0
Sunday 15 Mar 2020 17:30

بھارت میں مذہبی شدت پسندی، پس پردہ عوامل

بھارت میں مذہبی شدت پسندی، پس پردہ عوامل
تحریر: مہدی پور صفا

برصغیر میں برطانوی استعمار کے خلاف شروع ہونے والی تحریک آزادی کے مرکزی رہنماوں میں سے ایک کے طور پر مہاتما گاندھی کا نام دنیا بھر میں مشہور ہے۔ وہ ایک ایسی سیاسی شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں جنہوں نے ہمیشہ شدت پسندی سے گریز اور امن کے قیام پر زور دیا تھا۔ لیکن یہی شخصیت آخرکار شدت پسندی کی بھینٹ چڑھ گئی اور اسے قتل کر دیا گیا۔ ان کا قاتل ایک شدت پسند ہندو شخص تھا جس کا نام ناٹو رام بتایا جاتا ہے۔ وہ مہاتما گاندھی پر متحدہ ہندوستان کو توڑنے کا الزام عائد کرتا تھا۔ مہاتما گاندھی کا افسوسناک انجام اور ان پر اپنی مادری سرزمین کمزور کرنے کا الزام ایک ایسے بڑے المیہ کو ظاہر کرتا ہے جو آج بھی بھارتی معاشرے میں پایا جاتا ہے۔ یہ المیہ ہر از گاہے مسلمانوں کے خلاف سرکاری امتیازی رویوں اور مسلم کش فسادات کی صورت میں ظاہر ہوتا رہتا ہے۔ یہ ایک قسم کی قومی شدت پسندی ہے جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلوانے والے ملک میں ہندو ازم کے ساتھ جڑ گئی ہے۔ اگر صورتحال اسی طرح جاری رہی تو اس بات کا خطرہ پایا جاتا ہے کہ یہ مذہبی شدت پسندی مستقبل قریب میں دنیا کی سب سے بڑی فرقہ وارانہ جنگ کا باعث بن جائے گی۔

نہرو ازم کا خاتمہ اور قومی شدت پسندی کا آغاز
بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہونے کے ناطے برطانوی استعمار سے آزادی کے دن سے لے کر 1990ء کے عشرے کے آغاز تک پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے افکار سے شدید متاثر رہا ہے۔ یہ ایسا تفکر اور نظریہ تھا جو آج کل "نہرو ازم" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ نہرو ازم مکتب فکر کی بنیاد بیسویں صدی عیسوی کے پہلے نصف میں اٹھنے والی آزادی کی تحریک کے اہداف پر استوار تھی۔ اندرونی سطح پر بھارت معیشت سے متعلق سوشلسٹک نقطہ نگاہ کے ذریعے مکمل طور پر خودکفیل ہونے اور طبقات سے عاری برابر معاشرہ تشکیل دینے کے درپے تھا۔ اس نقطہ نگاہ کی رو سے ہر قسم کی ذات پات پر مبنی تقسیم کی نفی کی گئی تھی اور ہندو ازم میں موجود اس نظریے کو مسترد کر دیا گیا تھا۔ دوسری طرف بین الاقوامی سطح پر بھی بھارت نے نان الائنڈ حکمت عملی اپنا رکھی تھی جس کے تحت امریکہ کی سربراہی میں مغربی بلاک اور سابق سوویت یونین کی سربراہی میں مشرقی بلاک کے درمیان توازن قائم کرنا مقصود تھا۔ اس مدت میں بھارت نے ان دونوں بلاکس سے باہر ممالک کے تعاون سے نان الائنڈ موومنٹ کی بنیاد رکھی جس کا بنیادی مقصد دنیا کو حکمفرما ظالمانہ عالمی نظام سے نجات دلانا تھا۔

عالمی استعماری طاقتوں کے خلاف اٹھنے والی آزادی کی تحریکوں کی مدد اور حمایت کرنا بھی بھارت کی خارجہ پالیسیوں کا حصہ تھا۔ اسی بنیاد پر بھارت نے اسرائیل کے خلاف تشکیل پانے والی سب سے پہلی فلسطینی مجاہد تنظیم کی حمایت کا اعلان کیا اور پی ایل او یا تنظیم آزادی فلسطین کو فلسطین کی نمائندہ تنظیم کے طور پر سرکاری سطح پر تسلیم کیا۔ لیکن 1980ء کی دہائی سے نہرو ازم زوال پذیر ہونا شروع ہو گیا۔ اس کی بہت سی وجوہات بیان کی گئی ہیں جن میں سے ایک بھارت کی اقتصادی ترقی کی کم شرح اور حکمران طبقے میں وسیع پیمانے پر موجود کرپشن قابل ذکر ہیں۔ 1970ء اور 1980ء کے عشروں میں بھارت کی اقتصادی ترقی کی شرح اس قدر کم تھی کہ بعض ماہرین اقتصاد مذاق کے طور پر اقتصادی پسماندگی کو بھارتی ماڈل سے تعبیر کیا کرتے تھے۔ بھارت کے اکثر شہر تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے مقابلے میں بہتر میڈیکل سہولیات فراہم کرنے سے قاصر تھے۔ اسی کی دہائی کے آخر میں بھارت کے اسٹیٹ بینک میں زرمبادلہ کے ذخائر کی سطح اتنی کم ہو چکی تھی کہ صرف آئندہ چار دن کی ملکی ضروریات پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ عالمی سطح پر بھی سوویت یونین کے زوال اور بائی پولر نظام کے خاتمے کے بعد نہرو ازم پر مبنی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہی ختم ہو کر رہ گئی تھی۔ یوں ملک میں بنیادی تبدیلیوں کا موقع فراہم ہو چکا تھا۔ اکثر سیاسی ماہرین 1989ء میں راجیو گاندھی کی شکست کو بھارت میں نہرو ازم کا خاتمہ تصور کرتے ہیں۔

ہندوتوا مکتب فکر کیا کہتا ہے؟
1990ء کے عشرے میں نہرو ازم مکتب فکر کے خاتمے کے بعد بھارت کی سیاست کی دنیا میں ہندو مذہب کی بنیاد پر مختلف قسم کی قوم پرست تحریکیں پروان چڑھنا شروع ہو گئے۔ ان تمام سیاسی تحریکوں کا مرکز ہندوتوا مکتب فکر تھا۔ یہ ایک مذہبی آئیڈیالوجی تھی جس کا بنیادی مقصد بھارت کی پوری تاریخ اور ثقافت کو ہندو تشخص کی روشنی میں از سر نو تعریف کرنا تھا۔ یہ سوچ بھارتی معاشرے میں پہلی بار 1870ء میں بانکم چندارا نامی شخص کی جانب سے پیش کی گئی تھی۔ اس کے بعد 1923ء میں یہ سوچ ایک منظم شکل کی صورت میں سامنے آئی۔ اس تحریک کی پیدائش درحقیقت برطانیہ کی جانب سے برصغیر پر قبضے کا ردعمل تھا۔ برطانوی قبضے کے باعث یہ خطہ شدید سیاسی اور اقتصادی زوال کا شکار ہوا تھا۔ ہندوتوا مکتب فکر کی رو سے جس طرح برطانوی شہری برصغیر خطے میں قابض کی حیثیت رکھتے تھے اسی طرح مسلمان بھی باہر سے آ کر قبضہ کرنے والے عناصر شمار ہوتے ہیں اور مسلمانوں کے تمام آثار کا خاتمہ پہلی ترجیح قرار دیا گیا ہے۔

شاید یہ بات آپ کو دلچسپ محسوس ہو کہ اکتوبر 2017ء میں ریاست اترپردیش کی علاقائی انتظامیہ نے ایک سیاحتی نقشہ جاری کیا تھا جس میں بین الاقوامی شہرت یافتہ سیاحتی مرکز "تاج محل" کا ذکر تک نہ تھا۔ ریاست اترپردیش کی علاقائی انتظامیہ کا یہ اقدام حتی اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی جانب سے بھی شدید اعتراض کا باعث بنا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تاج محل بین الاقوامی حفاظت شدہ تاریخی آثار میں شامل ہے۔ ریاست اترپردیش کی علاقائی انتظامیہ نے یہ کام گورنر یوگی ادیتیا ناتھ کے براہ راست حکم پر انجام دیا تھا۔ ادیتیا ناتھ گورنر بننے سے پہلے ایک برہمن ہندو تھا۔ اس نے 2014ء میں ایک سیاسی اجتماع سے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا: "اگر مسلمان ایک ہندو کو ماریں گے تو ہندو سو مسلمانوں کو مار دیں گے۔" یوگی ادیتیا ناتھ انتہائی متنازعہ شخصیت کے مالک انسان ہیں جنہوں نے 1990ء کے عشرے میں ایک شدت پسند ہندو گروہ "ہندو یووے وہینی" کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ گروہ اب تک دسیوں مساجد اور مسلمانوں کے دیگر مقامات پر دہشت گردانہ حملوں میں ملوث رہا ہے۔ ہندوتوا مکتب فکر اکیسویں صدی میں بھارت کو تمام مذاہب سے پاک کر کے مذہبی مونوپلی تشکیل دینے کا عزم رکھتا ہے۔ اس وقت بھی بھارت کے وزیراعظم نریندرا مودی سمیت بھارتیہ جنتا پارٹی کے اکثر رہنما خود کو ہندوتوا مکتب فکر کا پیروکار قرار دیتے ہیں۔

گذشتہ چند سالوں کے چند بڑے مذہبی فسادات
ہندو قوم پرست سیاسی جماعتوں کے سیاسی اثرورسوخ اور طاقت میں اضافے کے ساتھ ساتھ بھارت میں مذہبی اور لسانی تعصب پر مبنی فسادات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ چونکہ مسلمان بھارت کی سب سے زیادہ آبادی والی مذہبی اقلیت ہیں اور کل آبادی کا پندرہ فیصد حصہ تشکیل دیتے ہیں لہذا شدت پسند ہندووں کے اقدامات کا زیادہ تر نشانہ مسلمان اور ان کے مذہبی مقامات بنتے آئے ہیں۔ مثال کے طور پر ایودھیا میں واقع تاریخی مسجد بابری مسجد کی شدت پسند ہندووں کے ہاتھوں مسماری بھارت میں بڑھتی ہوئی مذہبی خلیج کا ایک واضح نمونہ ہے۔ متعصب ہندو رہنماوں کا خیال ہے کہ بابری مسجد ایک مندر کو مسمار کر کے تعمیر کی گئی تھی۔ یاد رہے یہ مسجد سولہویں صدی عیسوی میں مغل شہنشاہ ظہیرالدین بابر کے زمانے میں تعمیر ہوئی تھی۔

6 مارچ 1992ء کے دن بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما متعصب ہندو گروہوں ویشوا ہندو پراشاد اور راشٹریا اسوایم سیوک سنگھا سے وابستہ افراد کے ہمراہ بابری مسجد کے سامنے مذہبی رسومات انجام دینے کیلئے جمع ہوئے۔ اتنے میں اچانک شدت پسند ہندووں نے اس مسجد پر دھاوا بول دیا اور اسے شہید کر دیا۔ اس اقدام نے ملک بھر میں مذہبی تناو اور فرقہ واریت کو بڑھاوا دیا جس کے نتیجے میں انجام پانے والے شدت پسندانہ اقدامات میں لگ بھگ دو ہزار بیگناہ افراد قتل کر دیے گئے۔ بابری مسجد کی جگہ شدت پسند ہندووں نے ایک مندر تعمیر کرنے کی بھی کوشش کی جس کے نتیجے میں القاعدہ سے وابستہ عناصر نے 2005ء میں ہندووں پر خودکش حملہ بھی کیا۔ اگرچہ بھارت کی سپریم کورٹ نے اس جگہ کو دو حصوں میں تقسیم کر دینے کا فیصلہ دے دیا ہے لیکن ابھی تک بابری مسجد کا علاقہ بھارتی فوج کے محاصرے میں ہے اور وہاں نہ تو مسلمانوں اور نہ ہی ہندووں کو اپنی اپنی عبادت گاہیں تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ 2002ء میں جب نریندرا مودی گجرات کے وزیر اعلی تھے ایک بار پھر بڑے پیمانے پر مسلم کش فسادات کا آغاز ہوا۔ ان فسادات میں کئی مساجد کو مسمار اور 800 سے زائد مسلمانوں کو بھی شہید کر دیا گیا۔

امریکہ اور اسرائیل مودی حکومت کے حامی کیوں؟
مذکورہ بالا حقائق سے نریندرا مودی کی سربراہی میں بھارت کی موجودہ حکومت کے اندر مسلمانوں کے خلاف جلتی نفرت اور دشمنی کی آگ کا آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ملکی آئین سے کشمیر کی خاص صورتحال کا خاتمہ اور وہاں زبردستی ہندو افراد کو بسانے کی کوشش نیز مسلمان مہاجرین کو شہری حقوق حاصل کرنے کی اجازت نہ دینا ایک وسیع منصوبہ بندی اور سازش کا حصہ ہیں۔ مسلمانوں کی جانب سے نئے شہری قانون کے خلاف احتجاج کا بہانہ بنا کر شدت پسند ہندووں کا نیو دہلی کے مسلمانوں پر تشدد اور ان کا قتل عام اور دہلی پولیس کی جانب سے شدت پسند ہندووں کی مدد اور حمایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں مسلمانوں کے خلاف شدت پسندانہ اقدامات میں اضافے کی توقع رکھنی چاہئے۔ موجودہ عالمی حالات بھی اس بات کا باعث بنے ہیں کہ نریندرا مودی بین الاقوامی سطح پر کسی قسم کا موثر ردعمل سامنے نہ آنے کی امید پر تسلی سے مسلم کش فسادات کی پشت پناہی کرنے لگیں۔ چین اور امریکہ کے درمیان تاریخی مقابلہ بازی اور یہ حقیقت کہ بھارت اقتصادی میدان میں چین کا حریف ہے باعث بنی ہے کہ واشنگٹن بھارتی حکومت کے خلاف بین الاقوامی سطح پر کسی قسم کے موثر ردعمل کی راہ میں رکاوٹ بن جائے۔ بھارت چین کا جیوپولیٹیکل حریف بھی جانا جاتا ہے۔

امریکہ کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم بھی ایک اسٹریٹجک اتحادی ہونے کے ناطے نریندرا مودی حکومت اور اس کے اسلام مخالف اقدامات کی بھرپور حمایت کر رہی ہے۔ بھارت نے 1990ء کے عشرے میں اپنی خارجہ پالیسی سے نہرو ازم مکتب فکر ختم کر کے اسرائیل سے دوستانہ تعلقات استوار کرنا شروع کر دیے تھے۔ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کے دورہ اسرائیل اور اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات نئے مرحلے میں داخل ہو گئے تھے۔ بھارت اس وقت اسرائیلی اسلحہ اور فوجی مصنوعات کا بڑا خریدار تصور کیا جاتا ہے۔ بھارتی فوج اسرائیل سے ڈرون طیارے اور گائیڈڈ میزائل خریدنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اسی طرح بھارت کے فضائی ادارے نے 2015ء میں اسرائیل کا ایک فوجی سیٹلائٹ بھی فضا میں بھیجا تھا۔ دوسری طرف اسرائیل بھارت کے ذریعے پاکستان کی جوہری سرگرمیوں پر نظر رکھنے کا شدید خواہش مند ہے۔ پاکستانی حکام کا خیال ہے کہ بھارت پاکستان سے متعلق حاصل ہونے والی انٹیلی جنس معلومات اسرائیل آرمی کو فراہم کرتا ہے اور اسرائیل کے جاسوسی طیارے بھارت کی سرزمین سے مسلسل پاکستان کی جوہری سائٹس پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔

اسلامی ممالک کیا کر سکتے ہیں؟
مذکورہ بالا مطالب کی روشنی میں بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ موجودہ بھارتی حکومت ملک کے اندر اور باہر سے مسلمانوں کے خلاف شدت پسندانہ اقدامات جاری رکھنے کیلئے کافی حد تک حمایت سے برخوردار ہے۔ بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف امتیازی اور شدت پسندانہ اقدامات کو روکنے کا واحد راستہ اسلامی ممالک کی جانب سے وسیع پیمانے پر بھارتی مسلمانوں سے اظہار ہمدردی اور ان کی حمایت میں پوشیدہ ہے۔ اس وقت خلیجی ریاستوں سمیت چند عرب ممالک بھارت میں وسیع سرمایہ کاری انجام دے رہے ہیں۔ حال ہی میں سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان نے بھارت کا دورہ کیا جس میں انہوں نے کئی ارب ڈالرز کے نئے معاہدے انجام دیے ہیں۔ اسی طرح متحدہ عرب امارات اور کویت بھی بھارت سے آنے والی مصنوعات کی بڑی منڈیاں شمار ہوتے ہیں۔ بھارت میں موجود اقتصادی بحران کے پیش نظر نریندرا مودی باہر سے اقتصادی دباو کے مقابلے میں بہت زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔ لہذا یہ عرب ممالک بھارت کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو بھارتی مسلمانوں کے خلاف حکومتی سطح پر انجام پانے والے ظالمانہ اقدامات کے سدباب کیلئے بروئے کار لا سکتے ہیں۔ البتہ اس کام کیلئے خود مسلم ممالک کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی کا ہونا بہت ضروری ہے اور شاید بھارتی حکومت بھی اسی اتحاد اور ہم آہنگی کے فقدان کے باعث اپنے مسلمان شہریوں کے خلاف ظلم و ستم میں شیر ہو چکی ہے۔ لہذا اس وقت تمام اسلامی ممالک کو مل کر بھارتی مسلمان شہریوں کے حق میں آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ یہ نہ صرف وقت کی ضرورت ہے بلکہ ان کا دینی اور شرعی وظیفہ بھی ہے۔
خبر کا کوڈ : 850485
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش