0
Friday 13 Mar 2020 22:29

کورونا ہماری کیا ذمہ داری ہے؟

کورونا ہماری کیا ذمہ داری ہے؟
تحریر: سید اسد عباس
دنیا بھر میں کووڈ-19 نامی وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد ایک لاکھ 39 ہزار سے بڑھ چکی ہے جبکہ تادم تحریر 5120 لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں مریضوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، جبکہ چین میں کمی دیکھی گئی ہے۔یورپی ممالک میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 16 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جن میں سے 12 ہزار اٹلی میں ہیں جہاں وائرس سے ایک ہزار سے زیادہ افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی جا چکی ہے۔امریکہ میں اس وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد سترہ ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے۔ پاکستان میں کورونا وائرس کے مزید مریض سامنے آنے کے بعد متاثرہ افراد کی تعداد 28 ہو گئی ہے جن میں سے دو صحت یاب ہو چکے ہیں۔ دنیا بھر میں کرونا سے صحت یاب ہونے والے مریضوں کی تعداد ستر ہزار کے قریب ہے۔

امریکہ میں کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والی اموات کی وجہ سے بڑے پیمانے پر خوف پھیلا ہوا ہے اور بازارِ حصص بیٹھ گیا ہے۔ انتظامیہ پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ پہلے انھوں نے بحران کی طرف دھیاں نہیں دیا لیکن اب وہ اس تاثر کو ختم کرنے کی کوشش میں ہیں۔ انتظامیہ ویکسین بنانے یا حالات پر قابو پانے کے لیے آٹھ بلین ڈالر کا ایمرجنسی فنڈ استعمال کر رہی ہے۔ صدر ٹرمپ، نائب صدر اور دیگر اعلیٰ عہدیدار مسلسل ٹی وی پر آ کر اپ ڈیٹ دے رہے ہیں۔ لیکن اموات اور تصدیق شدہ کیسز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ واشنگٹن، کیلیفورنیا، فلوریڈا اور نیویارک سمیت کئی امریکی ریاستوں نے ایمرجنسی نافذ کر دی ہے تاکہ اس وائرس کو کمیونٹی کے ذریعے سے پھیلنے نہ دیا جائے۔ دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی اور ملحقہ علاقوں میں بھی تصدیق شدہ کیس سامنے آئے ہیں۔ حتیٰ کہ کانگریس کے اراکین کو اپنے آپ کو قرنطینہ میں رکھنا پڑا کیونکہ وہ انفیکشن زدہ شخص کے ساتھ رابطے میں آئے لیکن ناکافی ٹیسٹنگ پروسیجر اور ٹیسٹ کی زیادہ قیمت کو الزام دیا جا رہا ہے کہ ان وجوہات کی بنا پر امریکہ میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیمانے کا اندازہ نہیں ہو رہا۔

عالمی ادارہ صحت نے کورونا وائرس کو بالآخر عالمی وبا قرار دے دیا ہے حالانکہ اس سے کہیں پہلے ہی دنیا کے زیادہ تر ممالک میں یہ بیماری پھیل چکی تھی۔عالمی ادارہ صحت اب تک کورونا وائرس کے لیے عالمی وبا کی اصطلاح استعمال کرنے سے گریزاں تھا مگر اب عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس ادھانوم نے کہا ہے کہ عالمی ادارہ اب یہ اصطلاح (عالمی وبا) اس لیے استعمال کر رہا ہے کیونکہ وائرس سے نمٹنے کے لیے اقدامات کی خطرناک حد تک کمی پر گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ ڈاکٹر ٹیڈروس کا کہنا ہے کہ چند ممالک صلاحیت کی کمی کے ساتھ جدوجہد کر رہے ہیں، کچھ ممالک وسائل کی کمی کے باوجود جدوجہد کر رہے ہیں جبکہ کچھ ممالک عزم کے فقدان کے ساتھ جدوجہد کر رہے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے تمام ممالک کو یہ اقدامات اٹھانے کے لیے کہا ہے کہ ایمرجنسی کی صورتحال سے نمٹنے کے میکینزم کو مؤثر اور بہتر بنایا جائے۔ عوام کو وائرس کے خطرات سے آگاہ کیا جائے اور بتایا جائے کہ لوگ اپنے آپ کو کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ کووِڈ 19 سے متاثرہ ہر شخص کو ڈھونڈا جائے اسے الگ تھلگ رکھا جائے، ٹیسٹ کیے جائیں اور اس کے متاثرہ شخص سے متعلقہ تمام افراد کا سراغ لگایا جائے۔


دنیا بھر میں کئی ایک عالمی کھیلوں کے مقابلے چند ایک کھلاڑیوں میں کرونا کا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد روک دیئے گئے ہیں۔ کچھ مقابلے اسٹیڈیم کو بند کرکے منعقد کیے جائیں گے۔ عالمی سطح پر اجتماعات کو منسوخ کیا جارہا ہے سرحدیں بند کی جارہی ہیں، فلائٹس کو محدود کیا جارہا ہے۔ ایسے میں حکومت پاکستان نے بھی ایک ہنگامی اجلاس میں فیصلہ کیا ہے کہ ملک میں تمام سرکاری و نجی تدریسی اداروں کو پانچ اپریل تک بند کر دیا جائے گا۔ پاکستان میں ہونے والے پی ایس ایل کو بھی بند سٹیڈیمز میں منعقد کروایا جائے گا۔ تبلیغی اجتماع کو مختصر کیا جائے گا۔ بڑے اجتماعات پر پابندی ہوگی جن میں کانفرنسیں، شادی کے اجتماعات شامل ہیں مذہبی اجتماعات کے حوالے وزارت مذہبی امور اور اسلامی نظریاتی کونسل کو ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ اس بارے میں اپنی رائے دیں جس پر حکومت بعد میں فیصلہ کرے گی۔ ملک میں فقط تین ائیرپورٹس پر عالمی فلائٹس آئیں گی، یوم پاکستان کی تقاریب کو بھی منسوخ کر دیا گیا ہے۔ افغانستان اور ایران کے ساتھ سرحدوں اور راہداری نظام کو بھی معطل کر دیا گیا ہے۔

چہرے اور آنکھوں کو ہاتھ دھوئے بغیر مت چھوئیں!
ہمیں بحیثیت قوم اس وبائی صورتحال کی جانب متوجہ ہونے کی ضرورت ہے اس وائرس سے نمٹنا جہاں حکومت کی ذمہ د اری ہے وہیں ہمیں بھی اس عفریت سے مقابلہ کرنے کے لیے ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہونے میں عموماً پانچ دن لگ جاتے ہیں لیکن کچھ لوگوں میں یہ علامات بہت دیر میں بھی ظاہر ہوئیں۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ وائرس کی نگہداشت کا دورانیہ 14 دن تک کا ہے لیکن بعض محققین کا کہنا ہے کہ یہ 24 دن تک بھی ہوسکتا ہے۔ اگلے پندرہ دن تک ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ بڑے اجتماعات سے گریز کریں، پبلک مقامات، ٹرانسپورٹ، کرسی میز، موبائل دروازے اور دیگر چیزوں کو چھونے نیز ساتھی شہریوں سے مصافحہ  کے بعد اپنے ہاتھ چہرے اور آنکھوں پر نہ ملیں، جب تک ان کو کسی جراثیم کش محلول سے دھو نہ لیں۔

کھانسی اور چھینک آنے کی صورت میں اپنے چہرے کو ڈھانپ کر رکھیں نیز دوسروں کو اس سے بچائیں۔ فلو اور کورونا سے ہونے والی بیماریاں دونوں ہی سانس کی بیماریاں ہیں۔ اگرچہ یہ دونوں بظاہر ایک ہی طرح کی دکھائی دیتی ہیں لیکن دونوں بیماریاں مختلف قسم کے وائرس سے لگتی ہیں۔ دونوں ہی میں بخار چڑھتا ہے، کھانسی آتی ہے، جسم درد کرتا ہے، تھکاوٹ کا احساس رہتا ہے اور کبھی کبھار متلی یا اسہال (دست) ہوتا ہے۔یہ دونوں کچھ عرصے کے لیے بھی ہو سکتی ہیں اور ایک لمبے عرصے کے لیے بھی۔ معالجین کا کہنا ہے کہ کسی کی چھینک یا نزلے زکام کو بظاہر دیکھ کر یہ پتا لگانا ابھی ناممکن ہے کہ اسے عام فلو ہے یا کورونا وائرس۔معالجین کا کہنا ہے کہ ہم یونیورسل پریکاشن کے اصول کے مطابق جب مریضوں کے خون کا نمونہ لیتے ہیں تو ہم یہ مان کر چلتے ہیں کہ سب کو ہی کورونا ہے اور اسی طرح کی احتیاط کرتے ہیں جیسی بتائی گئی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ٹیسٹ کے بعد نتیجہ منفی نکلے۔
 
خبر کا کوڈ : 850150
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش