم اِس واقعے میں ملوث نہیں ہیں اور اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو یہ کہہ رہا تھا کہ یہ امریکہ اور ایران کا مسئلہ ہے ہمیں اِس مسئلے میں درمیان میں نی لایا جائے۔اور سخت انتقام کے بیانیے نے دِشمن کے دلوِ میں ایسا خَوف اور وحشت طاری کر دی کہ 16سولہ ممالک کو درمیان میں لا کر ایران کو پیغام دیا گیا کہ ہم نے جتنا واقعہ انجام دیا ہے اِس سے زیادہ انتقام نہ لیا جائے حتیٰ یہاں تک کہا گیا کہ ہم اپنی حکومت اور فوج کے اہم افراد اپ کے حوالے کرتے ہیں اپ اِن کو قتل کر اپنا بدلہ لے لیں اور مسئلہ یہیں پَر ختم کر دیں۔

 یہ معجزہ اور کرامت اِس وجہ سے نظر آئی کہ شہید قاسم سلیمانی اور اُن کے رُفقاء کی شہادت نے ساری مُسلم اُمہ میں زندگی اور جذبہِ جہاد اور اُمید کی ایک نئی لہر دوڑ گئی اور پُوری دُنیا میں بالعموم اور اسلامی ممالک میں بالخُصوص امریکہ ، اسرائیل اور غاصب حکومتوں کے خلاف نفرت کا بلکہ احتجاجوں کا سلسلہ عُروج پَر پہنچ گیا ہے تحریک انتفاضہ فلسطین کہ جو پتھروں سے ظالم اسرائیلی میں ظالم فوجیوں کے خلاف مقابلہ کرتے تھے آج اِن کے پاس اسرائیل کے ساتھ مقابلے کیلیئے جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس میزائیل موجود ہیں۔ یمن کہ جو بالکل نہتا اور بھوک و افلاس کا شکار اور چاروں طرف سے ناکہ بندیوں سے گِھرا ہوا تھا؛آج اُس نے ظالم سعودی اور اُن کی اتحادی افواج کو شکست سے دوچار کر دیا ہے سعودی حکومت اب یمن والے دلدل میں ایسا پھنس چکا ہے کہ اُس سے نکلنے کی راہ نہیں مِل رہی ۔ لبنان نے ناقابل شکست اسرائیل کے خواب کو چکنا چور کر دیا ہے۔بحرین میں آل خلیفہ زوال کے نزدیک ہیں ۔نائیجیریا میں اسلامی بیداری اور مُقاومت نے نئی مثال قائم کر دی ہے ۔دُنیا میں تمام مُسلمان آپس میں مُتحد ہو رہے ہیں اور بیداری کی لہر نے سامراجیت کی نیندیں حرام کر دیں ہیں اور یہ سَب برکت ہے خون شہداء راہِ اسلام سردار حاج قاسم سلیمانی ،شہید ابومہدی المھندس اور اُن کے باوفا جانثاروں کی کہ جِس کی وجہ دُنیا واحد سپر پاور امریکہ کے ایوانوں میں لرزا طاری ہے۔

رہبرِ معظم ،ولیِ فقیہ آیۃ اللہ العظمیٰ السید علی خامنہ ای مدظلہ العالی کا شہید کی شہادت کے موقع پر انتقامِ سخت اعلان کے کتنے ممالک میں امریکی سُفراء اور بڑے بڑے عُہدے دار جان کے خوف مارے اپنے عُہدوں سے استعفیٰ دے دئیے اور خُصوصا جو جو بھی شہید قاسم سلیمانی کے قتل میں ملوث ہیں اُن پَر خوف طاری ہے انتقامِ سخت کے اعلان سے اُن پَر خواب و خُوراک حرام ہو چکی ہے اور موت سائے کی طرح اُن کا پیچھا کر کے اُن کے لئے عذاب بَن گئی ہے اور یہ تحریک بیداری و مقاومت ان شاء اللہ روشن مُستقبل کے ساتھ وعدہ الہٰی بَن کر دُنیا کو ظُلم و ظالموں سے مظلوموں ،محروموں ،مستضعفوں کو نجات دلائے گی اور وعدہ الہٰی سَچ ہوگا۔
جَاءَ الحَق وَ ضَحَک الباطل     ان الباطِلَ کان ضُحُوک
آ گیا حق اور مِٹ گیا باطل     باطل نے تو مٹنا تھا
خبر کا کوڈ : 850021
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش