0
Friday 13 Mar 2020 13:26

عالمی اسٹیبلشمنت کے آلہ کار حکمران اور پاکستان کا مستقبل

عالمی اسٹیبلشمنت کے آلہ کار حکمران اور پاکستان کا مستقبل
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

تین عشروں تک اقتدار میں رہنے والی سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) سینکڑوں سیٹیں لینے کے بعد بھی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔ متحدہ اپوزیشن ہو ہا مولانا فضل الرحمان کا دھرنا اور مارچ، پیپلز پارٹی سمیت دوسری سیاسی جماعتیں ہوں یا اسٹیبلشمنٹ، کہیں سے بھی مسلم لیگ (ن) کیلئے مثبت اشارے نظر نہیں آتے۔ اقتادر سے علیحدگی کے بعد جب نواز شریف نے جی ٹی روڈ سے سفر کرتے ہوئے ووٹ کو عزت دو کا جو نعرہ لگایا اسے وہ خود ہی بے توقیر کر چکے ہیں۔ حال ہی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماء چوہدری اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ اس وقت شریف برادران عمران خان کی حکومت کے ضامن ہیں، انہوں نے ضمانت دی ہے کہ مسلم لیگ (ن) عدم اعتماد کیصورت میں عمران خان کیخلاف ووٹ نہیں دیگی۔ لندن میں علاج کی غرض سے ریلیف لیکر جانے والے شریف برادران کی سیاسی ساکھ اس لیے بھی متاثر ہو رہی ہے کہ وہ خود تو باہر بیٹھے ہیں، پارٹی رہنماء جیلوں میں یا پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ ساتھ ہی کرپشن کا داغ بھی دھویا نہیں جا سکا۔

ایسے میں خواجہ آصف اور احسن اقبال مسلم لیگ (ن) کو اکٹھا رکھنے کیلئے کوشاں ہیں۔ جب لاہور، گوجرانوالا اور فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے اراکین پنجاب اسمبلی بنی گالا کی یاترا کر چکے ہیں۔ اس سے قبل متعدد الیکٹیبلز جہانگیر ترین کے جہاز میں بیٹھ کر اپنی اپنی پارٹیاں چھوڑ کر عمران خان سے جا ملے ہیں۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق رکن پنجاب اسمبلی نشاط ڈاہا نے کہا ہے کہ مریم نواز کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے خاموشی توڑی مسلم لیگ (ن) میں بڑے بڑے لیڈروں کو مریم نواز کے بولنے پر کافی تکلیف ہوگی، جبکہ مریم نواز نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کیساتھ اختلافات کا انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وہ بولتی ہیں تو انکے والد کی تکلیف میں اضافہ ہوگا۔ جب شریف برادران لندن گئے ہیں مسلم لیگ (ن) بکھر رہی ہیں، جس سے یہ احساس تقویت پا رہا ہے کہ لیگی قیادت کارکنوں کیساتھ ایک دفعہ پھر دھوکا کر کے کسی معاہدے کے تحت لندن میں مقیم ہے، لیکن انکے خلاف مقدمات ابھی ختم نہیں ہوئے۔

عمران خان نے اگر شریف برادران سے معاہدہ کیا ہے تو مستقبل میں اس وجہ سے سیاسی نقصان اٹھانا پڑیگا، لیکن اس صورتحال میں وزیراعلیٰ پنجاب سے ملاقات کرنے والے مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی نے اعلان کیا ہے کہ وہ انہیں مسلم لیگ (ن) کے دیگر اراکین اسمبلی کے فون آ رہے ہیں کہ قیادت کا فقدان ہے، ہم مل کر کوئی فیصلہ کرنا چاہیے، ہمیں پارٹی کو اکھٹا رکھنا ہوگا۔ اس کا مطلب ہے کہ اندرونی خلفشار کیوجہ سے مسلم لیگ (ن) بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی طاقت قیادت اور نظریاتی کارکن ہوتے ہیں، قیادت اپنے زبانی کئی دفعہ نظریے سے منحرف ہو چکی ہے، جس طرح عمران خان نے اقتدار میں آنے کے بعد وعدوں اور دعووں کی تکمیل کی بجائے کئی یوٹرن لیے ہیں اور انکی مقبولیت میں زبردست کمی آئی ہے، اسی طرح پی ایم ایل این کے پارلیمانی اجلاس میں ہر دفعہ اس پہ بحث ہو رہی ہے کہ پارٹی قیادت کو واپس آنا چاہیے یا اسکی قیادت تبدیل ہونی چاہیے۔

پارٹی پر کنٹرول کی جنگ صرف شریف خاندان تک محدود نہیں بلکہ چوہدری نثار، خواجہ آصف، رانا تنویر حسین سمیت کئی افراد کے نام سامنے آتے رہے ہیں کہ وہ پی ایم ایل این کا مستقبل ہیں۔ اس مخدوش صورتحال کے باوجود کارکنوں کو مریم نواز سے بہت ساری امیدیں وابستہ ہیں، انہیں نواز شریف اور انکے حامیوں کی مکمل حمایت بھی حاصل ہیں، اگر وہ لندن نہیں جاتی ہیں اور اپنی والدہ کلثوم نواز کیطرح آئین کی بالادستی کے نعرے پہ بظاہر ہی ڈٹ جاتی ہیں تو پارٹی کو نئی زندگی مل سکتی ہے، نواز شریف کے دھڑے کی گرفت بھی مضبوط ہو جائیگی۔ لندن کی جب بات کریں تو کراچی سے تعلق رکھنے والے قوم پرست رہنماء کا نام اور انکا طریقہ کار بھی ذہن میں آتا ہے۔ لندن اس حوالے سے بدنام ہے۔ پاکستان ہندوستان کو تقسیم سے پہلے جس طرح لندن سے کنٹرول کیا جاتا تھا، اب بھی سیاسی پناہ کے نام پر سیاسی قیادت وہاں جاتی ہے، وسائل، پشت پناہی حاصل کرتی ہے اور عالمی طاقتوں کے ذریعے اپنے مفادات کو آگے بڑھاتی ہے اور انکے ایجنڈے پرعمل درآمد کرواتی ہے۔

اس کے باوجود کہ اسٹیبلشمنٹ کا غالب عنصر شریف خاندان اور پی ایم ایل این سے نالاں ہے، لیکن عمران خان کی نااہلی اور کمزوری نے کئی حلقوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ لندن سے یہ خبریں بھی آ رہی ہیں کہ لیگی قیادت امریکہ اور برطانیہ سمیت عالمی اسٹیبلشمنٹ سے دیرینہ تعلقات کی بناء پر نئی راہیں تلاش کرنیکی کوششیں شروع کر رکھی ہیں۔ اس کے باوجود مقامی اسٹیبلشمنٹ نیب کا کسا ہوا شیکنجہ کافی ڈھیلا کر دیا ہے، عدالتوں نے آسانی سے شریف برادران کو ریلیف دیا اور اس قدر آسانی پیدا کی کہ جس کی مثال پہلے نہیں ملتی۔ جس سے نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی غیر روایتی قیادت کا محل زمین بوس ہوچکا ہے اور مریم نواز کی خاموشی کسی ڈیل کا حصہ ہے، وہ کسی انتظار میں ہیں، خطے کی صورتحال بالخصوص افغان امن معاہد اور کشمیر کا مستقبل ان حقائق سے جڑا ہوا ہے۔

یہی حال پاکستان پیپلز پارٹی اور دوسری سیاسی قوتوں کا ہے۔ آئے روز بھٹو زرادری فیملی پینترے بدلتی ہے اور اقتدار سے چمٹے رہنے کی راہیں نکالتی ہے، احتساب کے نام پر ہونے والا ڈرامہ اب بے نقاب ہو چکا ہے، یہ صرف وقتی سیاسی مفادات کے لیے جاری دیرینہ کھیل کی کا تسلسل ہے۔ اندرونی طاقتوں اور بین الاقوامی حلقوں نے جڑیں گاڑ رکھی ہیں، سیاسی جماعتیں مخصوص خاندانوں کے مفادات کیلئے مختص ہیں، بظاہر بنتی بگڑتی پارٹیاں اور تبدیل ہوتی قیادتیں مفادات کے اسی کھیل کا حصہ ہیں۔ جس طرح پی ایم ایل این اپنے بیانیے سے کئی بار انحراف اور موجودہ حکومت آئے دن یوٹرن کے باوجود پرسکون ہیں، اسکا واضح مطلب یہی ہے کہ اندرونی خلفشار اور کمزوریوں کے باوجود عالمی طاقتوں کے مہرے ہی پاکستان پر حکمران ہیں، عوام کو بیدار اور ہوشیار ہونے کی ضرورت ہے۔ حقیقت میں افغانستان کے اندر جو کٹھ پتلی سیاست جاری ہے، خطے کے دوسرے ممالک بھی تھوڑے فرق کیساتھ ویسے اپنے لوگوں کو بے وقوف بنانے میں لگے ہیں۔

 
خبر کا کوڈ : 850047
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش