0
Friday 13 Mar 2020 09:25

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی وصیت، آئیڈیالوجی، ویژن اور حکمت عملی کے تناظر میں (4)

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی وصیت، آئیڈیالوجی، ویژن اور حکمت عملی کے تناظر میں (4)
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

گذشتہ سے پیوستہ
زیرنظر تحریر ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی شخصیت پر ڈاکٹر راشد عباس نقوی کی کتاب ’’ڈاکٹر محمد نقوی شہید آئیڈیالوجی، ویژن اور حکمت عملی کے تناظر میں‘‘، کا ایک باب ہے، جسے قارئین کے استفادہ کیلئے سلسلہ وار پیش کیا جا رہا ہے۔

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی موت کی آئیڈیالوجی بیان کرنے کے بعد اپنی حیات کا ویژن اگلے جملے میں بیان کرتے ہیں اور اپنی بخشش یعنی حیات زندگی یا  کامیاب امتحان کے نتیجے کا ذکر کرتے ہیں۔ گویا اس زندگی کی کامیابی و کامرانی یہ ہے کہ انسان اس دنیا سے اپنی بخشش کا سامان ساتھ لیکر جائے۔ ویژن کیطرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں اس آئیڈیالوجی پر عمل اور ویژن تک رسائی کی حکمت عملی  لشکر خمینیؒ میں شمولیت ہے۔ ڈاکٹر شہید نے یہاں پر اپنے بعد میں آنے والوں کے لیے ایک حکمت عملی بیان کر دی ہے کہ دیکھو میں نے کوشش کی ہے کہ اپنی آئیڈیالوجی اور ویژن کے تناظر میں لشکر امام خمینی رح میں شمولیت اختیار کروں لیکن جس طرح خواہش تھی اس طرح شامل نہ ہو سکا۔ البتہ ان کی یہ حسرت ان کے اپنے معیارات کے مطابق تھی ورنہ ہم نے ان کے عمل و کردارکو امام خمینی اور انکے افکار و نظریات میں ڈوبا ہوا پایا۔

 میں یہ پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان میں اگر کوئی یہ دعوی کر سکتا ہے کہ اس نے لشکر خمینی ؒمیں شامل ہو کر اپنی زمہ داری اور فریضے کو احسن طریقے سے ادا کیا تو وہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے علاوہ کوئی اور نہیں۔ میرا ذاتی مشاہدہ اس کی گواہی دیتا ہے کہ انہوں نے امام خمینی کے ہر اس حکم پر لبیک کہا جو ان تک پہنچا آپ نے لشکر خمینی میں شرکت کے لیے ایران عراق جنگ کے سخت ترین اور خطرناک ترین محاذوں پر جاکر گولوں اور میزائلوں کی بارش میں اپنی حاضری لگوائی۔ امام خمینی کے ایک معمولی اشارے پر اپنی جان کی بازی لگاتے ہوئے سعودی عرب میں جا کر لشکر امام خمینیؒ میں شمولیت کے لیے مشرکین سے بیزاری کا اعلان کیا۔ موت کی دھمکیوں اور زندانوں کے سخت ترین خطرات کے باوجود زندگی بھر خط امام کے تحفظ و فروغ اور لشکر امام خمینی میں اضافے کے لئے رات دن کوشاں رہے اور اسی ہدف کی تکمیل کے لیے جام شہادت بھی نوش کیا۔

 ڈاکٹر شہید نے اپنے وصیت نامہ میں ایک جملہ تحریر کیا ہے کہ کاش موت سے نہ بھاگے ہوتے، یہ شہید کی جہاں کسر نفسی ہے وہاں شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی سے محبت کرنے والوں اور انہیں اپنا آئیڈیل قرار دینے والوںکے لئے ایک پیغام بھی ہے۔ شہید ڈاکٹرمحمد علی نقوی نے اپنی ساری زندگی باطل اور اسلام دشمن طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی آپ جیسا دلیر اور بہادر شخص ہمارے انقلابی حلقے میں کوئی نہ تھا اور وہ اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر خطرات میں کود پڑتے تھے۔ زندگی کے متعدد مقامات پر موت ان کو چھو کر گزر گئی لیکن ان کے عمل و کردار میں ہم نے کبھی خوف کا شائبہ تک نہیں دیکھا۔ وہ اپنی زندگی کے بدلے میں کہیں بھی اپنے نظریات اور مفادات پر سودا بازی کرتے نظر نہیں آئے۔ انہیں امام خمینی کے راستے  اور حق و حقیقت کی راہوں سے ہٹانے کے لیے آمروںاور طالع آزماؤں کی ہر طرح کی دھمکیاں ملتی رہتی تھیں انہوں نے کبھی کسی مصلحت کے پیچھے چھپنے کی کوشش نہ کی۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی حقیقت میں اس جملے میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ میری زندگی تمہارے سامنے ایک کھلی کتاب کی مانند ہے۔

میری زندگی میں اگر کہیں معمولی سا بھی یہ تأثر ملتا ہے کہ میں نے موت کے خوف سے حق و حقیقت کے راستے پر مصلحت سے کام کیا ہے تو تم یہ کام ہرگز نہ کرنا۔ گویا شہید اپنے بعد میں آنے والوں کو یہ سبق دینا چاہتے ہیں کہ آپ کے ہاں مجھ سے زیادہ دلیری، بہادری، ایثار اور قربانی ہونی چاہیے ۔ اگر میرے اندر موت کا معمولی خوف بھی تھا تو تم میں نہیں ہونا چاہیے۔ ہر اچھے استاد کی طرح  انہوں نے اپنی وصیت میں بھی یہ پیغام دیا ہے کہ جس مقام پر میں نے کام ختم کیا وہاں سے آپ لوگ آغاز کریں۔ البتہ یہ ایک حقیقت  ہے کہ ڈاکٹر شہید کو ہم نے موت سے بھاگتے نہیں بلکہ موت یعنی شہادت کیطرف لپکتے دیکھا۔ وہ شہادت کے لیے بے تاب نظر آتے تھے ان کے معروف جملے ہیں جو انہوں نے موت اور شہادت کے استقبال میں کہے ہیں کہ چالیس سال سے زائد عمر کا ہو گیا ہوں لیکن شہادت نصیب نہیں ہوئی۔ لگتا ہے میرا کوئی عمل خدا کے ہاں قبول نہیں ہوا یا ان کا یہ کہنا کہ بستر پر کھانس کھانس کر مرنے کی بجائے میدان عمل میں شہادت کا متمنی ہوں۔

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے موت سے فرار کا اشارہ دیکر اپنے دوستوں کو پیغام دیا ہے کہ تمہیں مجھ سے زیادہ نڈر اور موت کے خوف سے آزاد ہونا چاہیے۔ وصیت کے اگلے حصہ میں ایک بار پھر موت، برزخ اور قیامت کا نام لیے بغیر ایک لمبے سفر پر روانگی کا پیغام دیتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’ مجھے میرے آبائی قبرستان میں دفن کیا جائے، میرے جنازے پر تنظیمی اجتماع نہ کیا جائے‘‘۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی شخصیت ان کے ان دو جملوں کے بعد اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی تنظیمی و قومی زندگی ریا اور دکھاوے سے مکمل خالی و عاری تھی۔ وہ خدا کے لیے خدمات انجام دیتے تھے اور خداوند عالم سے اس کے صلے کے امیدوار و خواستگاررہتے تھے۔ ان کی تمام زندگی بالخصوص قومیات میں انکے اخلاص کو قابل تقلید سمجھا جاتا تھا وہ ظاہری شہرت، تنظیمی نمائشی پروٹوکول، ہٹو بچو کی آوازوں، عوامی استقبالات، محافظین کے لاؤ لشکر، گاڑیوں کی قطاروں، زندہ باد و جان بھی قربان کے نعروں، جان ملت و روح ملت وغیرہ جیسے القابات، اخبارات میں کوریج، سیاسی و حکومتی لیڈروں سے ملاقات، قومی وسائل پر فائیو اسٹار ہوٹلوں میں قیام اور اپنے آپ کو عام کارکنوں سے جدا علیحدہ مخلوق سمجھنے جیسے تنظیم کش اقدامات کے شدید مخالف تھے۔

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی تنظیموں کے بانی، تمام قومی سطح کے فیصلوں میں شریک شیعہ قومیات کے آگاہ ترین فرد، ملکی اور عالمی مسائل کی گہرائیوں سے آشنا،  دین شناس، مفکر، اسٹرٹیجسٹ اور اپنی ذاتی زندگی میں کامیاب ڈاکٹر ہونے کے باوجود عام اور غریب کارکنوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا پسند کرتے تھے اور تنظیم اور جماعت کو کبھی ذاتی مفادات کے لیے استعمال نہیں کرتے تھے۔ آپکی شخصیت کا یہ پہلو انکے وصیت نامہ میں بھی نمایاں ہے۔ وہ پاک و پاکیزہ  نیت و عمل کے ساتھ اپنے رب کے حضور جانا چاہتے تھے لہذا موت کے بعد بھی اسکی آرزو کی۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے ریا اور دکھاوے سے عاری زندگی گزار کر جس اخلاص سے اپنی زندگی کا ظاہری سفر اختتام تک پہنچایا وہ اسی طرح اپنے بعد والے دوستوں سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں کہ آپ لوگ بھی اپنے خلوص، اخلاص اور للہیت کو  پروان چڑھاؤ نفس کے دھوکے میں آکر دنیا کی رنگینیوں میں نہ کھو جاؤ اور ریا اور دکھاوے کی مہلک بیماری میں مبتلا ہو کر اپنی تنظیمی و قومی خدمات کو معمولی شہرت اور حقیر مفادات کے بدلے فروخت نہ کرو۔

جاری ہے۔۔
خبر کا کوڈ : 850022
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش